وہ آئی، ولولوں کو جگا کر چلی گئی
بیدار تجربوں کو سلا کر چلی گئی
اُر جائیں جس کے نشے سے جبریل کے حواس
ہونٹوں سے وہ شراب پلا کر چلی گئی
خس خانۂ دماغ سے اٹھنے لگا دھواں
اِس طرح دل میں آگ لگا کر چلی گئی
میرے کتاب خانۂ ہفتاد سالہ کو
ایوانِ رنگ و رقص بنا کر چلی گئی
موجوں میں جو در آئے تو قلزم...