نتائج تلاش

  1. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: لغزشِ پا ترے کہنے پہ نہ چلنے سے ہوئی ٭ نظرؔ لکھنوی

    لغزشِ پا ترے کہنے پہ نہ چلنے سے ہوئی ساری تکلیف مجھے راہ بدلنے سے ہوئی رات رو رو کہ کٹی شمع کی اللہ اللہ غم زدہ کیسی یہ پروانوں کے جلنے سے ہوئی نزع دم دیکھنے آئے مجھے طوعاً کرھاً ایک راحت تو طبیعت نہ سنبھلنے سے ہوئی مجھ کو تکلیف نہ پہنچی اسی باعث شاید ان کو راحت مرے جذبات کچلنے سے ہوئی...
  2. محمد تابش صدیقی

    شارٹ فلم ٭ تحریر: گل نوخیز اختر

    شارٹ فلم فریج کھولئے‘ بوتل اٹھائیے‘ گلاس میں پانی بھریے اور پی جائیے۔کپڑوں کی الماری کھولئے‘ پسند کا لباس منتخب کیجئے اور پہن لیجئے۔کھانے کی میز پر تشریف لائیے‘ موجود چیزوں میں سے جوبھی پسند ہو منتخب کیجئے ‘ پلیٹ میں ڈالئے اور کھا لیجئے۔موبائل پکڑئے‘ جس دوست سے بات کرنے کو دل کر رہا ہے اُس کا...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ہم زیست کے شکاروں کی حسرت نکل گئی ٭ نظرؔ لکھنوی

    ہم زیست کے شکاروں کی حسرت نکل گئی جب زیست خود بھی ہو کے شکارِ اجل گئی اللہ یہ زمانے کو کیا روگ لگ گیا اپنے ہوئے ہیں غیر ہوا کیسی چل گئی کوچہ ہے کس کا صاحبِ کوچہ یہ کون ہے دنیا بہ اشتیاق جہاں سر کے بل گئی کیسی خوشی؟ کہاں کی خوشی؟ اے مرے ندیم صورت ہماری غم ہی کے سانچہ میں ڈھل گئی لب بند،...
  4. محمد تابش صدیقی

    قابل اجمیری نظم: 14 اگست

    یہ کاروانِ بہاراں بھٹک نہیں سکتا روِش روِش پہ فروزاں ہے نقشِ پا اپنا رہی ہے اپنے جلو میں ہوا زمانے کی ہر انقلاب نے ڈھونڈا ہے آسرا اپنا اس ایک دن میں ہیں ماضی کی وسعتیں رقصاں اس ایک پھول میں فردوس حال جلوہ فروش اس ایک جام میں فردا کا حسنِ بے پایاں یہی وہ ساحلِ مقصود ہے کہ جس کے لیے نہ جانے...
  5. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: دامنِ دل میں ترے اخگرِ ایماں ہے ابھی ٭ نظرؔ لکھنوی

    دامنِ دل میں ترے اخگرِ ایماں ہے ابھی پھونک دے خرمنِ باطل کہ یہ امکاں ہے ابھی دیکھنے کا مجھے انسان کو ارماں ہے ابھی آدمیت سے بہت دور یہ انساں ہے ابھی دم میں کافر ہے ابھی دم میں مسلماں ہے ابھی دل یہ سر گشتۂ و حیران و پریشاں ہے ابھی ہم سنبھل جائیں تو تقدیر بدل سکتی ہے وہی یزداں ہے وہی رحمتِ...
  6. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: مدتوں تک رِسا تھا پہلے بھی ٭ نظرؔ لکھنوی

    مدتوں تک رِسا تھا پہلے بھی زخم کاری لگا تھا پہلے بھی نام اُن کا لیا تھا پہلے بھی ہوش میں آ گیا تھا پہلے بھی تنِ تنہا اٹھا تھا پہلے بھی بند رستہ کھُلا تھا پہلے بھی آپ نے رہبری کے پردے میں یاد ہے کیا کیا تھا پہلے بھی آدمی آدمی کا خوں پی لے سچ کہیں کیا سنا تھا پہلے بھی حسنِ دنیا وہی فریب انگیز...
  7. محمد تابش صدیقی

