غزل
کُچھ مُداوا ئےغمِ ہجر بھی کرتے جاؤ
جُھوٹے وعدوں سے پڑے زخم تو بھرتے جاؤ
کُچھ تو دامن میں خوشی جینےکی بھرتے جاؤ
اِک مُلاقات ہی دہلیز پہ دھرتے جاؤ
جب بھی کوشِش ہو تمھیں دِل سے مِٹانے کی کوئی
بن کے لازم تم مزِید اور اُبھرتے جاؤ
ہے یہ سب سارا، تمھارے ہی رویّوں کے سبب
جو بتدریج اب...
سلام
۔
لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے
یہ گُل چنے ہیں شہیدوں کی داستاں کے لیے
کھڑے ہیں شاہ کمر بستہ اِمتحاں کے لیے
پِھر ایسی رات کب آئے گی آسماں کے لیے
دِیا بُجھا کے یہ کہتے تھے ساتھیوں سے حُسینؑ
جو چاہو، ڈھونڈ لو رستا کوئی اماں کے کیے
کہا یہ سُن کے رفیقوں نے یک زباں ہو کر !
یہ جاں تو وقف...
غزل
قمرؔ جَلالوی
بنتا نہیں ہے حُسن سِتمگر شباب میں
ہوتے ہیں اِبتدا ہی سے کانٹے گُلاب میں
جلوے ہُوئے نہ جذب رُخِ بے نقاب میں!
کرنیں سِمَٹ کے آ نہ سَکِیں آفتاب میں
بچپن میں یہ سوال، قیامت کب آئے گی؟
بندہ نواز آپ کے عہدِ شباب میں
صیّاد! آج میرے نَشیمن کی خیر ہو !
بجلی قَفس پہ ٹُوٹتی دیکھی ہے...
غزل
ایک اِک کرکے، سبھی لوگ بدلتے جائیں
اپنے اطوارسے ہی، دِل سے نکلتے جائیں
راحتِ دِید کی حاجت میں اُچھلتے جائیں
اُن کے کُوچے میں انا اپنی کُچلتے جائیں
دمِ آیات سے، ہم کُچھ نہ سنبھلتے جائیں
بلکہ انفاسِ مسیحائی سے جلتے جائیں
بے سروپا، کہ کوئی عِشق کی منزِل ہی نہیں
خود نتیجے پہ پہنچ جائیں گے،...
غزل
کارِ ہستی ہنوز سیکھتے ہیں
ہم نہیں وہ کہ غوز سیکھتے ہیں
کم ہُنر، وہ نہ روز سیکھتے ہیں!
گُر مصائب کے، دوز سیکھتے ہیں
کب کتابوں سے عِلم وہ حاصِل !
جو رویّوں سے روز سیکھتے ہیں
مرثیہ کیا کہیں گے وہ ،کہ ابھی
قبل کہنے کو، سوز سیکھتے ہیں
ہو کمال اُن کو خط نویسی پر
جو نَوِشتَن بہ لوز سیکھتے...
غزل
جی کو کُچھ شہر میں بَھلا نہ لگا
جا کے احباب میں ذرا نہ لگا
درگُزر اِس سے، دِل ذرا نہ لگا
کم نہیں، اب کی کُچھ ڈرانہ لگا
کچھ اُمیدیں تھیں جس سے وابستہ !
قد سے وہ بھی ذرا بڑا نہ لگا
تھے ہم مجبوریوں سے پا بستہ
بولیے دِل کی کیا لگا نہ لگا
دِل کے رِشتوں سے جورَہا منسُوب!
میرا ہوکر وہ بارہا...
