پیش آئے گا وہ ہی لکھا جو ہے تقدیر کا
اس لیے قائل نہیں بندہ کسی تدبیر کا
خوں بہایا جس نے ناحق عاشقِ دلگیر کا
جوں شفق خوں ہو گا دامن گیر اُس بے پیر کا
غرقۂ دریا ہوا اُس زلفِ پیچاں کا اسیر
موج نے نقشہ اتارا صاف جو زنجیر کا
خاکساری سے سوا دولت کوئی دیکھی نہیں
اس کے پانے سے ہمیں رتبہ ملا اکسیر کا...