    مبارکباد 72واں یومِ آزادی مبارک ہو

    تمام پاکستانی احباب کو 72واں یومِ آزادی مبارک ہو۔ :pak1::pak1::pak1::pak1::pak1: :pak::pak::pak: گلشن نظرؔ اپنا یونہی آباد رہے گا بد خواہ جو اس کا ہے وہ برباد رہے گا واللہ کہ یہ ملکِ خداداد رہے گا آزاد تھا، آزاد ہے، آزاد رہے گا نظرؔ لکھنوی
  8. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ہم پہ واضح ہے، مشرِّح ہے، عیاں ہے زندگی ٭ نظرؔ لکھنوی

    ہم پہ واضح ہے، مشرِّح ہے، عیاں ہے زندگی غیر کی نظروں میں پر اک چیستاں ہے زندگی آسماں پر اور زیرِ آسماں ہے زندگی دیکھتا ہوں میں محیطِ دو جہاں ہے زندگی جس طرف نظریں اٹھاؤ نوحہ خواں ہے زندگی جیسے اک مجموعۂ آہ و فغاں ہے زندگی اک زمانہ ہو گیا صرفِ زیاں ہے زندگی زندگی جس کو کہیں ایسی کہاں ہے...
  9. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جان و دل سی شے کروں میں کیوں نثارِ زندگی ٭ نظرؔ لکھنوی

    جان و دل سی شے کروں میں کیوں نثارِ زندگی مجھ کو حاصل جب نہیں کچھ اختیارِ زندگی کھینچ کر رکھ اس کی راسیں اے سوارِ زندگی تا غلط رخ پر نہ چل دے راہوارِ زندگی خوب ہی مرغوب ہے گو مرغزارِ زندگی پر اسی میں گھومتے پھرتے ہیں مارِ زندگی یہ حقیقت مجھ سے سن اے کامگارِ زندگی رزقِ بہتر پر نہیں دار و...
  10. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: سنور کر پھر گئی قسمت اِسی مردِ تن آساں کی ٭ نظرؔ لکھنوی

    سنور کر پھر گئی قسمت اِسی مردِ تن آساں کی سرِ منزل پہنچ کر گم ہوئی منزل مسلماں کی قسم کھانے کے قابل ہے وہ سیرت ماہِ کنعاں کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں اسی کے چاک داماں کی عجب قصہ ہے دونوں کی پریشانی نہیں جاتی اِدھر قلبِ پریشاں کی، اُدھر زُلفِ پریشاں کی ہمیں معلوم ہے سب کچھ ہمیں کیا اعتبار...
  11. محمد تابش صدیقی

    طبلہ پر قومی ترانہ

    پاکستانی نوجوان طبلہ نواز عاموس خان نے پہلی مرتبہ پاکستان کے قومی ترانے کو طبلے پر بجایا۔ پہلی مرتبہ والی بات پر یہی کہوں گا کہ دروغ بر گردنِ راوی۔
  12. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: مکی و ہاشمی و مُطّلبی ہے ساقی ٭ نظرؔ لکھنوی

    مکی و ہاشمی و مُطّلبی ہے ساقی جو زمانہ کا ہے میرا بھی وہی ہے ساقی مے وہی، جام وہی، رنگ وہی ہے ساقی کیا سبب پھر مری مستی میں کمی ہے ساقی جامِ دل پھر مئے وحدت سے تہی ہے ساقی جیسی پہلے تھی وہی تشنہ لبی ہے ساقی کوئی شے اور نہ میں منہ سے لگاؤں ہرگز تیرے میخانے کی عادت وہ پڑی ہے ساقی رند کیوں...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: محبت ان کی، دل میرا، ثنا ان کی، زباں میری ٭ نظرؔ لکھنوی

    محبت ان کی، دل میرا، ثنا ان کی، زباں میری خوشا قسمت جو کٹ جائے یونہی عمرِ رواں میری زمانہ کو خبر ہے جانتا ہے داستاں میری لرز اٹھتا ہے اب بھی سن کے تکبیرِ اذاں میری قلم کر دو مرا سر، کاٹ دو یا پھر زباں میری تمہیں مجبور کرتی ہیں اگر حق گوئیاں میری چراغِ آرزو اب تک بحمد اللہ روشن ہے بجھانے پر...
  14. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: جُنوں میں دامنوں، جیبوں، گریبانوں پہ کیا گزری ٭ نظرؔ لکھنوی

