میر چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے ۔ میر

فرخ منظور

لائبریرین
غزل

چلے ہم اگر تم کو اکراہ ہے
فقیروں کی اللہ اللہ ہے

نہ افسر ہے نے دردِ سر نے کُلہ
کہ یاں جیسا سر ویسا سر واہ ہے

جہاں لگ چلی گُل سے ہم داغ ہیں
اگرچہ صبا بھی ہوا خواہ ہے

غمِ عشق ہے ناگہانی بلا
جہاں دل لگا کڑھنا جانکاہ ہے

چراغانِ گُل سے ہے کیا روشنی
گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے

محبت ہے دریا میں جا ڈوبنا
کنوئیں (کوئیں) میں بھی گرنا یہی چاہ ہے

کلی سا ہے کہتے ہیں منہ یار کا
نہیں معتبر کچھ یہ افواہ ہے

نہ کی کوتہی (کوتاہی) بت پرستی میں کچھ
خدا اس عقیدے سے آگاہ ہے

گیا میر کے جی کی سن کر وہ شوخ
لگا کہنے سب کو یہی راہ ہے

(میر تقی میر)
 

فاتح

لائبریرین
نہ کی کوتہی (کوتاہی) بت پرستی میں کچھ
خدا اس عقیدے سے آگاہ ہے​
واہ کیا کلام تلاش کرکے لائے ہیں۔۔۔ بے حد شکریہ!
 
Top