سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اس کو
(مرزا غالب رحمتہ اللہ علیہ)
سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اس سے سوا کہیں اس کو
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستایش ہے
کہو کہ خامس آل عبا کہیں اس کو
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی
کہو کہ رہبر راہ خدا کہیں اس کو
خدا کا بندہ خداوندگار بندوں...
سلام
( جبار واصف)
مرے حسین سے جو بد گمان ہو جائے
مری دعا ہے کہ وہ بے نشان ہو جائے
کروں گا پھر علی اکبر پہ گفتگو تجھ سے
خدا کرے ترا بیٹا جوان ہو جائے
منافقوں کی تسلی بہت ضروری ہے
غدیر خم کا ذرا پھر بیان ہو جائے
علی کے روپ میں ہوتا ہے یا علی پیدا
کوئی مکان اگر لا مکان ہو جائے
خدا سلاتا ہے...
غزل
(اقبال اسلم)
لڑتا ہوں بھنور سے ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
ساگر میں سما جاؤں وہ قطرہ تو نہیں ہوں
میں اپنی طرح ہوں ترے جیسا تو نہیں ہوں
بازار میں بکتا ہوا سودا تو نہیں ہوں
عکاس ہے آئینہ ابھی میری انا کا
ٹوٹا ہوں مگر ٹوٹ کے بکھرا تو نہیں ہوں
پھر سے اسی میدان میں آؤں گا پلٹ کر
کچھ پیچھے سرک آیا...
غزل
(اقبال اسلم)
سانس چلتی ہے جان باقی ہے
عشق کا امتحان باقی ہے
پر شکستہ نہ جانئے صاحب
حوصلوں کی اڑان باقی ہے
آخری تیر بھی ہے ترکش میں
ہاتھ میں بھی کمان باقی ہے
پاؤں کے نیچے ہے زمیں اب تک
سر پہ بھی آسمان باقی ہے
آندھیاں ہو گئی ہیں پھر ناکام
بستیوں میں مکان باقی ہے
غزل
(جون ایلیا رحمتہ اللہ علیہ)
آخری بار آہ کر لی ہے
میں نے خود سے نباہ کر لی ہے
اپنے سر اک بلا تو لینی تھی
میں نے وہ زلف اپنے سر لی ہے
دن بھلا کس طرح گزارو گے
وصل کی شب بھی اب گزر لی ہے
جاں نثاروں پہ وار کیا کرنا
میں نے بس ہاتھ میں سپر لی ہے
جو بھی مانگو ادھار دوں گا میں
اس گلی میں دکان کر...
غزل
(ابھنندن پانڈے)
چلو فرار خودی کا کوئی صلہ تو ملا
ہمیں ملے نہیں اس کو ہمیں خدا تو ملا
نشاط قریۂ جاں سے جدا ہوئی خوشبو
سفر کچھ ایسا ہے اب کے کوئی ملا تو ملا
ہمارے بعد روایت چلی محبت کی
نظام عالم ہستی کو فلسفہ تو ملا
جو چھوڑ آئے تھے تسکین دل کے واسطے ہم
تمہیں اے جان تمنا وہ نقش پا تو ملا...
بشر سے ثنا کیا ہو حضرت ِعلی کی
شاہ اکبر داناپوری
بشر سے ثنا کیا ہو حضرت علی کی
خدا جانتا ہے حقیقت علی کی
طریقت میں ہے فرض الفت علی کی
ہے ایمان عارف محبت علی کی
بلا کر شب وصل حضرت کو حق نے
دکھا دی سر عرش صورت علی کی
جسے سراسر کہتے ہیں صوفی
وہ ہے ابتدائے حقیقت علی کی
ابھی لے اڑیں سب...
محبوبِ دوستانِ محمد علی علی
(شیخ ابو سعید صفوی)
محبوب دوستان محمد علی علی
مطلوب عاشقان محمد علی علی
کون و مکاں ز نور رخت گشت منور
اے شمع شبستان محمدؐ علی علی
اے باب و در علم نبوت ابو تراب
سر چشمہ فیضان محمد علی علی
فرمود مصطفیٰؐ بہ مقام غدیر خم
مولائے غلامان محمد علی علی
آں ساقیٔ کوثر کہ...
