نظر لکھنوی غزل: رخ سے نقاب اٹھ گیا قہرِ تجلیات ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

رخ سے نقاب اٹھ گیا قہرِ تجلیات ہے
دیکھ ابھی نہ الحذر لمحۂ حادثات ہے

تیری ہی ذات باعثِ رونقِ کائنات ہے
تیری ہی یاد سے سجی بزمِ تصورات ہے

یوں تو ہر ایک رند پر ساقی کا التفات ہے
مجھ پہ ہے کچھ سوا مگر میری کچھ اور بات ہے

زخم کچھ اور داغ کچھ، اور متاعِ آرزو
دل کو ٹٹولتے ہو کیا کل یہی کائنات ہے

میری نظرؔ میں آ کبھی دل میں مرے سما کبھی
جلوہ گری تری نہاں مانا کہ شش جہات ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top