فارسی شاعری مرزا غالب کی مثنوی 'ابرِ گہربار' سے مقتبس طویل منقبت (مع ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
هزار آفرین بر من و دین من
که منعم پرستیست آئین من
مجھ پر اور میرے دین پر ہزار آفریں، کہ اپنے منعم کی پرستش میرا دین ہے۔

چراغی که روشن کند خانه‌ام
تو گویی منش نیز پروانه‌ام

گویا وہ چراغ جو میرے گھر میں اجالا کرتا ہے، میں خود بھی اس کا پروانہ ہوں۔

حریفی که نوشم می از ساغرش
به هر جرعه گردم به گرد سرش

میں جس ہمدم کے ساغر سے شراب پیتا ہوں، ہر ایک گھونٹ پر اس کے قربان جاتا ہوں۔

برانم که دادار یکتاستی
فروغ حقایق ز اسماستی

میرا ایمان یہ ہے کہ دنیا کا حاکم ایک ہے، اور اس کے ناموں سے حقائق کی جلوہ گری ہے۔

به هر گوشه از عرصهٔ این طلسم

دهد روشنایی جداگانه اسم
دنیا کے اس طلسم میں جتنے گوشے ہیں، سب کو جداگانہ اسمِ خدا سے روشنی پہنچ رہی ہے۔

بران شی که هستی ضرورش بود
به اسمی ز اسما ظهورش بود

جس چیز کو بھی عالمِ ہستی میں لانا ضروری ہوتا ہے، خدا اپنے ایک اسم سے اسے پیدا کر دیتا ہے۔

کزان اسم روشن شود نام او
بدان باشد آغاز و انجام او

کیونکہ اسی اسم سے اس چیز کا نام وابستہ ہو جاتا ہے، اس کی ابتدا اور انتہا وہی اسم ہوتا ہے۔

بود هرچه بینی بسودای دوست
پرستار اسمی ز اسمای دوست

جو کچھ تمہیں نظر آتا ہے وہ سب اسی محبوب سے لو لگائے ہوئے ہے اور اس کے کسی ایک اسم کی پرستش کیے جاتا ہے۔

هر آیینه در کارگاه حال
کز آنجاست انگیزش حال و قال

یقیناَ خیال کے اس کارخانے میں کہ جس سے حال اور قال پیدا ہوتے ہیں....

لبم در شمار ولی اللهیست
دلم رازدار علی اللهیست

میرے لبوں پر ہر دم 'ولی اللہ' ہے (کہ یہ قال ہے) اور میرا دل علی اللہی کا رازدار ہے۔ (کہ یہ حال ہے)۔۔
یاد دہانی: علی اللہی ایک غالی فرقے کا نام تھا جو قائل بہ الوہیتِ حضرت علی تھا۔

چون مربوب این اسم سامیستم
نشانمند این نام نامیستم

چونکہ میں اس بلند مرتبہ اسم کا پروردہ ہوں اس لیے اس نام کا نشان مجھ پر ہے۔

بلندم بدانش نه پستم همی
بدین نام یزدان پرستم همی

میں عقل میں بلند ہوں، پست نہیں ہوں؛ اسی لیے میں اس نام سے خدا پرستی کرتا ہوں۔

نیاساید اندیشه جز با علی
ز اسما نیندیشم الا علی

خیال کو راحت اسی کے دم سے ہے اور کوئی اسم میرے تصور پر حاوی ہے تو یہی علی کا نام ہے۔

به بزم طرب همنوایم علیست
به گنج غم انده ربایم علیست

خوشی کی محفل ہو تو علی میرا رفیقِ جاں اور غم کا گوشہ ہو تو غم ہلکا کرنا والا علی ہے۔

به تنهایی‌ام رازگویی به اوست
به هنگامه‌ام پایه جویی به اوست

تنہائی میں دل کی بات اسی سے کہتا ہوں اور جب معرکہ آرائی ہو تو اسی سے مرتبے کی بلندی چاہتا ہوں۔

در آیینهٔ خاطرم رو دهد
به اندیشه پیوسته نیرو دهد

میرے دل کے آئینے میں اسی کا جلوہ نظر آتا ہے اور فکر کو ہمیشہ اسی سے قوت ملتی ہے۔

مرا ماه و مهر شب و روز اوست
دل و دیده را محفل افروز اوست

میرے لیے دن رات کا چاند اور سورج علی ہی ہے اور دل و نگاہ کی رونق اسی کے دم سے ہے۔

