"جنگ 1965 میں13 ستمبر کو کوہاٹ پر بھارت کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے بیشمار معصوم جانیں تلف ہوئی تھیں"
مرے شہر!
میں تجھ سے نادم ہوں
اس خامشی کے لیے
جب عدو تیری خوابیدہ گلیوں پہ
بھیگی ہوئی رات میں
آگ برسا رہا تھا
میں چپ تھا
مرے شہر!
میں تیرا مجرم ہوں
اس بے حسی کے لیے
جب تیرے بام و در
طاق و دہلیز و دیوار
تیرے مکینوں کے
خونِ حنا رنگ سے
تر بتر ہو رہے تھے
تو میں چشم بستہ تھا
اے مرے آباء کے مسکن!
میں تیرا گنہگار ہوں
جب ترے آئینہ رنگ چشموں سے
اک جوئے خوں آ ملی تھی
تو مرے لبوں پر
کوئی حرف ماتم نہ آیا
کہ جب تیرے زرتاب خرمن پہ
سفاک بجلی گری تھی
تو میں تیری جلتی ہوئی کھیتیوں کی طرف
با دلِ چاک و با چشمِ پُر نم نہ آیا
میں شرمندہ ہوں
اے مرے برگزیدہ بزرگوں کی بستی
کہ اس درد کی فصل میں
تیرے فرزند شاعر کی نوکِ قلم پر
ترا اسمِ اعظم نہ آیا
یہ سب کچھ بجا ہے
یہ سب کچھ بجا ہے
مگر اے مقدس زمیں!
تیری مٹی نے جب میری صورت گری کی
تو ورثے میں تو نے
مجھے ایسا دل دے دیا تھا
جو اپنے دکھوں کے سمندر نہ دیکھے
مگر دوسروں کے نمِ چشم سے باخبر ہو
مجھے تیری گِل نے وہ احساس بخشا
جو اپنے عزیزوں کی لاشوں پہ
پتھر بنا دم بخود ہو
مگر کاہشِ دیگراں پر
سدا نوحہ گر ہو
مرے شہر!
جب تیرے سینے سے
مینارِ خوں اُٹھ رہا تھا
میں اُس وقت
غافل نہیں تھا
میں بے حس نہیں تھا
مگر اس گھڑی میرا سارا وطن
ظلم کی زد میں تھا
میرا سارا چمن
آگ کی حد میں تھا
ساری دنیا کی مظلومیت ، میری آہوں میں تھی
ساری دنیا ہی میری نگاہوں میں تھی
اس سمے
تُو ہی تُو تھا
پشاور کا
لاہور کا
اور
بنگال کا نام ، کوہاٹ تھا
ساری مظلوم دنیا کے ہر شہر کا نام کوہاٹ تھا
اے مرے شہر
میرا قلم اپنے کردار پر
تجھ سے نادم سہی
خود سے نادم نہیں
تو مرا شہر ہے
پر مرا شہر تو آج ساری زمیں ہے
فقط تو نہیں ہے
شب خون از احمد فراز سے لیا گیا
مرے شہر!
میں تجھ سے نادم ہوں
اس خامشی کے لیے
جب عدو تیری خوابیدہ گلیوں پہ
بھیگی ہوئی رات میں
آگ برسا رہا تھا
میں چپ تھا
مرے شہر!
میں تیرا مجرم ہوں
اس بے حسی کے لیے
جب تیرے بام و در
طاق و دہلیز و دیوار
تیرے مکینوں کے
خونِ حنا رنگ سے
تر بتر ہو رہے تھے
تو میں چشم بستہ تھا
اے مرے آباء کے مسکن!
میں تیرا گنہگار ہوں
جب ترے آئینہ رنگ چشموں سے
اک جوئے خوں آ ملی تھی
تو مرے لبوں پر
کوئی حرف ماتم نہ آیا
کہ جب تیرے زرتاب خرمن پہ
سفاک بجلی گری تھی
تو میں تیری جلتی ہوئی کھیتیوں کی طرف
با دلِ چاک و با چشمِ پُر نم نہ آیا
میں شرمندہ ہوں
اے مرے برگزیدہ بزرگوں کی بستی
کہ اس درد کی فصل میں
تیرے فرزند شاعر کی نوکِ قلم پر
ترا اسمِ اعظم نہ آیا
یہ سب کچھ بجا ہے
یہ سب کچھ بجا ہے
مگر اے مقدس زمیں!
تیری مٹی نے جب میری صورت گری کی
تو ورثے میں تو نے
مجھے ایسا دل دے دیا تھا
جو اپنے دکھوں کے سمندر نہ دیکھے
مگر دوسروں کے نمِ چشم سے باخبر ہو
مجھے تیری گِل نے وہ احساس بخشا
جو اپنے عزیزوں کی لاشوں پہ
پتھر بنا دم بخود ہو
مگر کاہشِ دیگراں پر
سدا نوحہ گر ہو
مرے شہر!
جب تیرے سینے سے
مینارِ خوں اُٹھ رہا تھا
میں اُس وقت
غافل نہیں تھا
میں بے حس نہیں تھا
مگر اس گھڑی میرا سارا وطن
ظلم کی زد میں تھا
میرا سارا چمن
آگ کی حد میں تھا
ساری دنیا کی مظلومیت ، میری آہوں میں تھی
ساری دنیا ہی میری نگاہوں میں تھی
اس سمے
تُو ہی تُو تھا
پشاور کا
لاہور کا
اور
بنگال کا نام ، کوہاٹ تھا
ساری مظلوم دنیا کے ہر شہر کا نام کوہاٹ تھا
اے مرے شہر
میرا قلم اپنے کردار پر
تجھ سے نادم سہی
خود سے نادم نہیں
تو مرا شہر ہے
پر مرا شہر تو آج ساری زمیں ہے
فقط تو نہیں ہے
شب خون از احمد فراز سے لیا گیا