    جُنوں میں دامنوں، جیبوں، گریبانوں پہ کیا گزری یہ سب دیکھیں کہ دیکھیں تیرے دیوانوں پہ کیا گزری فنا کے ہاتھوں کیسے کیسے انسانوں پہ کیا گزری شہنشاہوں پہ، سلطانوں پہ، خاقانوں پہ کیا گزری ہمارے کعبۂ دل کی ارے ویرانیاں توبہ صنم خانوں میں رونق ہے، صنم خانوں پہ کیا گزری زمانہ کی قسم مجھ کو زمانہ...
  15. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: رہی دیں سے دل کو نہ اب استواری ٭ نظرؔ لکھنوی

    رہی دیں سے دل کو نہ اب استواری ہمیں شرمساری سی ہے شرمساری مودّت، محبت، مروت سے عاری نگاہوں سے اترا اب انساں ہماری وفاداریاں اور دنیائے دوں سے یہ کس کی ہوئی ہے جو ہو گی تمہاری سمیٹا ہے دنیا کا سرمایۂ غم عجب ہے غریبوں کی سرمایہ داری وہی شدتِ غم، وہی بے بسی ہے وہی نالۂ دل، وہی آہ و زاری...
  16. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: آہِ دل بے اثر نہیں آتی ٭ نظرؔ لکھنوی

    آہِ دل بے اثر نہیں آتی کیا ہُوا لوٹ کر نہیں آتی خانۂ دل تمام ہے تاریک روشنی کیا ادھر نہیں آتی دل کو آتا ہے جس قدر رونا کیوں ہنسی اس قدر نہیں آتی شعلۂ غم بھڑک اٹھے مجھ کو منّتِ چشمِ تر نہیں آتی روکشِ بت ہے آئینہ دل کا صورتِ شیشہ گر نہیں آتی معصیت ہے ترا وتیرۂ زیست کچھ حیا اے نظرؔ نہیں...
  17. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: بس لا تعلقی کی فضا درمیاں نہ ہو ٭ نظرؔ لکھنوی

    بس لا تعلقی کی فضا درمیاں نہ ہو نا مہرباں سہی تو اگر مہرباں نہ ہو تو شکوۂ جفا سے مرے سرگراں نہ ہو اب جی میں طے کیا ہے کہ منہ میں زباں نہ ہو لوحِ جبیں اٹھائے رکھوں سر پہ کس لیے سر تن پہ کیوں رکھوں جو ترا آستاں نہ ہو حرص و ہوس کی راہ میں اف کارواں چلا منزل کسے خبر ہے کہاں ہو کہاں نہ ہو...
  18. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: ستم کی خو نہیں تم میں تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو ٭ نظرؔ لکھنوی

    ستم کی خو نہیں تم میں تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو نہ مطلب چھیڑ ہو دل سے تو آخر دل ستاں کیوں ہو وہ تجھ سے سرگراں کیوں ہو نصیبِ دشمناں کیوں ہو ہمیشہ خوش گمانی چاہیے تو بد گماں کیوں ہو نہیں کہنے کی عادت جس کو پڑ جائے تو ہاں کیوں ہو سمجھ لے آدمی فطرت تو پھر دل پر گراں کیوں ہو نہ ہو جس کو دماغِ...
  19. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: وہی بجلیوں کی چشمک، وہی شاخِ آشیانہ ٭ نظرؔ لکھنوی

    وہی بجلیوں کی چشمک، وہی شاخِ آشیانہ وہی میری زاریاں ہیں، وہی نالۂ شبانہ بہ ادائے والہانہ، کوئی جہدِ مخلصانہ مجھے چاہیے نہ واعظ، یہ کلامِ ناصحانہ مری گردشیں ہیں ساری مرے اپنے ہی عمل سے نہ نوشتۂ مقدر، نہ نوشتۂ زمانہ ابھی سن رہے تھے ہنس کر، ابھی اٹھ گئے بگڑ کر کہ سمجھ گئے بالآخر وہ حقیقتِ...
  20. محمد تابش صدیقی

    نظر لکھنوی غزل: عطائے ساقی فطرت ہے کیا حکیمانہ ٭ نظرؔ لکھنوی

    عطائے ساقی ِفطرت ہے کیا حکیمانہ ہر اک کو بخششِ مے ہے بقدرِ پیمانہ اسی خمار کی مے ہے، وہی ہے پیمانہ کہوں میں کیسے کہ بدلا ہے نظمِ میخانہ امنگ و آرزو و شوق و حسرت و ارماں نہ ہوں جو دل میں تو دل کیا ہے ایک ویرانہ سکوں ہے دل کو مرے سجدہ ہائے باطل پر گراں ہے مجھ پہ مگر اف نمازِ دو گانہ اب آ،...
Top