ناز خیالوی "پھلنے بڑھنے لگے ہیں صاحب زر اور بھی" ناز خیالوی

پھلنے، بڑھنے لگے ہیں صاحبِ زر اور بھی
تنگ ہو جائے گی دھرتی مفلسوں پر اور بھی

یہ زمیں زرخیز ہو گی خون پی کر اور بھی
کھیتیاں اگلا کریں گی لعل و گوہر اور بھی



ہر زمانے میں ثبوتِ عشق مانگا جائے گا
"لال" ماؤں کے چڑھیں گے سولیوں پر اور بھی

پھولتے پھلتے ہیں جذبے درد کے ماحول میں
زخم کھائیں تو نکھرتے ہیں سخن ور اور بھی

آفتاب ابھرا ہے جس دن سے نئی تہذہب کا
ہو گیا تاریک انساں کا مقدر اور بھی

جب چلی تحریک ، تعمیرِ وطن کی دوستو
ہوئے گئے برباد کچھ بستے ہوئے گھر اور بھی

جس قدر باہر کی رونق میں مگن ہوتا گیا
بڑھ گئی بے رونقی انساں کے اندر اور بھی

میں بناتا جا رہا ہوں اور بھی کچھ آئینے
وقت برساتا چلا جاتا ہے پتھر اور بھی

بستیوں پر حادثوں کی چاند ماری کے لئے
بڑھ رہے ہیں اوج کی جانب ستمگر اور بھی

منفرد استاد دانشؔ بھی ہیں غالبؔ کی طرح
یوں تو دنیا میں ہیں نازؔ اچھے سخن ور اور بھی
نازؔ خیالوی​
 
آخری تدوین:
Top