نتائج تلاش

  1. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی نظم: جنگِ ستمبر 1965ء ٭ نظرؔ لکھنوی

    وہ موسمِ گرما، وہ شبِ ماہِ ستمبر دشمن کے خطرناک عزائم کا وہ منظر جب سرحدِ لاہور میں در آئے تھے چھپ کر مکار و جفا کار و سیہ کار و ستمگر سب بسترِ راحت سے ہم آغوش پڑے تھے دن بھر کے تھکے خواب میں مدہوش پڑے تھے مہتاب جبیں گھر میں ردا پوش پڑے تھے طفلانِ حسیں گود میں خاموش پڑے تھے ناگاہ فضا میں...
  2. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: خلش کی بڑھ کے دردِ بیکراں تک بات پہنچی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    خلش کی بڑھ کے دردِ بیکراں تک بات پہنچی ہے محبت کی ذرا دیکھیں کہاں تک بات پہنچی ہے نکل کر آہِ دل میری سرِ عرشِ بریں پہنچی درونِ دل سے چل کر آسماں تک بات پہنچی ہے جو منزل تک پہنچ کر اُف پلٹ آیا ہے منزل سے اسی گم کردہ منزل کارواں تک بات پہنچی ہے نگاہیں بار بار اٹھتی ہیں سوئے آسماں میری حدیثِ...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بہ ہر پہلو مجھے آٹھوں پہر معلوم ہوتی ہے٭ نظرؔ لکھنوی

    بہ ہر پہلو مجھے آٹھوں پہر معلوم ہوتی ہے محبت کی خلش اب معتبر معلوم ہوتی ہے تقاضے لا الہ کے ہم نفس اُتنے ہی زیادہ ہیں بظاہر بات جتنی مختصر معلوم ہوتی ہے بہ ہر لغزش جھجکتا ہوں، سنبھلتا ہوں، ٹھہرتا ہوں نگہباں رحمتِ خیر البشرؐ معلوم ہوتی ہے خدا بیزاریِ دنیا فزوں تر آئے دن ہے کیوں یہ تہذیبِ...
  4. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: عمر ہائے تمام ہوتی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    عمر ہائے تمام ہوتی ہے آج قیدِ دوام ہوتی ہے رشکِ توحید وہ بسا دل میں کب درایں خانہ شام ہوتی ہے آدمی کو گرا دے پستی میں جب زباں بے لگام ہوتی ہے اُف مری حرصِ بادہ آشامی خواہشِ دُرد و جام ہوتی ہے ان کی محفل میں ایک میں ہی نہیں اور دنیا تمام ہوتی ہے دور منزل ہے اور ہم پیچھے ہائے رستہ میں...
  5. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جو راہِ حق سے طبیعت کبھی بھٹکتی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    جو راہِ حق سے طبیعت کبھی بھٹکتی ہے مثالِ خار کوئی دل میں شے کھٹکتی ہے جہاں بھی دیکھیے انسانیت سسکتی ہے رُخِ حیات سے حسرت سی اک ٹپکتی ہے جو محوِ خواب تھے دنیا سے ٹھوکریں کھائیں کھلی جو آنکھ تو دنیا ہمیں تھپکتی ہے جو سوچتا ہوں کہ تعمیرِ آشیاں کر لوں معاً خیال میں بجلی سی اک چمکتی ہے اٹھا...
  6. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کس قدر جنسِ جفا عام ہوئی جاتی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    کس قدر جنسِ جفا عام ہوئی جاتی ہے ہر وفا کوششِ ناکام ہوئی جاتی ہے دور تر اَز رہِ اسلام ہوئی جاتی ہے زندگی موت کا پیغام ہوئی جاتی ہے حیف دلدادۂ اوہام ہوئی جاتی ہے امتِ خیر یہ بدنام ہوئی جاتی ہے ہوسِ بادۂ گلفام نہیں کم ہوتی سعیِ توبہ مری ناکام ہوئی جاتی ہے دور منزل ہے نگاہوں سے ابھی رہرو کی بیچ...
  7. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کفن کو کھول کے صورت دکھائی جاتی ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    کفن کو کھول کے صورت دکھائی جاتی ہے کہ زندگی کی حقیقت بتائی جاتی ہے نگاہ و دل میں وہ سب کے سمائی جاتی ہے ادائے خاص کہ ساقی میں پائی جاتی ہے خموش ہو کے میں سنتا ہوں اہلِ دنیا سے مجھی کو میری کہانی سنائی جاتی ہے مزاجِ دل یہ بدلنا تھا اور نہیں بدلا اگرچہ خوں میں تمنا نہائی جاتی ہے خوشا نصیب...