به صحرا به دریا براتم ازوست
به دریا ز طوفان نجاتم ازوست

صحرا اور دریا یعنی خشی اور تری دونوں جگہ نجات کی راہ دکھانے والا وہی ہے۔ دریا میں طوفان آ جائے تو وہی چھٹکارا دلاتا ہے۔

خدا گوهری را که جان خوانمش
ازان داد تا بر وی افشانمش

خدا نے یہ جوہر جسے جان کہتے ہیں اسی لیے مجھ کو عطا کیا ہے کہ میں اسے علی پر وار دوں۔

مرا مایه گر دل وگر جان بود
ازو دانم ار خود ز یزدان بود

دل و جاں کا جو سرمایہ مجھے ملا ہے، چاہے وہ خود خدا کی طرف سے ہی ملا ہو، لیکن میں اسے علی کی طرف سے شمار کرتا ہوں۔

کنم از نبی روی در بوتراب
به مه بنگرم جلوهٔ آفتاب

میں علی کی طرف منہ کر کے نبی کو دیکھتا ہوں یعنی اس چاند میں سورج کا جلوہ دیکھتا ہوں۔

ز یزدان نشاطم به حیدر بود
ز قلزم به جو آب خوشتر بود

خدا کی طرف سے جو نشاطِ روح میسر ہوتا ہے وہ مجھے حیدر سے ملتا ہے؛ کیونکہ سمندر کے پانی سے نہر کا پانی زیادہ خوشگوار ہوتا ہے۔

نبی را پذیرم به پیمان او
خدا را پرستم به ایمان او

میں علی سے عہد کی وجہ سے نبی کو مانتا ہوں، اور علی پر ایمان کی وجہ سے خدا کو مانتا ہوں۔

خدایش روا نیست هرچند گفت
علی را توانم خداوند گفت

اگرچہ علی کو خدا کہنا جائز نہیں، تاہم انہیں خداوند کہا جا سکتا ہے۔

پس از شاه کس غیر دستور نیست
خداوند من از خدا دور نیست

جس طرح بادشاہ کے بعد کسی کا مقام آتا ہے تو وزیر کا آتا ہے، اسی طرح میرا خداوند علی بھی خدا سے دور نہیں ہے، کیونکہ وہ خدا کا وزیر ہے۔

نبی را اگر سایه صورت نداشت
تردد ندارد ضرورت نداشت

نبی کا سایہ نہیں پڑتا تھا تو کون سی تعجب کی بات ہے؟‌ آخر اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔

دو پیکر دو جا در نمود آمده
اثرها بیک جا فرود آمده

وہ دو جسم تھے جو دو جگہ الگ الگ ظاہر ہوئے، مگر اُن کے اثرات ایک ہی جگہ ظاہر ہوئے۔ (اسی لیے سایہ ایک ہی نظر آیا)

دو فرخنده یار گرانمایه بین
دو قالب ز یک نور و یک سایه بین

ان دو مبارک اور گرانمایہ دوستوں کی جانب دیکھو۔۔ دیکھو کہ دونوں کے قالب ایک ہی نور اور ایک ہی سائے سے تھے۔

بدان اتحادی که صافی بود
دو تن را یکی سایه کافی بود

جو اتحاد اس قدر لطیف ہو وہاں دو جسموں کے لیے ایک ہی سایہ کافی ہوتا ہے۔

ازان سایه یکجا گرایش کند
که احمد ز حیدر نمایش کند

دونوں کا سایہ اسی لیے ایک جگہ پڑتا ہے تاکہ حیدر کی ذات سے احمد ظاہر ہوں۔

به هر سایه کافتد ز بالای او
بود از نبی سایه همپای او

اسی لیے علی کے قد سے جہاں بھی سایہ پڑتا ہے، وہاں نبی کا سایہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور ایک ہو جاتا ہے۔

زهی قبلهٔ اهل ایمان علی
به تن گشته همسایهٔ جان علی

اہلِ ایمان کے قبلہ و کعبہ علی کا کیا کہنا کہ وہ اپنے جسم سے جانِ نبی کے ہمسایہ ہو گئے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
پدیدار در خاندان نبی
به گیتی در از وی نشان نبی

