غزل
(مصحفی غلام ہمدانی)
اب مجھ کو گلے لگاؤ صاحب
یک شب کہیں تم بھی آؤ صاحب
روٹھا ہوں جو تم سے میں تو مجھ کو
آ کر کے تمہیں مناؤ صاحب
بیٹھے رہو میرے سامنے تم
از بہرِ خدا نہ جاؤ صاحب
کچھ خوب نہیں یہ کج ادائی
ہر لحظہ نہ بھوں چڑھاؤ صاحب
رکھتے نہیں پردہ غیر سے تم
جھوٹی قسمیں نہ کھاؤ صاحب
در گزرے...
غزل
(ریاض خیر آبادی)
کوئی منہ چوم لے گا اس نہیں پر
شکن رہ جائے گی یوں ہی جبیں پر
اُڑائے پھرتی ہے اُن کو جوانی
قدم پڑتا نہیں ان کا زمیں پر
دھری رہ جائے گی یوں ہی شبِ وصل
نہیں لب پر شکن ان کی جبیں پر
مجھے ہے خون کا دعویٰ مجھے ہے
انہیں پر داورِ محشر انہیں پر
ریاض اچھے مسلماں آپ بھی ہیں
کہ دل...
نذرِ دل
(اسرار الحق مجاز)
اپنے دل کو دونوں عالم سے اُٹھا سکتا ہوں میں
کیا سمجھتی ہو کہ تم کو بھی بھلا سکتا ہوں میں
کون تم سے چھین سکتا ہے مجھے، کیا وہم ہے
خود زلیخا سے بھی تو دامن بچا سکتا ہوں میں
دل میں تم پیدا کرو پہلے مری سی جرائتیں
اور پھر دیکھو کہ تم کو کیا بنا سکتا ہوں میں
دفن کر سکتا...
غزل
(مخدوم محی الدین)
یہ کون آتا ہے تنہائیوں میں جام لیے
جلو میں چاندنی راتوں کا اہتمام لیے
چٹک رہی ہے کسی یاد کی کلی دل میں
نظر میں رقصِ بہاراں کی صبح و شام لیے
ہجومِ بادہء و گل میں ہجومِ یاراں میں
کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے
کسی خیال کی خوشبو کسی بدن کی مہک
درِ قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام...
غزل
(مخدوم محی الدین)
عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دہکاؤ کہ کچھ راٹ کٹے
ہجر میں ملنے شبِ ماہ کے غم آئے ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوئی جلتا ہی نہیں، کوئی پگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ پگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو
پیار کے نامہ کو...
اردو ادب اور کراچی
اردو شاعری
حیدر آباد دکن
مخدوم محی الدین
کاشفی کی پسندیدہ شاعری
کراچی
کراچی اور اردو
کراچی اور حیدر آباد
کراچی اور دکن
کراچی اور مخدوم محی الدین
غزل
(مخدوم محی الدین)
پھر چھڑی رات ، بات پھولوں کی
رات ہے یا بارات پھولوں کی
پھول کے ہار ، پھول کے گجرے
شام پھولوں کی ، رات پھولوں کی
آپ کا ساتھ ، ساتھ پھولوں کا
آپ کی بات ، بات پھولوں کی
نظریں ملتی ہیں ، جام ملتے ہیں
مل رہی ہے حیات پھولوں کی
کون دینا ہے جان پھولوں پر
کون کرتا ہے بات پھولوں...
غزل
(مخدوم محی الدین - حیدرآباد 1908-1969)
آپ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشمِ نم مُسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھرتھراتی رہی رات بھر
بانسری کی سریلی سہانی صدا
یاد بن بن کے آتی رہی رات بھر
یاد کے چاند دل میں اُترتے رہے
چاندنی جگمگاتی رہی رات بھر
کوئی دیوانہ گلیوں میں...
غزل
(قتیل شفائی)
جب اپنے اعتقاد کے محور سے ہٹ گیا
میں ریزہ ریزہ ہو کے حریفوں میں بٹ گیا
دشمن کے تن پہ گاڑ دیا میں نے اپنا سر
میدانِ کارزار کا پانسہ پلٹ گیا
تھوڑی سی اور زخم کو گہرائی مل گئی
تھوڑا سا اور درد کا احساس گھٹ گیا
درپیش اب نہیں ترا غم کیسے مان لوں
کیسا تھا وہ پہاڑ جو رستے سے ہٹ گیا...