غزل
(آلوک شریواستو)
روز خوابوں میں آ کے چل دوں گا
تیری نیندوں میں یوں خلل دوں گا
میں نئی شام کی علامت ہوں
خاک سورج کے منہ پہ مل دوں گا
اب نیا پیرہن ضروری ہے
یہ بدن شام تک بدل دوں گا
اپنا احساس چھوڑ جاؤں گا
تیری تنہائی لے کے چل دوں گا
تم مجھے روز چٹھیاں لکھنا
میں تمہیں روز اک غزل دوں گا
غزل
( آلوک شریواستو)
تمہارے پاس آتے ہیں تو سانسیں بھیگ جاتی ہیں
محبت اتنی ملتی ہے کہ آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
تبسم عطر جیسا ہے ہنسی برسات جیسی ہے
وہ جب بھی بات کرتی ہے تو باتیں بھیگ جاتی ہیں
تمہاری یاد سے دل میں اجالا ہونے لگتا ہے
تمہیں جب گنگناتا ہوں تو راتیں بھیگ جاتی ہیں
زمیں کی گود...
پاکستان میں موبائل اور انٹرنیٹ کے بڑھتے ہوئے رجہان کے پیش نظر اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اُردو میں پڑھنا لکھنا شروع کرے۔
رومن اُردو میں ہر دوسرے انسان کے سپیلنگ مختفلف ہیں۔ اس سلسلے میں میری ایک چھوٹی سے کاؤش۔
اُردو ٹائپنگ ٹیوٹر
یہاں پر آپ باآسانی ۵ مرحلوں میں آپ اُردو...
غزل
(عبدالحمید عدم)
ہنس ہنس کے جام جام کو چھلکا کے پی گیا
وہ خود پلا رہے تھے میں لہرا کے پی گیا
توبہ کے ٹوٹنے کا بھی کچھ کچھ ملال تھا
تھم تھم کے سوچ سوچ کے شرما کے پی گیا
ساغر بدست بیٹھی رہی میری آرزو
ساقی شفق سے جام کو ٹکرا کے پی گیا
وہ دشمنوں کے طنز کو ٹھکرا کے پی گئے
میں دوستوں کے...
غزل
(فنا نظامی کانپوری)
تو پھول کی مانند نہ شبنم کی طرح آ
اب کے کسی بے نام سے موسم کی طرح آ
ہر مرتبہ آتا ہے مہِ نو کی طرح تو
اس بار ذرا میری شبِ غم کی طرح آ
حل کرنے ہیں مجھ کو کئی پیچیدہ مسائل
اے جانِ وفا گیسوئے پُر خم کی طرح آ
زخموں کو گوارا نہیں یک رنگیِ حالات
نِشتر کی طرح آ کبھی...
غزل
(مُنشی بشیشور پرشاد منوّر لکھنوی)
یہ کس فضا میں نامِ خدا جا رہا ہوں میں
مانندِ جبرئیل اُڑا جا رہا ہوں میں
منزل مری کہاں ہے، مجھے کچھ خبر نہیں
دریا ہوں اپنی رَو میں بہا جا رہا ہوں میں
پردے سے لاؤں کیا تمہیں باہر نکال کر
اپنی نظر سے آپ چھپا جا رہا ہوں میں
نو واردانِ محفلِ ہستی، خوش آمدید...
غزل
(جگت موہن لال رواںؔ)
رواںؔ کس کو خبر عنوان آغاز ِجہاں کیا تھا
زمیں کا کیا تھا نقشہ اور رنگِ آسماں کیا تھا
یہی ہستی اسی ہستی کے کچھ ٹوٹے ہوئے رشتے
وگرنہ ایسا پردہ میرے اُن کے درمیاں کیا تھا
ترا بخشا ہوا دل اور دل کی یہ ہوسکاری
مرا اس میں قصور اے دسگیر عاصیاں کیا تھا
اگر کچھ روز زندہ رہ کے...
غزل
(ساغر صدیقی)
جب سے دیکھا پَری جمالوں کو
مَوت سی آ گئی خیالوں کو
دیکھ تشنہ لبی کی بات نہ کر
آگ لگ جائے گی پیالوں کو
پھر اُفق سے کِسی نے دیکھا ہے
مُسکرا کر خراب حالوں کو
فیض پہنچا ہے بارہا ساقی
تیرے مستوں سے اِن شوالوں کو
دونوں عالم پہ سرفرازی کا
ناز ہے تیرے پائمالوں کو
اس اندھیروں کے عہد...