رِیاضِ جناں ہے نثارِ مدینہ - تعشق لکھنوی (قصیدہ)

حسان خان

لائبریرین
رِیاضِ جناں ہے نثارِ مدینہ
بڑے جوش پر ہے بہارِ مدینہ
مجھے چھو بھی سکتی ہے نارِ جہنم؟
کہ مجھ پر پڑا ہے غبارِ مدینہ
نہ بیٹھا کہیں اور جز عرشِ اعظم
جب اٹھا ہوا سے غبارِ مدینہ
نہیں بھولتا روضۂ پاکِ احمد
یہ ہم لائے ہیں یادگارِ مدینہ
جو بیچے گلستانِ فردوسِ رضواں
ابھی مول لیتے ہیں خارِ مدینہ
کہوں کیوں نہ رگہائے گلہائے جنت
کہ پھولوں میں تلتے ہیں خارِ مدینہ
جو ہے نور دن میں وہی نور شب کو
برابر ہیں لیل و نہارِ مدینہ
بھلا کیا مرے آگے صحرائے محشر
پھرا ہوں میانِ دیارِ مدینہ
بناتے ہیں جاروب پرہائے قدسی
جو ہیں خاکروبِ دیارِ مدینہ
بڑا عیب ہے اے خضر کوچہ گردی
کہاں تم کہاں سبزہ زارِ مدینہ
جو گلہائے باغِ جناں کوئی توڑے
تو آواز آئے نثارِ مدینہ
ہیں آٹھوں بہشتوں کے مختار و مالک
نہال و گل و برگ و بارِ مدینہ
یہ ہے پستیِ چرخِ اخضر نظر میں
جھکاتا ہے سر سبزہ زارِ مدینہ
وہاں کی زمیں کا تصور ہے دل میں
گرہ میں بندھا ہے غبارِ مدینہ
خضر کی دعا ہے کہ اے ابرِ رحمت
ملے رتبۂ سبزہ زارِ مدینہ
پکاروں گا برگِ خزاں کی طرح سے
خبر لو مری گلعذارِ مدینہ
کہاں ہم کہاں اب وہ دن اے تعشق
کبھی تھے میانِ دیارِ مدینہ
(تعشق لکھنوی)
 
Top