غزل
(قتیل شفائی)
اب تو بیداد پہ بیداد کرے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا
زندگی بھاگ چلی موت کے دروازے سے
اب قفس کون سا ایجاد کرے گی دنیا
ہم تو حاضر ہیں پر اے سلسلہء جورِ قدیم
ختم کب ورثہء اجداد کرے گی دنیا
سامنے آئیں گے اپنی ہی وفا کے پہلو
جب کسی اور کو برباد کرے گی دنیا
کیا...
غزل
(سرسوَتی سرن کیف)
جینا مرنا دونوں محال
عشق بھی ہے کیا جی کا وبال
مال و منال و جاہ و جلال
اپنی نظر میں وہم و خیال
ہم نہ سمجھ پائے اب تک
دنیا کی شطرنجی چال
کچھ تو شہ بھی تمہاری تھی
ورنہ دل کی اور یہ مجال
کس کس سے ہم نبٹیں گے
ایک ہے جان اور سو جنجال
مست کو گرنے دے ساقی
ہاں اس کے شاعر کو...
غزل
(سردار گنڈا سنگھ مشرقی)
تیری محفل میں جتنے اے ستم گر جانے والے ہیں
ہمیں ہیں ایک اُن میں جو ترا غم کھانے والے ہیں
عدم کے جانے والو دوڑتے ہو کس لیے، ٹھہرو
ذرا مل کے چلو ہم بھی وہیں کے جانے والے ہیں
صفائی اب ہماری اور تمہاری ہو تو کیوں کر ہو
وہی دشمن ہیں اپنے جو تمہیں سمجھانے والے ہیں
کسے ہم...
غزل
(سردار گنڈا سنگھ مشرقی)
کی مے سے ہزار بار توبہ
رہتی نہیں برقرار توبہ
تم مے کرو ہزار بار توبہ
تم سے یہ نبھے قرار توبہ
بندوں کو گنہ تباہ کرتے
ہوتی نہ جو غم گسار توبہ
ہوتی ہے بہار میں معطل
کرتے ہیں جو میگسار توبہ
مقبول ہو کیوں نہ گر کریں ہم
با دیدہء اشک بار توبہ
ہوگی کبھی مشرقی نہ قبول...
غزل
(شاد عارفی)
چمن کو آگ لگانے کی بات کرتا ہوں
سمجھ سکو تو ٹھکانے کی بات کرتا ہوں
شراب تلخ پلانے کی بات کرتا ہوں
خود آگہی کو جگانے کی بات کرتا ہوں
سخنوروں کو جلانے کی بات کرتا ہوں
کہ جاگتوں کو جگانے کی بات کرتا ہوں
اُٹھی ہوئی ہے جو رنگینیء تغزل پر
وہ ہر نقاب گرانے کی بات کرتا ہوں
اس انجمن...
غزل
(شاد عارفی)
جو بھی اپنوں سے الجھتا ہے وہ کر کیا لے گا
وقت بکھری ہوئی طاقت کا اثر کیا لے گا
خار ہی خار ہیں تاحدِّ نظر دیوانے
ہے یہ دیوانہء انصاف ادھر کیا لے گا
جان پر کھیل بھی جاتا ہے سزاوار قفس
اس بھروسے میں نہ رہیئے گا یہ کر کیا لے گا
پستیء ذوقِ بلندیء نظر ، دار و رسن
ان سے تو مانگنے...
غزل
(مرزا غالب رحمتہ اللہ علیہ)
رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت!
جگر کو مرے عشق خوں نابہ مشرب
لکھے ہے خداوند نعمت سلامت
علی الرغم دشمن شہیدِ وفا ہوں
مبارک مبارک، سلامت سلامت
نہیں گر سر و برگ ادراک معنی
تماشائے نیرنگِ صورت سلامت
دو عالم کی ہستی پہ خط فنا کھینچ
دل و...