نبی کے خاندان میں وہ بہت نمایاں ہیں، اور دنیا میں نبی کا نشان انہی سے قائم ہے۔

به یک سلک روشن ده و یک گهر
نبی را جگر پاره او را جگر

نور کی ایک مالا ہے جس میں گیارہ موتی ہیں (علی کے بعد کے گیارہ امام) جو نبی کے جگر کے ٹکڑے اور علی کے جگر ہیں۔

جگر پاره‌ها چون برابر نهند
بگفتن جگر نام آن بر نهند

جگر کے ٹکڑوں کو اگر ایک جگہ برابر ملا کر رکھ دیا جائے تو اُن کو جگر ہی کہا جائے گا۔

علی راست بعد از نبی جای او
همان حکم کل دارد اجزای او

نبی کے بعد اُن کی جگہ علی کے لیے ہے، اور اُن کے ٹکڑے بھی یہی 'کل' کا حکم رکھتے ہیں۔

همانا پس از خاتم المرسلین
بود تا به مهدی علی جانشین

چنانچہ خاتم المرسلین کے بعد سے مہدی تک علی ہی جانشین ہے۔

نژاد علی با محمد یکیست
محمد همان تا محمد یکیست

علی اور محمد کی اصل ایک ہی ہے، اور محمد رسول اللہ سے محمد مہدی تک سارے محمد ایک ہی ہیں۔

در احمد الف نام ایزد بود
ز میم آشکارا محمد بود

احمد کے نام میں الف ایزدِ تعالیٰ کا نام ہے، اور میم کے حرف سے محمد آشکارا ہے۔

الف میم را چون شوی خواستار
نماند ز احمد بجز هشت و چار

الف اور محمد کا اگر تو طلبگار ہو اور انہیں لے لے تو احمد میں صرف بارہ باقی بچ جاتا ہے۔
'حد' کے عدد بارہ ہیں۔

ازین نغمه کانیک ره هوش زد
بدل ذوق مدح علی جوش زد

یہ نغمہ جب ذہن میں آیا تو دل میں علی کی مدح کا جوش اٹھا۔

ز کویش به گلشن سخن می‌کنم
ستم بر گل و نسترن می‌کنم

اب میں گلشن میں اُن کے کوچے کا ذکر چھیڑتا ہوں اور گلاب اور نسترن کو شرما کر اُن پر ستم کرتا ہوں۔

ز نطقش به گفتار خوان می‌نهم
سخن را شکر در دهان می‌نهم

اُن کے کلام سے عالمِ سخن میں ایک خوان رکھتا ہوں اور سخن کے دہن میں شکر دیتا ہوں۔

ز لطفش به هستی خبر می‌دهم
به ریگ روان دجله سر می‌دهم

موجودات کو اُن کے کرم کی خبر دیتا ہوں گویا ریگِ رواں پر دجلہ بہاتا ہوں۔

علی آن ز دوش نبی را فرش
علی آن یدالله را کف کفش

علی وہ ہے کہ نبی کا کاندھا جس کی سواری بنا، علی وہ ہے کہ جس کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ ہے۔

خدا را گزین بندهٔ رازدار
خدا بندگان را خداوندگار

وہ خدا کا منتخب رازدار بندہ ہے اور خدا کے بندوں کے لیے خداوند یعنی مالک کا درجہ رکھتا ہے۔

به تن بینش افروز آفاقیان
به دم دانش آموز اشراقیان

وہ اپنے جسمانی وجود سے اہلِ دنیا کی بصیرت میں اضافہ کرتا ہے؛ وہ اپنی سانس یعنی اپنے کلام سے اشراقی فلسفیوں کو علم عطا کرتا ہے۔

به کثرت ز توحید پیوند بخش
به بی‌برگ نخل برومند بخش

وہ کثرت کو وحدت سے ربط دیتا ہے؛ وہ بے برگ محتاج کو پھل دینے والا نخل عطا کرتا ہے۔

