نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    میر حال نہیں ہے دل میں مطلق ، شور و فغاں رسوائی ہے ۔ میر

    غزل حال نہیں ہے دل میں مطلق ، شور و فغاں رسوائی ہے یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے آنکھیں مَل کر کھولیں اُن نے عالم میں آشوب اٹھا بال کھُلے دکھلائی دیا ، سو ہر کوئی سودائی ہے ڈول بیاں کیا کوئی کرے اس وعدہ خلاف کی دیہی کا ڈھال کے سانچے میں صانع نے وہ ترکیب بنائی ہے نسبت کیا اُن...
  2. فرخ منظور

    میر موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے ۔ میر

    غزل موسم ہے ، نکلے شاخوں سے پتّے ہرے ہرے پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے آگے کسو کے کیا کریں دستِ طمع دراز وہ ہاتھ سو گیا ہے سرہانے دھرے دھرے کیا سمجھے ، اُس کے رتبۂ عالی کو اہلِ خاک پھرتے ہیں جوں سپہر بہت ہم ورے ورے مرتا تھا میں تو ، باز رکھا مرنے سے مجھے یہ کہہ کے ، کوئی ایسا کرے ہے...
  3. فرخ منظور

    میر چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے ۔ میر

    غزل چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے فقیروں کی اللہ اللہ ہے نہ افسر ہے نے دردِ سر نے کُلہ کہ یاں جیسا سر ویسا سر واہ ہے جہاں لگ چلی گُل سے ہم داغ ہیں اگرچہ صبا بھی ہوا خواہ ہے غمِ عشق ہے ناگہانی بلا جہاں دل لگا کڑھنا جانکاہ ہے چراغانِ گُل سے ہے کیا روشنی گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے محبت ہے دریا میں...
  4. فرخ منظور

    میر یہ سَرا سونے کی جاگہ نہیں ، بیدار رہو۔ میر تقی میر

    غزل یہ سَرا سونے کی جاگہ نہیں ، بیدار رہو ہم نے کر دی ہے خبر تم کو ، خبردار رہو آپ تو ایسے بنے اب کہ جلے جی سب کا ہم کو کہتے ہیں کہ تم جی کے تئیں مار رہو لاگ اگر دل کو نہیں ، لطف نہیں جینے کا الجھے سلجھے کسو کاکُل کے گرفتار رہو گرچہ وہ گوہرِ تر ہاتھ نہیں لگتا لیک دم میں دم جب تئیں ہے ،...
  5. فرخ منظور

    پہیلیاں ۔ صوفی تبسّم

    پہیلیاں (1) دُبلی پتلی سی اِک رانی اوپر آگ اور نیچے پانی منھ چُومو تو شور مچائے بات کرو تو چُپ ہو جائے (2) میری پہیلی بوجھو گے تُم ایک انچ چڑیا ، دو گز کی دم (3) بات انوکھی کیا کوئی جانے اِک ڈبیا میں سینکڑوں دانے میٹھے میٹھے، رنگ رنگیلے رس بھرے، رس دار ، رسیلے کوئی چُوسے ، کوئی چبائے...
  6. فرخ منظور

    رات دن ۔ صوفی تبسّم

    رات دن کیسے اللہ نے بنائے رات دن کیسی حِکمت سے سجائے رات دن صبح آئی تو اجالا آ گیا شام آئی تو اندھیر چھا گیا دن ہوا تو لوگ سارے جاگ اٹھے رات آئی چاند تارے جاگ اٹھے دن بنا ہے کام کرنے کے لئے رات ہے آرام کرنے کے لئے کوئی ہو، انسان یا حیوان ہو جانور ہو یا کوئی بے جان ہو رات اُن کے ڈھنگ ہی کچھ اور...
  7. فرخ منظور

    خواجہ غلام فرید عشق انوکھڑی پیڑ ۔ استاد سلامت علی، نزاکت علی ۔ خواجہ غلام فرید کی کافی

    عشق انوکھڑی پیڑ ۔ استاد سلامت علی، نزاکت علی کافی: خواجہ غلام فرید (ٹھمری انگ میں کافی)
  8. فرخ منظور

    چُوہوں کی میٹنگ ۔ صوفی تبس۔م

    چُوہوں کی میٹنگ آؤ سُن جاؤ ایک بات مری رات چوہوں نے ایک میٹنگ کی جمع تھے چھوٹے اور بڑے چوہے جہاں دیکھا نظر پڑے چوہے چوہوں اور چوہیوں کا ریلا تھا جلسہ یہ کیا تھا ، ایک میلا تھا کیا کہوں میں کہاں سے آئے تھے کچھ یہاں ، کچھ وہاں سے آئے تھے تھے وہاں کُل جہان کے چوہے ہر بڑے خاندان کے چوہے چوہوں میں...
  9. فرخ منظور

    انوکھا لاڈلا ۔ استاد بڑے غلام علی خاں، بلقیس خانم

    انوکھا لاڈلا (راگ درباری میں ٹھمری) ویسے تو یہ ٹھمری بہت سے گلوکاروں نے گائی ہے لیکن مجھے استاد بڑے غلام علی خاں اور بلقیس خانم کی بہت پسند ہے۔ استاد بڑے غلام علی خاں صاحب بلقیس خانم
  10. فرخ منظور

