ہر ضرورت کے لیے سوچوں کے پیکر بیچنا
مفلسی اب چاہتی ہے میرے جوہر بیچنا
ہے رقم درکار بیٹے کو کتابوں کے لیے
پڑ گیا ماں باپ کو بیٹی کا زیور بیچنا
دین نے دنیا بنا دی شیخ صاحب آپ کی
راس آیا آپ کو محراب و منبر بیچنا
طور بازارِ وفا کا اور ہے کچھ ان دنوں
سوچ کر کچھ مول...