نتائج تلاش

  1. ظہیراحمدظہیر

    ضربِ تیشہ سے اک اعجاز کی صورت جاگے

    ضربِ تیشہ سے اک اعجاز کی صورت جاگے سینۂ سنگ سے اک موم کی مورت جاگے ٹوٹ جائے مرے مولا یہ جمودِ شب تار تارۂ بخت چمک جائے مہورت جاگے کاش پڑ جائے مرےغم پہ ہُما کا سایا شعلۂ درد سےعنقا کسی صورت جاگے خواہش ِ حرف ِ ستائش کو تھپک دو ورنہ بن کے اکثر یہ نمائش کی ضرورت جاگے...
  2. ظہیراحمدظہیر

    تم جہاں جاؤ تمہیں میری دعا خوش رکھے

    اپنے بیٹے سعد کی تعلیمی کامیابیوں پر چند سال پہلے ایک دعائیہ کلام لکھا تھا ۔ اس دعا میں شرکت اور آمین کہنے کے لئے آپ سب کا پیشگی شکریہ ۔ سعد کیلئے شاد و آباد رہو ، وقت سدا خوش رکھے تم جہاں جاؤ تمہیں میری دعا خوش رکھے فکرِ فردا سے بجھے جاتے تھے دل سینوں میں حوصلہ تم نے دیا ، تم کو...
  3. ظہیراحمدظہیر

    آرزوؤں کا نشانہ ہوگیا

    آرزوؤں کا نشانہ ہوگیا دل مرا آخر دوانہ ہوگیا رہ گئی تھی اک حقیقت آخری عشق بھی آخر فسانہ ہوگیا خواب سے نکلا تو کیا دیکھا کہ وہ خواب ہی میرا پرانا ہو گیا آئنہ چہرے مقابل ہی نہیں خود کو دیکھے اک زمانہ ہوگیا بجھ گیا ہے دل سرائے کا دیا کارواں شاید روانہ ہوگیا راکھ ہوکر ہی نہیں دیتا...
  4. ظہیراحمدظہیر

    ہجراں میں دربدر ہوئے ہم قربتوں کے بعد

    احبابِ محفل ! اب مرے توشۂ سخن میں چند آخری غزلیں ہی رہ گئی ہیں ۔ انہیں بھی جلد ی سے آپ کی بصارتوں کی نذر کرکے اس کام سے فارغ ہوا چاہتا ہوں جو تقریباً دو سال قبل شروع کیا تھا ۔ ایک بہت ہی پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ ہجراں میں دربدر ہوئے ہم قربتوں کے بعد دیدی گئی زمین ہمیں جنّتوں کے...
  5. ظہیراحمدظہیر

    قطعہ: وہاں اک موجِ بے حس ہے کہ آنکھیں نم نہیں کرتی

    قطعہ وہاں اک موجِ بے حس ہے کہ آنکھیں نم نہیں کرتی یہاں آبِ ندامت میں جبینیں ڈوب جاتی ہیں یہ موجِ بے حسی بن کر سُونامی جان لے لے گی سفینے برطرف اِس میں زمینیں ڈوب جاتی ہیں ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۱۸
  6. ظہیراحمدظہیر

    گنتی میں بے شمار تھے ، کم کر دیے گئے ( عالم تاب تشنہ)

    گنتی میں بے شمار تھے ، کم کر دیے گئے ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دیے گئے پہلے نصابِ عدل ہُوا ہم سے انتساب پھر یوں ہُوا کہ قتل بھی ہم کر دیے گئے پہلے لہو لہان کیا ہم کو شہر نے پھر پیرہن ہمارے علَم کر دیے گئے پہلے ہی کم تھی قریۂ جاناں میں روشنی اور اس پہ کچھ چراغ بھی کم کر دیے گئے اِس شہرِ...
  7. ظہیراحمدظہیر

    مکان اور مکین

    مکان اور مکین سہما ہوا ہے کمرے میں برسوں کا انتظار جالے ہیں فرقتوں کے کواڑوں کے بیچ میں اک شخص ٹوٹ کر ہوا کچھ اور پُر بہار اُگتے ہوں جیسے پھول دراڑوں کے بیچ میں ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔ مئی ۲۰۰۳
  8. ظہیراحمدظہیر

