نظر لکھنوی غزل: جان و دل سی شے کروں میں کیوں نثارِ زندگی ٭ نظرؔ لکھنوی

جان و دل سی شے کروں میں کیوں نثارِ زندگی
مجھ کو حاصل جب نہیں کچھ اختیارِ زندگی

کھینچ کر رکھ اس کی راسیں اے سوارِ زندگی
تا غلط رخ پر نہ چل دے راہوارِ زندگی

خوب ہی مرغوب ہے گو مرغزارِ زندگی
پر اسی میں گھومتے پھرتے ہیں مارِ زندگی

یہ حقیقت مجھ سے سن اے کامگارِ زندگی
رزقِ بہتر پر نہیں دار و مدارِ زندگی

میں یہ کہتا ہوں یہ مہلت ہے بکارِ آخرت
میں نہیں دیتا تمھیں درسِ فرارِ زندگی

زندگی کی کل حقیقت موت سے معلوم کر
موت کو پایا ہے ہم نے رازدارِ زندگی

کچھ بھی کہتے رہیے پھر، ہوتا نہیں دل پر اثر
پھیل جائے جب کسی میں زہرِ مارِ زندگی

آرزوؤں کے بھنور میں وہ نہیں پھنستا کبھی
کھل گیا ہے جس پہ رازِ اختصارِ زندگی

چند سانسوں کا تکلف رنج و غم کے درمیاں
مجھ کو بھی ہونا تھا دو دن گنہگارِ زندگی

میرے تیرے ذوق میں اے دل ہے بُعد المشرقین
جاں نثارِ آخرت میں، تو نثارِ زندگی

ٹوٹتے دیکھا حباب اور کھل گئی آنکھیں مری
کر لیا تھا پہلے میں نے اعتبارِ زندگی

موت کے چنگل سے اس کا بچ نکلنا ہے محال
موت کو دیکھا ہے ہم نے پہرہ دارِ زندگی

٭٭٭
محمد عبد الحمید صدیقی نظرؔ لکھنوی
 
Top