غزل
شفیق خلشؔ
ماہِ رمضاں میں عِبادت کا مزہ کُچھ اور ہے
روزہ سے بڑھ کر نہ رُوحانی غذا کُچھ اور ہے
لوگ سمجھیں ہیں کہ روزوں سےہُوئے ہیں ہم نڈھال
سچ اگر کہدیں جو پُوچھے پر، بِنا کُچھ اور ہے
یُوں تو وقفہ کرکے کھالینے کی بھی کیا بات ہے
بعد اِفطاری کے، روٹی کا نشہ کُچھ اور ہے
اگلی مانگی کا ہمیں...
غزل
کئے مجھ سے سارے سوالوں میں تم ہو
مرے خُوب و بَد کے حوالوں میں تم ہو
سبب، غیض وغم کے زوالوں میں تم ہو
ہُوں کچھ خوش، کہ آسُودہ حالوں میں تم ہو
مُقدّر پہ میرے تُمہی کو ہے سبقت
خوشی غم کے دائم دلالوں میں تم ہو
یُوں چاہت سے حیرت ہے حِصّہ لیے کُچھ
فلک کے مُقدّس کمالوں میں تم ہو
کہاں...
غزل
بات اور بے بات پر وہ آن و ایں کا شور ہے
ہر نہیں پہ ہاں کا ، ہر ہاں پر نہیں کا شور ہے
کھینچتا پھرتا ہُوں دُشمن پر خلا میں تیر کو
جب کہ وجہِ خوف، مارِ آستیں کا شور ہے
گھُومتی ہے سر پہ چرخی چرخِ نیلی فام کی
اور نیچے سانس میں اٹکا زمیں کا شور ہے
دسترس میں جن کی محمل تھا ہُوا محمل نصیب
کھو...
ماہرؔ القادری
غزل
حُسن کے ناز و ادا کی شرح فرماتا ہُوں میں
شعر کیا کہتا ہُوں ماہرؔ! پُھول برساتا ہُوں میں
تشنگی اِس حد پہ لے آئی ہے، شرماتا ہُوں میں
آج پہلی بار، ساقی! ہاتھ پھیلاتا ہُوں میں
شوق و مستی میں کہاں کا ضبط، کیسی احتیاط
اِن حدوں سے تو بہت آگے نِکل جاتا ہُوں میں
عاشقی سب سے بڑا ہے...
غزل
نِگاہِ بے زباں نے کیا اثر ڈالا برہمن پر
مِٹا ہے پیکرِ بے دست و پا کے، رنگ و روغن پر
رہا تا حشر احسانِ ندامت اپنی گردن پر
بجائے مے، ٹپکتا ہے زُلالِ اشک دامن پر
شرف بخشا دِلِ سوزاں نے مُجھ کو دوست دشمن پر
وہ دِل جِس کا ہر اِک ذرّہ ہے بھاری موم و آہن پر
نجانے پہلی منزِل برقِ سوزاں کی کہاں...
غزل
سر سلامت پِھر بہارِ سنگِ طِفلاں دیکھنا
دِل سلامت لذّتِ صد درد و درماں دیکھنا
جنگِ حُسن و عشق کا، کیا دل شکن نظارہ ہے!
شعلہ و پروانہ کو دست و گریباں دیکھنا
آنکھ بھر کر جاگتے ہیں کوئی دیکھے کیا مجال
خواب میں ممکن ہو شاید رُوئے جاناں دیکھنا
جلوۂ موہوم کیا اِک دُرد کا پیمانہ ہے
ہوگیا آپے سے...
غزل
ہے کوئی ایسا محبّت کے گنہگاروں میں
سجدۂ شُکر بجالائے جو تلواروں میں
دِل سی دولت ہے اگر پاس، تو پِھر کیا پردا
نام لِکھوائیےیوسفؑ کے خرِیداروں میں
رُوح نے عالَمِ بالا کا اِرادہ باندھا
چِھڑ گیا ذکرِ وطن جب وطن آواروں میں
یاسؔ، یگانہؔ، چنگیزیؔ
(1914-16)
غزل
شاکر القادری
اِک لُطفِ نا تمام بڑی دیر تک رہا
وہ مُجھ سے ہمکلام بڑی دیر تک رہا
میں تشنۂ وصال تھا، پیتا چلا گیا
گردِش میں آج جام بڑی دیر تک رہا
تادیر میکدے میں رہی ہے مِری نماز
ساقی مِرا اِمام بڑی دیر تک رہا
کل بارگاہِ حُسنِ تقدّس مآب میں
دل محوِ احترام بڑی دیر تک رہا
اُلجھا رہا وہ زُلفِ...
