نظر لکھنوی غزل: حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے
کہاں اتنا جہانِ آب و گِل ہے

سیاہی ابرِ غم کی مستقل ہے
تبسم کی چمک گاہے مخل ہے

ازل ہی سے معذّب ہائے دل ہے
محبت اک عذابِ مستقل ہے

تھی جس سے یاد وابستہ کسی کی
وہ زخمِ دل بھی اب تو مندمل ہے

جنابِ شیخ سے مت بولیے گا
ذرا میں طبعِ نازک مشتعل ہے

ذرا پی کر ہی دیکھیں آج تھوڑی
مُصر ساقی ہے کچھ میرا بھی دل ہے

گدازِ عشق پیدا ہو نہ جس میں
وہ دل ہے یا کوئی پتھر کی سل ہے

کبھی دیکھیں جو توفیقِ نظرؔ ہو
سنا وہ شاہ رگ سے متصل ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 

عرفان سعید

محفلین
حسیں جتنی مری دنیائے دل ہے
کہاں اتنا جہانِ آب و گل ہے
کمال مطلع ہے!
سیاہی ابرِ غم کی مستقل ہے
تبسم کی چمک گاہے مخل ہے
بہت خوب!
جنابِ شیخ سے مت بولیے گا
ذرا میں طبعِ نازک مشتعل ہے
ہمارا اجتماعی المیہ
 

اکمل زیدی

محفلین
خوب ہے ۔۔۔تابش بھائی ۔آپ کو تجویز دینا عجیب سا لگتا ہے مگر پھر بھی ایک مشورہ سمجھ لیں کہ سب سے پہلے شعر میں گل میں زیر لگا دیں ورنہ اکثر لوگ گِل کو گُل پڑھ جاتے ہیں۔۔۔اگر اعراب نہ ہو ں تو۔۔۔
 
Top