    رنگ شفق سے لے کرجیسے رُخ پہ مَلی ہے شام

    صاحبو! جب زندگی کا دن ڈھلنے پر آجائے اور شام کے رنگ ہر طرف پھیلنے لگیں تو یکایک ہر احساسِ زیاں کچھ اور شدت سے چبھنے لگتا ہے ۔ ایسے میں اگر انسان پلٹ کر دیکھنے کے بجائے آگے دیکھے اور اپنے ہمسفر اور ہمقدم کی نعمت کا اعتراف کرے تو ڈھارس بندھتی ہے ۔ دل کچھ سنبھلنے لگتا ہے ۔ میں بھی اب شام کی...
  9. ظہیراحمدظہیر

    اک بات کہہ رہا ہوں لہجے بدل بدل کے

    احبابِ کرام ! ایک اور پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ اک بات کہہ رہا ہوں لہجے بدل بدل کے اک شعر ہو رہا ہے مصرعے بدل بدل کے پُرپیچ راستہ ہے ، سامان ہلکا رکھنا تھک جاؤ گے وگرنہ کاندھے بدل بدل کے تاریکیوں سے گذرا میں روشنی کی خاطر پہنچا تری ڈگر پر رستے بدل بدل کے تعبیر کیا ملے گی اُن کو بھلا...
  10. ظہیراحمدظہیر

    نہ ملے تم ، تو ملا کوئی تمہارے جیسا

    ایک بہت ہی پرانی غزل سرکلر فائل سے براہِ راست آپ احباب کی خدمت میں پیش ہے ۔ شاید آپ کو پسند آئے ۔ نہ ملے تم ، تو ملا کوئی تمہارے جیسا فائدہ عشق میں دیکھا ہے خسارے جیسا موج اڑاتی ہوئی مخمور سمندر آنکھیں ڈھونڈتی رہ گئیں اک شخص کنارے جیسا عشق حیراں ہے ابھی پہلی نظر کے مانند حسن ابھی تک...
  11. ظہیراحمدظہیر

    اپنی مٹی کو مقدر کا ستارہ کر لو

    احبابِ کرام ایک بہت ہی پرانی غزل سرکلر فائل سے آپ کی نذر! :) اِس کے ہر ذرّے سے پیمان دوبارہ کر لو اپنی مٹی کو مقدر کا ستارہ کر لو برف سی جمنے لگی دل پہ نئے موسم کی ہجر کی آنچ کو بھڑکا کے شرارہ کر لو صحن بھر چاندنی کب راہ نوردوں کا نصیب ! آنکھ میں عکس ِ قمر بھر کے گزارہ کر لو...
  12. ظہیراحمدظہیر

    پہاڑ ، دشت ، سمندر ٹھکانے دریا کے

    چھ سات سال پرانی ایک غزل پیشِ خدمت ہے ۔ میں تو اسے سرکلر فائل میں ڈال چکا تھا لیکن برادرم محمد تابش صدیقی کی فرمائش اور ہمت افزائی پر یہاں لگارہا ہوں ۔ یہ غزل اس دور کی ہے جب میں نے مختلف مظاہر فطرت مثلاً ہوا ، بادل، پانی وغیرہ کو ردیف بنا کر کچھ غزلیں لکھی تھیں ۔ شاید کوئی کام کا شعر نکل آئے...
  13. ظہیراحمدظہیر

    وہ ایک شخص کہ سب جاچکے تو یاد آیا

    احبابِ کرام ! آپ کو مژدہو کہ بس اب ہمارے پلندے میں کچھ ہی غزلیں باقی رہ گئی ہیں ۔ جیسے ہی موقع ملتا جائے گا یہاں لگاتا رہوں گا ۔ ایک پرانی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ وہ ایک شخص کہ سب جاچکے تو یاد آیا کسی کو آئے نہ آئے مجھے تو یاد آیا مقابلے پر اندھیرا نہیں ہوا بھی ہے کئی چراغ یکایک بجھے تو...
  14. ظہیراحمدظہیر

    چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

    احبابِ کرام ! گئے دنوں کی بات ہے کہ اس محفلِ صد آہنگ میں یعنی کہ اس گلشنِ ہفت رنگ میں ہوا کرتا تھاایک طائرِخوش نوا ، خوش رنگ و خوش ادا ، ہمدم و دمسازِ گل ، ہم فغانِ نالۂ بلبل ، سخن طرازِ بے مثال و نغمہ سنجِ باکمال کہ اسیر تھے اہلِ چمن جس کی شیرینیٔ گفتار کے ،...
  15. ظہیراحمدظہیر

    کہنے کو تو گلشن میں ہیں رنگ رنگیلے پھول ( محمد احمد )

    پچھلے دنوں شاعرِ خوش بیان محمد احمد بھائی کے بلاگ ’’رعنائیِ خیال‘‘ پر جانا ہوا تو ان کی یہ تازہ غزل نظر آئی ۔ احمد بھائی کی اجازت کے بغیر یہ غزل اس گلدستۂ سخن میں شامل کرہا ہوں ۔ ان کے مخصوص لہجے اور لفظیات کی حامل یہ غزل وہی تاثر اور فضا لئے ہوئے ہے کہ جو اُن کے کلام میں بالعموم...
  16. ظہیراحمدظہیر

    میری اسکیچ بک

    میرے شہر سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے دور جھیل مشی گن پر ایک قدیم شہر بنام اسٹرجن بے ہے ۔ یہاں کا ایک آرٹسٹ گیرارڈ ملر میرے پسندیدہ ٓرٹسٹوں میں سے ہے ۔ اور اس کے کام سے متاثر ہوکر میں نے کئی اسکیچ پین سے بنائے ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ ہے ۔ اس کا اصل سائز آرٹ بورڈ پر دس ضرب سات انچ ہے ۔ اور اس میں...
  17. ظہیراحمدظہیر

    میری خطاطی

    :):):)احبابِ کرام ! اس لڑی میں اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے کچھ ’’فن پارے ‘‘ پیش کرنے کا ارادہ ہے ۔ میں کوئی باقاعدہ خطاط یا مصور نہیں ۔ خطاطی اورمصوری میراایک مشغلہ ہے ہ جس کا شوق مجھے ابتدائی عمر سے رہا لیکن بدقسمتی سے کبھی باقاعدہ سیکھنے کا موقع نہیں مل سکا ۔ ساٹھ کی دہائی کا...
  18. ظہیراحمدظہیر

    قطبی رات ۔ ایک نظم

    سالوں پہلے مشی گن کے انتہائی شمالی اور سرد علاقے میں سرما کی چند راتیں ایک کیبن میں گزارنے کا اتفاق ہوا ۔ قطبی روشنیاں دیکھنے اور ویرانے میں کچھ دن گزارنے کا شوق وہاں لے گیا تھا ۔ شمالی مشی گن اور شمالی وسکانسن کا سرما شدید اور طویل ہوتا ہے ۔ یہ نظم اس قیام کی یادگار ہے ۔ اس میں ایک عروضی...
  19. ظہیراحمدظہیر

    راز درپردۂ دستار و قبا جانتی ہے

    راز در پردۂ دستار و قبا جانتی ہے کون کس بھیس میں ہے خلقِ خدا جانتی ہے کون سے دیپ نمائش کے لئے چھوڑنے ہیں کن چراغوں کو بجھانا ہے ہوا جانتی ہے اک مری چشمِ تماشہ ہے کہ ہوتی نہیں سیر فکرِ منزل ہے کہ رُکنے کو برا جانتی ہے نشۂ عشق مجھے اور ذرا کر مدہوش بے خودی میری ابھی میرا پتہ جانتی ہے...
  20. ظہیراحمدظہیر

    دونوں سرے ہی کھوگئے ، بس یہ سرا ملا

    دونوں سرے ہی کھوگئے ، بس یہ سرا ملا اپنی خبر ملی ہے نہ اُس کا پتہ ملا رو رو کے مٹ گیا ہوں تو مجھ پرنظر ہوئی بینائی کھو گئی تو مجھے آئنہ ملا اُس کو کمالِ ضبط ملا ، مجھ کو دشتِ ہجر لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کو کیا ملا آنے لگے نظر غم و آلامِ دو جہاں بالغ نظر ہوئے تو اِن آنکھوں کو کیا ملا سادہ...
Top