به سایل ز خواهش فزون‌تر سپار
به لب تشنهٔ جرعه کوثر سپار

مانگنے والے کو وہ اس کی طلب سے بھی زیادہ دیتا ہے؛ اگر آدمی ایک گھونٹ کا پیاسا ہو تو وہ اسے حوضِ کوثر عطا کرتا ہے۔

نوید ظفر گردی از لشکرش
حساب نظر فردی از دفترش

اس کے لشکر سے اٹھا ہوا ذرا سا گرد و غبار فتح کی بشارت ہے اور فکر و نظر کا پورا حساب اس کے دفتر کی ایک بیاض کے برابر ہے۔

گداز غمش کیمای سرشت
غبار رهش سیمیای بهشت

اس کے غم سے پیدا ہونے والی رقتِ قلب فطرت کے لیے کیمیا ہے اور اس کی راہ سے جو غبار اٹھے وہ جنت کی آرائش ہے۔

نگه کوثر آشامد از روی او
روان تازه رو گردد از بوی او

نگاہ اس کے چہرے پر پڑتی ہے تو گویا کوثر پیتی ہے؛ اس کی مہک آ جائے تو جان میں تازگی آ جاتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
نیازرده گوشش ز آواز وحی
ضمیرش سراپردهٔ راز وحی

علی کے کانوں کو وحی سننے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی، کیونکہ اس کا اپنا ضمیر رازِ وحی کا خیمہ ہے۔ یعنی وحی کا راز اس کے دل پر خود ظاہر ہوتا ہے۔

براه حق اندر نشان‌ها ازو
به هر نکته در داستان‌ها ازو

راہِ حق میں علی سے نشاناتِ راہ موجود ہیں اور اس کے ہر نکتے میں داستانیں پوشیدہ ہیں۔

به پیوند او ربط هر سلسله
خود او را رهی خضر هر مرحله

اسی کے پیوند سے صوفیوں کا ہر سلسلہ قائم ہے؛ خضر جو دوسروں کے لیے رہنما ہیں، وہ خود ہم رمحلے میں اس کے بندے ہیں۔

گذشته به معشوقی از همسری
به دوش نبی پایش از برتری

وہ نبی کے شانے پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہوا تو برتری مل گئی اور دلبری میں وہ ہمسری کی حد سے گذر گیا۔

زمین و فلک در گذرگاه او
غبار سحرخیزی آه او

اس کی گذرگاہ میں فلک کا عرش اس کی صبح کی آہ سے غبار ہو جاتا ہے۔

اگر پاره‌ای گشته پستی گرا
بود پاره‌ای همچنان بر هوا

اس غبار کا ایک حصہ نیچے کی طرف مائل ہوا (اور زمین بن گیا)، اور دوسرا حصہ ہوا کے اوپر قائم رہا۔

بیاد حق از خواهش نفس دور
ز شادی ملول و به انده صبور

خدا کی یاد میں وہ ایسا محو ہوتا ہے کہ نفس کی خواہش پاس نہیں آتی، خوشی سے کچھ خوش نہیں ہوتا اور غم میں صبر سے کام لیتا ہے۔

به چشمی که گرید به بزم اندرون
دل آسوده خسپد به رزم اندرون

علی کی وہ آنکھیں جو بزم میں آنسو بہاتی ہیں، جنگی ہنگامے کے وقت سکھ کی نیند لیتی ہیں۔

به درویشی‌اش فر شاهنشهی
زهی خاکساری و ظل اللهی

فقیری میں وہ شاہانہ دبدبہ رکھتا ہے؛ اس کی خاکساری کے کیا کہنے! اس میں خدا کا سایہ ہونے کی صفت ہے۔

هوا و هوس گشته فرمان پذیر
به فرمان روایی حصیرش سریر

دنیاوی خواہش اس کی فرماں بردار ہیں اور فرماں روائی میں اس کا درویشانہ بوریہ ہی تخت ہے۔

خرد زله خوارش به فرزانگی
قضا پیشکارش به مردانگی

عقل اس کی دانائی سے غذا پاتی ہے اور قضائے الٰہی اس کی مروت کی نوکر ہے۔

نهانش به یاد آوری دلکشاست
عیانش بری نام مشکل کشاست

دل ہی دل میں خاموشی سے اس کی یاد راحت بخش ہے اور اگر زبان پر لاؤ تو اس کا نام مشکل کشا ہے۔