  8. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: سرور و کیفِ دل پیہم نہیں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    سرور و کیفِ دل پیہم نہیں ہے دل ایماں سے ابھی مدغم نہیں ہے خوشا قسمت ہجومِ غم ہے لیکن سکونِ دل مرا برہم نہیں ہے تمہاری فکر میں الجھاؤ ہو گا مرے کہنے میں پیچ و خم نہیں ہے محبت باعثِ آرام و جاں بھی محبت سے وُجوبِ غم نہیں ہے نہ کر اے بے خبر تحقیرِ انساں کوئی انساں کسی سے کم نہیں ہے ہزاروں رنج و...
  9. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: تو اے غافل ابھی محرم نہیں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    تو اے غافل ابھی محرم نہیں ہے نشاطِ دل سقوطِ غم نہیں ہے نگاہِ عشق ہی محرم نہیں ہے اشارہ حسن کا مبہم نہیں ہے عذابِ آخرت کو سوچیے کیا عذابِ زندگی کچھ کم نہیں ہے ہجومِ غم سے مشکل سانس لینا یہ جینا موت سے کچھ کم نہیں ہے گناہوں سے مبرّا ہو تو کیوں کر فرشتہ کچھ بنی آدم نہیں ہے کسے مونس کوئی جا کر...
  10. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: مرے عرضِ مدعا میں کوئی پیچ و خم نہیں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    مرے عرضِ مدعا میں کوئی پیچ و خم نہیں ہے وہ سمجھ کے بھی نہ سمجھیں تو یہ کیا ستم نہیں ہے مرے دل میں غم ہزاروں مگر آنکھ نم نہیں ہے یہ زمانہ کیسے مانے جو ثبوتِ غم نہیں ہے خلش، اضطراب و شورش کہ غم و الم نہیں ہے بہ طفیلِ عشق یعنی مجھے کیا بہم نہیں ہے زنقوشِ یادِ رنگیں گل و گلستاں کا عالم مرے دل میں...
  11. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: کیا یہ غمِ جاناں کا تو اعجاز نہیں ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    کیا یہ غمِ جاناں کا تو اعجاز نہیں ہے اب دل پہ کوئی غم اثر انداز نہیں ہے مونس کوئی ہمدم کوئی دم ساز نہیں ہے کیا بات کریں جب کوئی ہم راز نہیں ہے مائل بہ کرم ہیں وہ مرے حال پہ اب بھی نظروں کا وہ پہلا سا پہ انداز نہیں ہے دنیا طلبی حد سے بڑھی جاتی ہے لیکن دیں کے لیے اب کوئی تگ و تاز نہیں ہے اللہ...
  12. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دل ابھی گہوارۂ اوہام ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    دل ابھی گہوارۂ اوہام ہے رشتۂ ایماں ابھی تک خام ہے کفر سے آلودہ اُف اسلام ہے جی رہا ہوں موت کا ہنگام ہے موت ہے وجہِ سکونِ زندگی ابتدا منت کشِ انجام ہے حسن محتاجِ نگاہِ عشق کب حسن اپنا آپ ہی انعام ہے خوفِ رسوائی سے نالہ کش نہیں لوگ یہ سمجھے مجھے آرام ہے بے کسی، مجبوریاں، درد، آہ و غم...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے کہاں اتنا جہانِ آب و گِل ہے سیاہی ابرِ غم کی مستقل ہے تبسم کی چمک گاہے مخل ہے ازل ہی سے معذّب ہائے دل ہے محبت اک عذابِ مستقل ہے تھی جس سے یاد وابستہ کسی کی وہ زخمِ دل بھی اب تو مندمل ہے جنابِ شیخ سے مت بولیے گا ذرا میں طبعِ نازک مشتعل ہے ذرا پی کر ہی دیکھیں...
