ابن صفی: یہی ہے خاک نشینوں کی زندگی کی دلیل

فہد اشرف

محفلین
غزل

یہی ہے خاک نشینوں کی زندگی کی دلیل
قضا سے دور ہے ذروں کا انکسار جمیل

وہی ہے ساز، ابھارے جو ڈوبتی نبضیں
وہی گیت نَفَس میں جو ہوسکے تحلیل

دکھائی دی تھی جہاں سے گناہ کی منزل!
وہیں ہوئی تھی دلِ ناصبور کی تشکیل

سمجھ میں آئے گی تفسیر زندگی کیا خاک
که حرفِ شوق ہے اجمال بے دلی تفصیل

یہ شاہراہِ محبت ہے، آگہی کیسی!
بجھا سکو تو بجھا دو، شعور کی قنديل!

صدائے نالہ بھی آتی ہے ہم رکابِ نسیم
نہ ہو سکی ہے نہ ہو گی بہار کی تکمیل

ہزار زیست ہو پائنده تر مگر اسرار
اجل نہ ہو تو بنے کون بارِ غم کا كفیل!

اسرار ناروی
(ابنِ صفی)

 
Top