    راجا رانی کی کہانی ۔ صوفی تبسّم

    راجا رانی کی کہانی آؤ بچّو ، سنو کہانی ایک تھا راجا ایک تھی رانی دونوں اِک دن شہر میں آئے شہر سے اِک اِک گڑیا لائے راجے کی گڑیا تھی دبلی رانی کی گڑیا تھی موٹی راجے کی گڑیا تھی لمبی رانی کی گڑیا تھی چھوٹی راجا بولا "میری گڑیا میری گڑیا بڑی ہی سیانی گڑیاؤں میں جیسے رانی" رانی بولی "میری گڑیا...
  11. فرخ منظور

    شمیم کی بلّی ۔ صوفی تبسّم

    شمیم کی بلّی ایک لڑکی تھی ننّھی منّی سی موٹی سی اور تھُن مُتھنّی سی نام تو اُس کا تھا شمیم افشاں پر اسے لوگ کہتے تھے چھیماں اُس نے پالی تھی اِک بڑی بلّی جتنی وہ خود تھی اتنی ہی بلّی جس طرف وہ قدم اٹھاتی تھی بلّی بھی اس کے ساتھ جاتی تھی یہ جو سوتی تو وہ بھی سوتی تھی یہ جو روتی تو وہ بھی روتی...
  12. فرخ منظور

    احمد مشتاق خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا ۔ احمد مشتاق

    غزل خیر اوروں نے بھی چاہا تو ہے تجھ سا ہونا یہ الگ بات کہ ممکن نہیں ایسا ہونا دیکھتا اور نہ ٹھہرتا تو کوئی بات بھی تھی جس نے دیکھا ہی نہیں اس سے خفا کیا ہونا تجھ سے دوری میں بھی خوش رہتا ہوں پہلے کی طرح بس کسی وقت برا لگتا ہے تنہا ہونا یوں مری یاد میں محفوظ ہیں ترے خد و خال جس طرح دل میں...
  13. فرخ منظور

    احمد راہی دل پہ جب درد کی افتاد پڑی ہوتی ہے ۔ احمد راہی

    غزل دل پہ جب درد کی افتاد پڑی ہوتی ہے دوستو! وہ تو قیامت کی گھڑی ہوتی ہے جس طرف جائیں ، جہاں جائیں بھری دنیا میں راستہ روکے تری یاد کھڑی ہوتی ہے جس نے مَر مَر کے گزاری ہو ، یہ اس سے پوچھو ہجر کی رات بھلا کتنی کڑی ہوتی ہے ہنستے ہونٹوں سے بھی جھڑتے ہیں فسانے غم کے خشک آنکھوں میں بھی ساون کی...
  14. فرخ منظور

    اوّل شب وہ بزم کی رونقِ شمع بھی تھی پروانہ بھی ۔ آرزو لکھنوی

    غزل اوّل شب وہ بزم کی رونقِ شمع بھی تھی پروانہ بھی رات کے آخر ہوتے ہوتے ختم تھا یہ افسانہ بھی قید کو توڑ کے نکلا جب میں اُٹھ کے بگولے ساتھ ہوئے دشتِ عدم تک جنگل جنگل بھاگ چلا ویرانہ بھی ہاتھ سے کس نے ساغر پٹکا موسم کی بے کیفی پر اتنا برسا ٹوٹ کے بادل ڈوب چلا مے خانہ بھی ایک لگی کے دو ہیں اثر...
  15. فرخ منظور

    کلاسیکی موسیقی کب آؤ گے ۔ استاد امانت علی خاں، فتح علی خاں

    ٹھمری کب آؤ گے ۔ استاد امانت علی خان, فتح علی خان
  16. فرخ منظور

    ہائے او رب۔ّا نئیں او لگدا دل میرا ۔ ریشماں

    ہائے او رب۔ّا نئیں او لگدا دل میرا ۔ ریشماں
  17. فرخ منظور

    آتش یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا ۔ آتش

    غزل یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا...
  18. فرخ منظور

    حفیظ ہوشیار پوری کی غزل کا عروضی تجزیہ - محمد زبیر خالد

    یہ مضمون مجلّہ خیابان کی سائٹ سے لیا گیا۔ حفیظ ہوشیار پوری کی غزل کا عروضی تجزیہ محمد زبیر خالد Abstract Hafeez Hushiarpuri (1912-1973) is one of the most important ghazal poets of Pakistan. He was one of the founders of Halqa-i-Arbab-i-Zauq. He was a researcher, teacher of philosophy and...
  19. فرخ منظور

    ثریّا کی گڑیا ۔ صوفی تبسّم

    ثریّا کی گڑیا سُنو اِک مزے کی کہانی سنو کہانی ہماری زبانی سنو ثریا کی گڑیا تھی چھوٹی بہت نہ دبلی بہت اور نہ موٹی بہت جو دیکھو تو ننھی سی گڑیا تھی وہ مگر اِک شرارت کی پڑیا تھی وہ جو سوتی تو دن رات سوتی تھی وہ جو روتی تو دن رات روتی تھی وہ نہ امّی کے ساتھ اور نہ بھیّا کے ساتھ وہ ہر وقت رہتی ثریّا...
  20. فرخ منظور

    تارے ۔ صوفی تبسّم

    تارے رات آئی اور جاگے تارے ننھے منّے چھوٹے چھوٹے آ بیٹھے ہیں مل کر سارے رات آئی اور جاگے تارے دیکھو کیسے چمک رہے ہیں گویا موتی دمک رہے ہیں کتنے اچھے ، کتنے پیارے رات آئی اور جاگے تارے تھک جاتے ہیں چلتے چلتے آخر آنکھیں ملتے ملتے سو جاتے ہیں نیند کے مارے رات آئی اور جاگے تارے چُپکے چُپکے ہنستے...
Top