نظر لکھنوی غزل: دنیائے عمل میں اے غافل سو جانے میں سب کچھ کھونا ہے ٭ نظرؔ لکھنوی

دنیائے عمل میں اے غافل! سو جانے میں سب کچھ کھونا ہے
دو چار دنوں کی بات ہے یہ تا حشر تجھے پھر سونا ہے

بیکار ہیں قسمت کے شکوے، بیکار یہ رونا دھونا ہے
منظور ہے جو کچھ قدرت کو، واللہ وہی کچھ ہونا ہے

یہ راہِ وفا ہے ہم نفسو! اس میں تو یہ سب کچھ ہونا ہے
غم سہنا ہے، جاں کھونا ہے اور خون کے آنسو رونا ہے

بدیوں سے حصولِ غم ہو گا، تسکین ہے ثمرہ نیکی کا
یہ کشتِ عمل ہے اے ہمدم! کاٹے گا وہی جو بونا ہے

اعجازِ مقدر تیرا یہ اور شومئی قسمت اپنی یہ
میں چھو لوں تو سونا بھی مٹی، تو چھو لے جو مٹی سونا ہے

کیوں حرص کا بندہ بن جاؤں، آزادِ غمِ عقبیٰ ہو کر
کیا منزل کھوٹی کرنی ہے، کیا راہ میں کانٹے بونا ہے

دلسوزیِ ہجراں، آہ و فغاں، تا صبح گوارا مجھ کو نہیں
موت آئے، ہو قصہ پاک نظرؔ، ہو جائے ابھی جو ہونا ہے

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top