غزل برائے اصلاح "فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن"

ایک تصویر ہے جو کہ باتیں کرے
میری تحریر ہے جو کہ باتیں کرے

شوق زنداں ہو تو پھر وہاں کی میاں
وہ جو زنجیر ہے جو کہ باتیں کرے

رند کی خامشی پہ کیا بات ہو
ایسی تاثِیر ہےجو کہ باتیں کرے

غور سےتو پڑھو اس کہانی کو یار
اُس میں جو ہیر ہے جو کہ باتیں کرے

گاؤں کا ہوں میں کیا بات کرتا! وہاں
شہر کی پیر ہے جو کہ باتیں کرے

شاعری کی تو گستاخ کیا بات ہو
تحفہِ میر ہے جو کہ باتیں کرے
سر الف عین
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
ردیف بدل دوبھائی، بات بھی کرت ہے تقطیع ہونا اچھا نہیں لگتا۔
جو کہ باتیں کرے
کیسی رہے گی اگر قبول ہوتو آگے بڑھا جائے۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں ترمیم نہیں کی!!!
مطلع درست۔ لیکن اس ردیف کی وجہ سےکچھ تو تبدیلیاں کرنی ہی تھیں۔
باقی اشعار
شوق زنداں ہو تو پھر وہاں کی میاں
وہ جو زنجیر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷ پہلا مصرع روانی کا طالب ہے۔ ’میاں“ بھی بھرتی کا لگ رہا ہے۔
دوسرا مصرع بھی اب بدلی ہوئی ردیف میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ دو بار ’جو‘ چھا نہیں۔ ایک مشورہ
شوق زنداں بھی کچھ ایسا ویسا نہیں
میری زنجیر۔۔۔۔

رند کی خامشی پہ کیا بات ہو
ایسی تاثِیر ہےجو کہ باتیں کرے
÷÷ پہلا مصرع بحر سے خارج۔ مفہوم سمجھ نہیں سکا۔ اس لیے کچھ مشورہ نہیں۔

غور سےتو پڑھو اس کہانی کو یار
اُس میں جو ہیر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷’یار‘ بھرتی کا نہیں؟ یوں کہیں تو
غور سے اس کہانی کو پڑھیے ذرا
اس میں وہ ہیر ہے جو۔۔۔

گاؤں کا ہوں میں کیا بات کرتا! وہاں
شہر کی پیر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷ ’پیر‘؟ قافیہ نہیں سمجھ سکا۔ پیر مؤنث تو نہیں ہوتا

شاعری کی تو گستاخ کیا بات ہو
تحفہِ میر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷ٹھیک
 
ایک تصویر ہے جو کہ باتیں کرے
میری تحریر ہے جو کہ باتیں کرے

شوق زنداں بھی کچھ ایسا ویسا نہیں
میری زنجیر ہے جو کہ باتیں کرے

رندوں کی خود سری پہ کیا بات ہو
کچھ تو تاثِیر ہےجو کہ باتیں کرے

غور سے اس کہانی کو پڑھیے ذرا
اُس میں جو ہیر ہے جو کہ باتیں کرے

گاؤں کا ہوں میں کیا بات کرتا! وہاں
شہر کا پیر ہے جو کہ باتیں کرے

شاعری کی تو گستاخ کیا بات ہو
تحفہِ میر ہے جو کہ باتیں کرے
مطلع میں ترمیم نہیں کی!!!
مطلع درست۔ لیکن اس ردیف کی وجہ سےکچھ تو تبدیلیاں کرنی ہی تھیں۔
باقی اشعار
شوق زنداں ہو تو پھر وہاں کی میاں
وہ جو زنجیر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷ پہلا مصرع روانی کا طالب ہے۔ ’میاں“ بھی بھرتی کا لگ رہا ہے۔
دوسرا مصرع بھی اب بدلی ہوئی ردیف میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ دو بار ’جو‘ چھا نہیں۔ ایک مشورہ
شوق زنداں بھی کچھ ایسا ویسا نہیں
میری زنجیر۔۔۔۔

رند کی خامشی پہ کیا بات ہو
ایسی تاثِیر ہےجو کہ باتیں کرے
÷÷ پہلا مصرع بحر سے خارج۔ مفہوم سمجھ نہیں سکا۔ اس لیے کچھ مشورہ نہیں۔

غور سےتو پڑھو اس کہانی کو یار
اُس میں جو ہیر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷’یار‘ بھرتی کا نہیں؟ یوں کہیں تو
غور سے اس کہانی کو پڑھیے ذرا
اس میں وہ ہیر ہے جو۔۔۔

گاؤں کا ہوں میں کیا بات کرتا! وہاں
شہر کی پیر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷ ’پیر‘؟ قافیہ نہیں سمجھ سکا۔ پیر مؤنث تو نہیں ہوتا

شاعری کی تو گستاخ کیا بات ہو
تحفہِ میر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷ٹھیک
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
رندوں کی خود سری پہ کیا بات ہو
کچھ تو تاثِیر ہےجو کہ باتیں کرے
÷÷پہلا مصرع اب بھی بحر میں نہیں۔ نہ مفہوم واضح ہے

غور سے اس کہانی کو پڑھیے ذرا
اُس میں جو ہیر ہے جو کہ باتیں کرے
۔دیکھو میں نے دوسرے مصرع میں بھی ترمیم کی تھی!!
اس میں وہ ہیر۔۔۔۔

گاؤں کا ہوں میں کیا بات کرتا! وہاں
شہر کا پیر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷اب بھی واضح نہیں
 
رندوں کی خود سری پہ کیا بات ہو
کچھ تو تاثِیر ہےجو کہ باتیں کرے
÷÷پہلا مصرع اب بھی بحر میں نہیں۔ نہ مفہوم واضح ہے

غور سے اس کہانی کو پڑھیے ذرا
اُس میں جو ہیر ہے جو کہ باتیں کرے
۔دیکھو میں نے دوسرے مصرع میں بھی ترمیم کی تھی!!
اس میں وہ ہیر۔۔۔۔

گاؤں کا ہوں میں کیا بات کرتا! وہاں
شہر کا پیر ہے جو کہ باتیں کرے
÷÷اب بھی واضح نہیں
ایک تصویر ہے جو کہ باتیں کرے
میری تحریر ہے جو کہ باتیں کرے

شوق زنداں بھی کچھ ایسا ویسا نہیں
میری زنجیر ہے جو کہ باتیں کرے

غور سے اس کہانی کو پڑھیے ذرا
اس میں وہ ہیر ہے جو کہ باتیں کرے

شاعری کی تو گستاخ کیا بات ہو
تحفہِ میر ہے جو کہ باتیں کرے

سر مصرعہ تو آپ نے کمال کر دیا
 
Top