غزل
سُوئے میکدہ نہ جاتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
وہ نِگاہ سے پِلاتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
گو ہَوائے گُلسِتاں نےمِرے دِل کی لاج رکھ لی
وہ نقاب خود اُٹھاتے،تو کُچھ اور بات ہوتی
یہ بَجا، کلی نے کِھل کر کیا گُلسِتاں مُعَطّر !
اگر آپ مُسکراتے، تو کُچھ اور بات ہوتی
یہ کُھلے کُھلے سے گِیسو، اِنھیں...
غزل
تھکتے نہیں ہو آنکھوں کی آبِ رَواں سے تم
مر کھپ چُکو بھی، ذات میں درد ِنہاں سے تم
وابستہ اورہوگے غمِ بے کراں سے تم
خود میں دبائے درد اور آہ وفُغاں سے تم
آیا خیال جب بھی، مُسلسل ہی آیا ہے!
کب کم رہے ہو یاد میں اِک کارواں سے تم
جب ہٹ سکے نہ راہ سے، رستہ بدل چَلو
کیونکر...
غزل
ہَوا چلی تھی کُچھ ایسی، بِکھر گئے ہوتے
رَگوں میں خُون نہ ہوتا تو مر گئے ہوتے
یہ سرد رات، یہ آوارگی، یہ نیند کا بَوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے، تو گھر گئے ہوتے
نئے شعوُر کو جِن کا شِکار ہونا تھا
وہ حادثے بھی ہَمَیں پر گُزر گئے ہوتے
ہمی نے رَوک لِئے سر یہ تیشۂ اِلزام
وگرنہ شہر میں کِس کِس کے سر...
غزل
تیری صُورت جو، دِل نشیں کی ہے!
آشنا ، شکل ہر حَسِیں کی ہے
حُسن سے دِل لگا کے، ہستی کی!
ہر گھڑی ہم نے آتشِیں کی ہے
صُبح ِگُل ہو، کہ شامِ میخانہ
مدح ، اُس رُوئے نازنِیں کی ہے
شیخ سے بے ہراس ملتے ہیں
ہم نے، توبہ ابھی نہیں کی ہے
ذکرِ دوزخ بیانِ حُور و قصُور
بات گویا یہیں کہیں کی ہے
اشک...
غزل
فراقؔ گورکھپوری
نِگاہِ ناز نے پردے اُٹھائے ہیں کیا کیا
حجاب اہلِ محبّت کو آئے ہیں کیا کیا
جہاں میں تھی بس اِک افواہ تیرے جلوؤں کی
چراغِ دیر و حَرَم جِھلِملائے ہیں کیا کیا
نثار نرگسِ مے گُوں، کہ آج پیمانے!
لبوں تک آتے ہُوئے تھر تھرائے ہیں کیا کیا
کہیں چراغ، کہیں گُل، کہیں دِلِ برباد
خِرامِ...
غزل
بتاؤں کِس طرح احباب کو آنکھیں جو ایسی ہیں
کہ کل پلکوں سے ٹُوٹی نیند کی کرچیں سمیٹی ہیں
سفر مَیں نے سمندر کا کِیا کاغذ کی کشتی میں
تماشائی نِگاہیں اِس لیے بیزار اِتنی ہیں
خُدا میرے! عطا کرمجھ کو گویائی، کہ کہہ پاؤں
زمِیں پر رات دِن جو باتیں ہوتی مَیں نے دیکھی ہے
تُو اپنے فیصلے سے وقت! اب...