شکریہ وارث صاحب! یہ شعر ایسے ہی کلیاتِ سودا میں درج ہے۔ البتہ حاشیے میں اس مصرعے کے کچھ متغیرات لکھے ہیں۔
آن کر ہونٹ ابھی طوطی سے مل جاؤں گا
آن کر ہونٹ ابھی طوطی کے مل جاؤں گا
آپ کو جو پسند ہے وہ بتا دیں میں تبدیلی کر دیتا ہوں۔
جن وکیل صاحب نے فیس بک پر پابندی لگوائی ہے انہیں چاہیے کہ نبی اکرم اور قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں تمام فحش سائیٹس پر بھی پابندی لگوائیں۔ مگر افسوس نبی اکرم اور قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا ہم مسلمانون کی پالیسی نہیں ہے۔
قبلہ آپ کے کہنے سے بھی ڈارون کا نظریہ غلط نہیں ہو جائے گا۔ جیسے گلیلیو نے کہا تھا کہ یہ لوگ مجھے سزا دیتے رہیں لیکن ان کے سزا دینے سے زمین سورج کے گرد گھومنا بند نہیں کر دے گی۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
جی مرا مجھ سے یہ کہتا ہے کہ ٹل جاؤں گا
ہاتھ سے دل کے ترے اب میں نکل جاؤں گا
لطف اے اشک کہ جوں شمع گھُلا جاتا ہوں
رحم اے آہِ شرر بار! کہ جل جاؤں گا
چین دینے کا نہیں زیرِ زمیں بھی نالہ
سوتوں کی نیند میں کرنے کو خلل جاؤں گا
قطرہء اشک ہوں پیارے، مرے نظّارے سے
کیوں خفا ہوتے ہو، پل مارتے ڈھل جاؤں...
جی گانا نہیں دھن چوری کی گئی۔ گانا تو ظاہر ہے بہت مختلف ہے اور یہ بات ریشماں نے بھی کہی ہے۔ اس کی آڈیو کوالٹی اتنی اچھی نہیں تھی اس لئے وہ ویڈیو شئیر نہیں کی۔
کوئی یہ بھی بتا دے کہ کتاب کا نام اور مصنف کا نام کیا ہے؟ تاکہ جو احباب یہ کتاب ڈاونلوڈ کرنا چاہیں وہ کرلیں اور جو نہ کرنا چاہیں وہ ڈاؤنلوڈ کرنے کی زحمت سے بچ سکیں۔
مطیع الرحمٰن صاحب واقعی یہ نظم ایسی ہی ہے اور یہ نظم دراصل حقیقی واقعہ ہے۔ کسی زمانے میں انور مسعود صاحب اسی سکول میں استاد تھے اور یہ واقعہ انہی کے ساتھ پیش آیا تھا۔
کبھی کاش رحم کا بھی اثر ملے چشمِ فتنہ نگاہ میں
کہ کوئی گدا ہے پڑا ہوا ترے دردِ عشق کی راہ میں
نہیں عُذر ، زاہدو لاکھ مرتبہ جائیں طوفِ حرم کو ہم
مگر ایک شرط ہے میکدہ نہ ملا کرے ہمیں راہ میں
نہیں یاد عیش و ملال١ عُمرِ گُزشتہ...