براهیم خوی سلیمان فری
مسیحا دمی مصطفی گوهری

اس میں ابراہیم کی عادتیں، سلیمان کی شان، مسیحا کا جاں بخش نفس اور محمدِ مصطفیٰ کا اصل جوہر ہے۔

لباس وفا را طراز عمل
جهان کرم را صباح ازل

لباسِ وفا کے لیے اس کا عمل آرائش ہے اور کرم کی دنیا کے لیے وہ صبحِ ازل ہے۔

نهادش به خلق خدا مهر خیز
جبینش به درگاه حق سجده ریز

اس کی طبیعت ایسی ہے کہ مخلوق اس سے محبت کرنے لگے اور اس کی پیشانی ایسی ہے کہ ہر وقت خدا کے سجدے میں مشغول رہتی ہے۔

نوید نجات اسیران غم
نظرگاه احرامیان حرم

غم کے ماروں کو مژدۂ نجات اس کی ذات سے ہے اور کعبے کا طواف کرنے والوں کی نظر اس کی طرف رہتی ہے۔

ز شش سو به سویش نگاه همه
ولادت گهش قبله گاه همه

شش جہات سے سب کی نگاہیں اس کی جانب اٹھتی ہیں اور اس کی جائے پیدائش سب کی قبلہ گاہ ہے۔

روان و خرد گردی از راه او
نه ایزد ولی کعبه درگاه او

اس کے راہ کے ذرا سے غبار سے جان اور عقل بنے ہیں، علی خدا نہیں تاہم اس کی درگاہ کعبہ ہے۔

حدوثش نمود حدوث جهان
به گردندگی درگهش آسمان

اس کا پیدا ہونا جہاں کے پیدا ہونے کا نشان ہے (یعنی وہ سببِ وجود ہے) اور اس کے درگاہ کی گردش آسمان کی گردش ہے۔

اگر خاکبازان دشت نجف
به خورشید سازی کشایند کف

دشتِ نجف کی خاک میں ہاتھ ڈالنے والے اگر خورشید بنانے پر آمادہ ہوں تو۔۔۔۔

چو انجم به شب مهر گیتی فروز
نیارند مردم شمردن بروز

جس طرح رات کو تارے شمار کرنا مشکل ہے، اسی طرح لوگ دن کو سورجوں کی تعداد بھی نہ گن سکیں گے۔

نبی را جگر تشنهٔ روی او
خدا را به خواهش نظر سوی او

نبی کا دل اس کے دیدار کا منتظر رہا ہے، اور خدا کی بھی خواہش ہے کہ اس کی طرف دیکھا کرے۔

جاری ہے۔۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
کسانی که اندازه پیش آورند
سخن‌ها ز آیین و کیش آورند

وہ لوگ جو ناپ تول کے عادی ہیں اور مذہب و عقیدے کی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔

به نادانی از شور گفتار من
سگالند زانگونه هنجار من


که آرایش گفتگو کرده‌ام
به حیدر ستایی غلو کرده‌ام

وہ نادانی کی وجہ سے میرے بیان کے جوش و خروش کو دیکھ کر میرے طریقے کے بارے میں یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ میں نے زیبِ داستاں سے کام لیا ہے اور حیدر کی ستائش میں غلو کیا ہے۔

مرا خود دل از غصه بیتاب باد
ز شرم تنک مایگی آب باد

(اے کاش) خود میرا دل غم و غصے کے مارے بے تاب ہو جائے! اور اس شرم سے کہ حوصلہ پورا نہیں ہوتا، پانی پانی ہو جائے!

چه باشد ازین بیش شرمندگی
که خور را ستایم به رخشندگی

اس سے بڑھ کر شرم کی بات بھلا کیا ہو گی کہ میں سورج کی تعریف اُس ہی کی رخشندگی سے کروں۔

به بحر از روانی سرایم سرود
به خلد از ریاحین فرستم درود

سمندر کی تعریف اس کی روانی سے کروں اور جنت کو ریحان کا تحفہ بھیجوں۔

به گلشن برم برگی از نسترن
به پیچاک سنبل فروشم شکن

نسترن کے پھول کی پتی باغ کے پاس لے جاؤں اور سنبل کے گچھے کے ہاتھ ایک شکن بیچوں۔

ستایم کسی را که در داستان
شوم با سخن آفرین همزبان

میں اور ایسی ذات کی مدح کروں کہ ستائش میں خدا کی ہم زبانی ہو جائے!