  14. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: رخ سے نقاب اٹھ گیا قہرِ تجلیات ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    رخ سے نقاب اٹھ گیا قہرِ تجلیات ہے دیکھ ابھی نہ الحذر لمحۂ حادثات ہے تیری ہی ذات باعثِ رونقِ کائنات ہے تیری ہی یاد سے سجی بزمِ تصورات ہے یوں تو ہر ایک رند پر ساقی کا التفات ہے مجھ پہ ہے کچھ سوا مگر میری کچھ اور بات ہے زخم کچھ اور داغ کچھ، اور متاعِ آرزو دل کو ٹٹولتے ہو کیا کل یہی کائنات ہے...
  15. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جلوہ فرمائے دو عالم ہے مگر روپوش ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    جلوہ فرمائے دو عالم ہے مگر رو پوش ہے حسنِ معنی شوخیوں میں بھی حیا آغوش ہے پینے والے ہی نہ ہوں محفل میں تو امرِ دگر ورنہ ساقی تو ازل سے میکدہ بردوش ہے ہوش والوں کا تمسخر کیوں ہے اے مستِ جنوں نقطۂ آغاز تیرا بھی رہینِ ہوش ہے بعدہٗ کیا کیفیت گزری نہیں معلوم کچھ صاعقے چمکے تھے نزدِ آشیاں یہ...
  16. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: طورِ سینا کی کہانی اور ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    طورِ سینا کی کہانی اور ہے دل پہ کچھ جلوہ فشانی اور ہے شیخ جی کی لن ترانی اور ہے خوبیِ رطب اللسانی اور ہے قصّۂ ماضی سے ملتی ہی نہیں میری موجودہ کہانی اور ہے شوق سے ہوتا ہے دل ایذا طلب عشق کی ایذا رسانی اور ہے مسکرا دینا بھی پہلوئے خوشی دل کی لیکن شادمانی اور ہے رقص و نغمہ کب ہے، کب ہے...
  17. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بہ شکلِ دل ہی تمہیں دل کی جستجو کیا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    بہ شکلِ دل ہی تمہیں دل کی جستجو کیا ہے اسی جگہ پہ یہ دیکھیں لہو لہو کیا ہے خدا کی ذات پہ یہ بحث و گفتگو کیا ہے سمجھ لے اپنی حقیقت کو پہلے تُو کیا ہے گہر بنا ہے چمکتا ہوا یہ خونِ صدف نہیں تو قطرۂ نیساں کی آبرو کیا ہے ہزار عالمِ رنگیں ہیں دل کی دنیا میں مری نگاہ میں دنیائے رنگ و بو کیا ہے...
  18. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دنیائے عمل میں اے غافل سو جانے میں سب کچھ کھونا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    دنیائے عمل میں اے غافل! سو جانے میں سب کچھ کھونا ہے دو چار دنوں کی بات ہے یہ تا حشر تجھے پھر سونا ہے بیکار ہیں قسمت کے شکوے، بیکار یہ رونا دھونا ہے منظور ہے جو کچھ قدرت کو، واللہ وہی کچھ ہونا ہے یہ راہِ وفا ہے ہم نفسو! اس میں تو یہ سب کچھ ہونا ہے غم سہنا ہے، جاں کھونا ہے اور خون کے آنسو رونا...
  19. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: پختہ وہ راہِ محبت میں کہاں ہوتا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    پختہ وہ راہِ محبت میں کہاں ہوتا ہے جس کو کچھ وسوسۂ سود و زیاں ہوتا ہے آہ کش ہے کبھی سرگرمِ فغاں ہوتا ہے دل کی تقدیر میں آرام کہاں ہوتا ہے وقت حیرت زدہ ٹھہرا کہ جہاں ہوتا ہے شبِ اسرا جو کوئی عرش مکاں ہوتا ہے عالمِ جذبِ تصور مرا سبحان اللہ جیسے وہ سامنے بیٹھے ہیں گماں ہوتا ہے زخمِ شمشیر و...
  20. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ان کی الفت کا جہاں شور و شرر ہوتا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

    ان کی الفت کا جہاں شور و شرر ہوتا ہے دل وہی مرکزِ الطافِ نظر ہوتا ہے ہوش اڑ جاتے ہیں بے چاری خرد کے دیکھا غم مقابل ہو تو دل سینہ سپر ہوتا ہے واعظِ شہر نے برباد کیا وقت مرا صرف باتوں کا کہیں دل پہ اثر ہوتا ہے لاکھ انسانوں میں ہوتا ہے کوئی ایک بشر یوں بشر کہنے کو ہر شخص بشر ہوتا ہے میں تو...
Top