کاشفی

محفلین
غزل
(جگت موہن لال رواںؔ)
رواںؔ کس کو خبر عنوان آغاز ِجہاں کیا تھا
زمیں کا کیا تھا نقشہ اور رنگِ آسماں کیا تھا

یہی ہستی اسی ہستی کے کچھ ٹوٹے ہوئے رشتے
وگرنہ ایسا پردہ میرے اُن کے درمیاں کیا تھا

ترا بخشا ہوا دل اور دل کی یہ ہوسکاری
مرا اس میں قصور اے دسگیر عاصیاں کیا تھا

اگر کچھ روز زندہ رہ کے مرجانا مقدر ہے
تو اس دنیا میں آخر باعث تخلیقِ جاں کیا تھا

ہم اتنے فاصلے پر آگئے ہیں عہدِ ماضی سے
خبر یہ بھی نہیں اجداد کا نام و نشاں کیا تھا

کسی برقِ تجلّی پر ذرا سا غور کر لینا
اگر یہ جاننا ہو عالم روح رواںؔ کیا تھا
 
غزل
(جگت موہن لال رواںؔ)
رواںؔ کس کو خبر عنوان آغاز ِجہاں کیا تھا
زمیں کا کیا تھا نقشہ اور رنگِ آسماں کیا تھا

یہی ہستی اسی ہستی کے کچھ ٹوٹے ہوئے رشتے
وگرنہ ایسا پردہ میرے اُن کے درمیاں کیا تھا

ترا بخشا ہوا دل اور دل کی یہ ہوسکاری
مرا اس میں قصور اے دسگیر عاصیاں کیا تھا

اگر کچھ روز زندہ رہ کے مرجانا مقدر ہے
تو اس دنیا میں آخر باعث تخلیقِ جاں کیا تھا

ہم اتنے فاصلے پر آگئے ہیں عہدِ ماضی سے
خبر یہ بھی نہیں اجداد کا نام و نشاں کیا تھا

کسی برقِ تجلّی پر ذرا سا غور کر لینا
اگر یہ جاننا ہو عالم روح رواںؔ کیا تھا

واہ واہ واہ کیا کہنے کیا کہنے بہت اعلیٰ
 
Top