به رد و قبول کسانم چه کار
علی بایدم با جهانم چه کار

مجھے لوگوں کی پسند اور ناپسند سے کیا مطلب؟ مجھے تو صرف علی سے غرض ہے، دنیا سے کیا غرض؟

در اندیشه پنهان و پیدا علیست
سخن کز علی می‌کنم با علیست

خیال کے ظاہر و باطن میں علی ہی علی ہے؛ علی کے متعلق میں جو کچھ کہتا ہوں اس کا مخاطب بھی علی ہے۔

دلم در سخن گفتن افسرده نیست
همانا خداوند من مرده نیست

میرا دل اظہار میں افسردہ نہیں ہے، کیونکہ بے شک میرا خداوند علی زندہ ہے مردہ نہیں۔

چو خواهم حدیثی سرودن ازو
بود گفتن از من شنودن ازو

جب میں چاہتا ہوں کہ اس کی بات کروں تو میں کہتا ہوں اور وہ سنتا ہے۔

گر از بنده‌های خدا چون منی
که در خرمن ارزد به نیم ارزنی

خدا کے بندوں میں سے اگر کوئی ایک آدھ مجھ جیسا ہیچ آدمی جس کی حیثیت ڈھیر میں آدھی رائی کے دانے کے برابر ہے۔

علی را پرستد به کیش خیال
چه کم گردد از دستگاه جلال

علی کی پرستش کو ہی اپنا ایمان بنا لے تو خدا کی شان کے خزانے میں کیا کمی آ جائے گی؟

گلستان که هر سو هزارش گلست
همه سبزه و لاله و سنبلست

باغ میں دیکھو، اس میں ہر طرف ہزاروں پھول کھلے ہیں۔ جدھر دیکھو وہاں سبزہ، لالہ اور سنبل ہیں۔

اگر رفت برگ خزانی ازان
چمن را نباشد زیانی ازان

اگر اس باغ میں سے ایک خزاں زدہ پتا گیا بھی تو کیا ہوا، چمن کا اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔

ندارد غم و غصه یزدان پاک
علی را اگر بنده باشم چه باک

خدا تعالیٰ غم و غصے کے جذبات سے پاک ہے۔ لہذا اگر میں علی کی بندگی کروں تو اس میں کیا ہرج ہے؟

تو غافل ز ذوق ثنا گویی‌ام
سزا گویم و ناسزا گویی‌ام

تم لوگوں کو کیا معلوم کہ مجھے علی کی ثنا گوئی کا کتنا شوق ہے۔ میں ایک جائز بات کہتا ہوں اور تم مجھے بے جا الزام دیتے ہو۔

مرا ناسزا گفتن آیین مباد
لب من رگ ساز نفرین مباد

(اے کاش) کسی کو برا کہنا میرا شیوہ نہ ہو! میرے ہونٹوں پر کبھی نفرت کی راگنی نہ آئے۔

بود گرچه با هر کسم سینه صاف
من و ایزد البته نبود گزاف

اگرچہ ہر شخص کی طرف سے میرا دل صاف ہے لیکن خدا گواہ کہ یہ کہنا گزاف نہیں ہے۔

که تا کینه از مهر بشناختم
به کس غیر حیدر نپرداختم

کہ جس دن سے محبت اور کینے میں تمیز آئی ہے اس وقت سے علی کے سوا کسی اور کی محبت دل میں نہیں سمائی۔

جاری ہے۔۔۔
 

حسان خان

لائبریرین
جوانی برین در بسر کرده‌ام
شبی در خیالش سحر کرده‌ام

علی کے آستانے پر میں نے اپنی جوانی گذار دی اور اس کے تصور میں میں نے جوانی کی رات کاٹ دی۔

کنونم که وقت گذشتن رسید
زمان بحق بازگشتن رسید

اور اب جب کہ چلنے کا وقت آ گیا اور خدا کی طرف واپسی کا زمانہ قریب ہے۔

دمادم به جنبش درای دلست
شنیدن رهین صدای دلست

دل کوچ کا گھنٹہ بار بار بجا رہا ہے اور دل کی آواز سننے پر کان لگے ہوئے ہیں۔

که برخیز و آهنگ ره ساز ده
به جمازهٔ خفته آواز ده

دل کہتا ہے کہ اب اٹھ، سامانِ سفر تیار کر اور سوئی ہوئی اونٹنی کو آواز دے۔

به شبگیر زین تیره مسکن بر آ
بجنبان درای و برفتن در آ

رات کے اندھیرے ہی میں اس تاریک مسکن سے نکل، سفر کا گھنٹہ بجا اور چل دے۔

نجف کان نظرگاه امیدتست
طربخانهٔ عیش جاویدتست

نجف جو کہ تمہاری امید کی آخری منزل ہے، تمہیں وہیں پہنچ کر تمہیں عیشِ جاوداں نصیب ہو گا۔

نه دورست چندان که فرسخ شمار
برنجاند اندر شمردن یسار

یہاں سے نجف کا فاصلہ اتنا بھی نہیں ہے کہ کوس شمار کرنے والے کا بایاں ہاتھ گنتے گنتے تھک جائے۔

دلیرانه راهی بریدن توان
به آرامگاهی رسیدن توان

دلیرانہ یہ راہ طے ہو سکتی ہے اور اپنی آرام گاہ پر پہنچ سکتے ہو۔

برانست دل بلکه من نیز هم
که چون جان خود آنجاست تن نیز هم

دل کیا، میں خود بھی یہ طے کیے بیٹھا ہوں کہ جب میری جان وہاں پڑی ہے تو جسم کو بھی وہیں پہنچا دوں۔

بود گرچه ثابت که چون جان دهم
علی گویم و جان به یزدان دهم

اگرچہ یہ بات طے ہے کہ جب میں جان دوں گا تو علی کا نام لیتے ہوئے ہی اسے یزداں کے سپرد کروں گا۔

به هند و عراق و به گلزار و دشت
به سوی علی باشدم بازگشت

چاہے ہند ہو، عراق ہو، باغ ہو یا صحرا ہو۔۔ جہاں بھی زندگی تمام ہو گی میری روح علی کی طرف ہی واپس جائے گی۔

لیکن چو آن ناحیه دلکشست
اگر در نجف مرده باشم خوشست

لیکن چونکہ نجف کا مقام دلکش ہے اس لیے اگر میں وہیں مروں تو بہتر ہے۔

خوشا عرفی و گوهر افشاندنش
به انداز دعوی بر افشاندنش

شاعر عرفی شیرازی اور اس کی گوہر افشانی کے کیا کہنے! جو دعویٰ کیا تھا، اس کے مطابق پرواز کر کے دکھا دی۔
عرفی کے ایک مشہور شعر کا مفہوم ہے کہ: چاہے وہ مجھے ہند میں ہلاک کرے یا تتارستان میں، میں اپنی پلکوں کی کاوش سے اپنی قبر سے نجف پہنچ جاؤں گا۔

که ناگاه کار خود از پیش برد
به دشت نجف لاشهٔ خویش برد

اتفاق کی بات کہ اس نے اپنا کام چلا لیا اور اور نجف کی خاک تک اپنی لاش پہنچوا کر دم لیا۔

تن مرده چون ره به مژگان رود
اگر زنده خواهد خود آسان رود

جب مردہ اپنی پلکوں سے راہ طے کر کے جا سکتا ہے تو زندہ تو آسانی سے جا سکتا ہے۔

چو عرفی سر و برگ نازم کجا
به دعوی زبان درازم کجا

عرفی کی سی تقدیر کہاں سے لاؤں اور اس کا سا دلیرانہ دعویٰ کیسے کروں۔

چو عرفی به درگاهم آن روی کو
چنان دادرس جذبه زانسوی او

عرفی جیسی اجابت حاصل کرنے کا میرا منہ کہاں ہے؟ اُدھر سے فریاد سننے والے کا جذبہ مجھ کو کہاں ملنے والا۔

نگویم غلط با خودم خشم نیست
ز مژگان خویشم خود این چشم نیست

غلط نہیں کہہ رہا ہوں۔۔۔ اپنے آپ سے ناراض نہیں ہوں البتہ اپنی پلکوں سے اتنی امید نہیں ہے۔

مزن طعنه چون پایهٔ خاص هست
نباشد اگر جذبه اخلاص هست

جب خاص مقام حاصل ہے تو طعنہ مت دو؛ اگر جذبہ نہیں ہے، تو نہ ہو، خلوص کا رشتہ تو قائم ہے۔

چو اینست و از خواجه آن بایدم
ز غم چشم قلزم نشان بایدم

جب صورتِ حال یہ ہے اور آقا سے وہ مطلوب ہے تو ایسی آنکھیں چاہتا ہوں جو غم کے مارے دریا بہا دیں۔

ز دل گریه اندوه رشکم برد
نه مژگان مگر سیل اشکم برد

تاکہ آنسو دل سے وہ غم لے جائیں جو عرفی کے انجام بخیر پر مجھے رشک کے مارے ہوتا ہے۔ مجھے پلکیں تو نجف تک نہ پہنچائیں گی البتہ آنسو پہنچا دیں گے۔

من این کار بر خود گرفتم به چشم
به مژگان گر او رفت رفتم به چشم

میں نے خوشی خوشی یہ کام اپنے ذمے لیا ہے کہ عرفی اگر پلکوں سے وہاں تک گیا تو میں آنکھوں سے جاؤں گا۔

بگریم ز غم بو که شادم کنند
گهرسنج گنج مرا دم کنند

میں غم سے تڑپ کر روؤں گا اور امید ہے کہ مجھے شاد کیا جائے گا اور میری تمنا کا خزانہ موتیوں سے مالامال کر دیا جائے گا۔

بگریم که سیلم ز سر بگذرد
نه از سر ز دیوار و در بگذرد

اتنا روؤں گا کہ سیلابِ اشک سر سے گذر جائے گا۔۔ سر کیا دیوار و در سے گذر جائے گا۔

سرشکی که از دیدهٔ من چکد
دگر باره از چشم روزن چکد

جو آنسو میری آنکھ سے ٹپکیں گے وہ یوں رواں ہوں گے کہ روزنِ دیوار سے نکل جائیں گے۔

طلب پیشگان را به دعوی چه کار
ز بخشنده یزدانم امیدوار

جن کا کام سوال کرنا ہے انہیں دعوے سے کیا کام؟ میں تو بخشنے والے خدا سے امیدوار ہوں۔

که جان بر در بوترابم دهد
دران خاک فرمان خوابم دهد

کہ وہ ابوتراب کے آستانے پر مجھے جان بخشے گا اور وہاں پہنچا کر حکم دے گا کہ میں وہاں آخری نیند سو جاؤں۔

چه کاهد ز نیروی گردان سپهر
چه کم گردد از خوبی ماه و مهر


که دلخستهٔ دهلوی مسکنی
ز خاک نجف باشدش مدفنی

اگر دہلی کے اس دل شکستہ باشندے کا مدفن نجف کی خاک میں ہو جائے گا تو اس سے چرخِ گرداں کی قوت میں کیا کمی آ جائے گی اور ماہ و مہر کے حسن میں کیا فرق آ جائے گا؟

خدایا بدین آرزویم رسان
ز اشک من آبی بجویم رسان

اے خدا میری یہ آرزو پوری کر دے۔۔ یہ جو آنسو بہا رہا ہوں، ان کی موج میری نہر میں رواں کر دے یعنی میری مراد بر لا۔

نفس درکشم جاَی گفتار نیست
تو دانی و این از تو دشوار نیست

اب میں سانس لے کر چپ ہو جاتا ہوں۔ کہنے کی گنجائش بھی نہیں رہی۔۔۔ تو میری آرزو سے واقف ہے اور تیرے لیے اس کام کا پورا کرنا مشکل نہیں ہے۔

کزین بعد در عرصهٔ روزگار
بروی زمین یا به کنج مزار

اس کے بعد دنیا میں جہاں بھی ہوں، زمین کے اوپر یا قبر کے اندر

ز غالب نشان جز بران در مباد
چنین باد فرجام و دیگر مباد

غالب کا نشان علی کے آستانے کے سوا اور کہیں نہ ہو۔۔ غالب کا انجام یہی ہو اس کے علاوہ کوئی اور انجام نہ ہو۔

(مرزا غالب)

ختم شد
 
Top