شب خون

  1. عمراعظم

    شب خون۔

    شب خون اورپھر یوں ُہوا کہ دن گزرتے گئے یاد کی شہ رگوں کا کنوارہ لہو مقتلِ وقت کے فرش پر سو گیا یاد کی شکل پر جُھرّیاں آ گئیں یاد کی آنکھ کا نور کم ہو گیا یاد کی پشت خم ہو گئی ہاتھ میں اک عصائے فراموش گاری لیئے یاد لمحوں کے سیلاب میں کھو گئی یاد آہستہ آہستہ کم ہو گئی اور پھر یوں ُہوا کہ دن...
  2. فرحت کیانی

    فراز چلو ہم پھر صف آرا ہوں

    چلو ہم پھر صف آرا ہوں چلو ہم پھر صف آرا ہوں صف آرا ہوں کہ دشمن چار سُو آئے کہ قاتل رُوبُرو آئے کہ اُن کے کاسۂ خالی میں کچھ اپنا لہو آئے کہ بُجھ جائے ہر اِک مشعل تو ظلمت کُوبکُو آئے کہ اہلِ صدق و ایماں ، بے سہارا ہوں چلو ہم پھر صف آرا ہوں صف آرا ہوں کہ پہلے بھی ستم ایجاد آئے تھے نشاںِ ظلم...
  3. فرحت کیانی

    فراز میں کیوں اُداس نہیں

    میں کیوں اُداس نہیں لُہولہان مرے شہر میرے یار شہید مگر یہ کیا کہ مری آنکھ ڈبڈبائی نہیں نظر کے زخً جگر تک پہنچ نہیں پائے کہ مجھ کو منزلِ اظہار تک رسائی نہیں میں کیا کہوں کہ پشاور سے چاٹگام تلک مرے دیار نہیں تھے کہ میرے بھائی تھے وہی ہوں میں مرا دل بھی وہی جنوں بھی وہی کسی پر تیر چلے جاں فگار...
  4. ا

    فراز سید الشہدا

    دشت غربت میں صداقت کے تحفظ کے لئے تو نے جاں دے کے زمانے کو ضیا بخشی تھی ظلم کی وادئ خونیں میں قدم رکھا تھا حق پرستوں کو شہادت کی ادا بخشی تھی آتشِ دہر کو گلزار بنایا تو نے تو نے انسان کی عظمت کو بقا بخشی تھی اور وہ آگ وہ ظلمت وہ ستم کے پرچم ترے ایثار ترے عزم سے شرمندہ ہوئے جرات...
  5. ا

    فراز یہ پرچمِ جاں

    یہ پرچمِ جاں (تحریک آزادی کشمیر کی نذر) جنت میں بھڑک رہے تھے شعلے پھولوں کی جبیں جھلس گئی تھی شبنم کو ترس گئی تھی شاخیں گلزار میں‌آگ بس گئی تھی نغموں کا جہاں تھا ریزہ ریزہ اک وحشتِ درد کُو بکُو تھی ہر دل تھا بجھا چراغ گویا ہر چشمِ طلب لہو لہو تھی میں اور میرے رفیق برسوں خاموش...
  6. ا

    فراز اے مرے شہر!

    "جنگ 1965 میں‌13 ستمبر کو کوہاٹ پر بھارت کی وحشیانہ بمباری کی وجہ سے بیشمار معصوم جانیں تلف ہوئی تھیں" مرے شہر! میں تجھ سے نادم ہوں اس خامشی کے لیے جب عدو تیری خوابیدہ گلیوں پہ بھیگی ہوئی رات میں آگ برسا رہا تھا میں چپ تھا مرے شہر! میں تیرا مجرم ہوں اس بے حسی کے لیے جب تیرے بام و...
  7. فرحت کیانی

    فراز ترانہ۔اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو

    اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو درد کی راتوں کو ڈھلنا ہے ہوا جیسی ہو شوق کی آگ کو مدھم نہ کرو دیوانو اپنی آواز کی لَو کم نہ کرو دیوانو پھر سے سورج کو نکلنا ہے گھٹا جیسی ہو اِن چراغوں کو تو جلنا ہے ہوا جیسی ہو یہی مٹی تھی تمہیں جان سے بڑھ کر پیاری آج اسی خاک سے ایک چشمۂ خون ہے جاری...
  8. ا

    فراز : کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے

    کب یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری ہے جب ساز سلاسل بجتے تھے ، ہم اپنے لہو میں سجتے تھے وہ رِیت ابھی تک باقی ہے ، یہ رسم ابھی تک جاری ہے کچھ اہلِ ستم ، کچھ اہلِ حشم مے خانہ گرانے آئے تھے دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری ہے...
Top