غزل یہی ہے خاک نشینوں کی زندگی کی دلیل قضا سے دور ہے ذروں کا انکسار جمیل وہی ہے ساز، ابھارے جو ڈوبتی نبضیں وہی گیت نَفَس میں جو ہوسکے تحلیل...
غزل روح پرچھائیں ہے پرچھائیں سے کب پیار ہوا جسم ہی تو وہ حقیقت ہے کہ دل دار ہوا کوئی صورت بھی تو اس جیسی نہیں یاد آتی کیسا لمحہ تھا کہ اک عمر کا...
تلخئی زیست کا احساس گوارا بھی نہیں کیا کروں دوست مجھے ضبط کا یارا بھی نہیں اُن کی مجبوری میرے شوق کی رسوائی بنی تو نے اے جذبہ بیتاب سنبھالا بھی...
جو ڈبو دیں وہ سمندر ہی بھلے فیلسوفوں سے قلندر ہی بھلے گر ہٹاؤ تو اُلجھتے بھی نہیں تم سے تو راہ کے پتھر ہی بھلے جب تباہی پہ تلے خود بھی مٹے...
بات ہی کیا تھی چلے آتے جو پل بھر کے لیے یہ بھی اک عمر ہی ہو جاتی مرے گھر کے لیے بت کدہ چھوڑ کے آئے تھےحرم میں اے شیخ تو ہی انصاف سے کہہ دے اسی...
بہار گریۂ شبنم کا راز کیا جانے یہ اس سے پوچھ کہ دیکھے ہوں جس نے ویرانے شریکِ بزم ہوئی جب سے چشم ساقی بھی ہر ایک جام سے چھلکے ہزار مے خانے تمام...
کبھی قاتِل ، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے ہائے کیا چیز یہ سینے کی جلن ہوتی ہے چھیڑیے قصۂ اغیار ہی ، ہم سُن لیں گے کچھ تو کہئے کہ خموشی سے گھٹن ہوتی...
اے نگارانِ خوب رُو، آؤ ہو کے دیکھو تو دُو بدو، آؤ یوں نہ دیکھو کہ راہرو ہو گا تھی تمہاری ہی جستجو، آؤ اے غزالانِ خوش خرام، رُکو اِک ذرا دیر...
یونہی وابستگی نہیں ہوتی دور سے دوستی نہیں ہوتی جب دلوں میں غبار ہوتا ہے ڈھنگ سے بات بھی نہیں ہوتی چاند کا حسن بھی زمین سے ہے چاند پر...
ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں