نتائج تلاش

  1. ظہیراحمدظہیر

    ہم ترا ذکرِ طرحدار لکھا کرتے تھے

    ہم ترا ذکرِ طرحدار لکھا کرتے تھے کوئی روکے تو بتکرار لکھا کرتے تھے پندِ ناصح جو کہیں لکھا نظر آ جائے نام تیرا وہیں سو بار لکھا کرتے تھے محضرِ جرمِ وفا پر بخطِ رسم ِ جلی برملا کلمۂ اقرار لکھا کرتے تھے فردِ تکفیر ہمیں ملتی تھی جس کاغذ پر ہم اُسی پر ترے اشعار لکھا کرتے تھے ہم نے دیکھا ہی نہ...
  2. ظہیراحمدظہیر

    مٹی سنوار کر مری ، دیپک میں ڈھال دے

    مٹی سنوار کر مری ، دیپک میں ڈھال دے مجھ کو جلا کے پھر مری دنیا اُجال دے مجھ کو اُٹھا کے رکھ کسی طوفاں کی آنکھ میں ہر موج ِ مضطرب مرے سر سے اچھال دے ٹکرادے حوصلہ مرا آلام ِ زیست سے مرنے کی آرزو کو بھی دل سے نکال دے پامال راستوں سے ہٹا کر مرے قدم نایافت منزلوں کے اشارے پہ ڈال دے اک مستعار...
  3. ظہیراحمدظہیر

    برگد جیسے لوگوں کے نام

    ایک بہت پرانی مسلسل سی غزل پیشِ خدمت ہے ۔ ( برگد جیسے لوگوں کے نام) کوئی بھی رُت ہو چمن چھوڑ کر نہیں جاتے چلے بھی جائیں پرندے ، شجر نہیں جاتے ہوا اُتار بھی ڈالے اگر قبائے بدن بلند رکھتے ہیں بازو بکھر نہیں جاتے گئی رتوں کے سبھی رنگ پہنے رہتے ہیں شجر پہ رہتے ہیں موسم گذر نہیں جاتے خمیر بنتے...
  4. ظہیراحمدظہیر

    جہاں پر آبِ رواں سے چٹان ملتی ہے

    احبابِ کرام ایک پرانی غزل آپ کی بصارتوں کی نذر! جہاں پر آبِ رواں سے چٹان ملتی ہے وہیں سے موج کو اکثر اٹھان ملتی ہے جہاں بھی دستِ توکل نے کچھ نہیں چھوڑا وہیں سے دولتِ کون و مکان ملتی ہے جو قفلِ ذات کرے ضربِ عشق سے دو نیم اُسے کلیدِ زمان و مکان ملتی ہے کریں گمان تو جاتی ہے دولتِ...
  5. ظہیراحمدظہیر

    لے لے کے تمہارا نام صبا پیغام تمہارا دیتی ہے

    اِس دور کے گھور اندھیرے میں اک یاد سہارا دیتی ہے جب بھی میں بھٹکنے لگتا ہوں منزل کا اشارہ دیتی ہے طوفاں کے تھپیڑے سہتا ہوں اور سوچتا ہوں کب آئیگی وہ موجِ اماں جو آوارہ کشتی کو کنارا دیتی ہے ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۸
  6. ظہیراحمدظہیر

    نہ سیم و زر نہ گہر بیچ کر ادا ہوگا

    نہ سیم و زر نہ گہر بیچ کر ادا ہوگا وفا کا قرض ہے ، سر بیچ کر ادا ہوگا زمیں کا قرض ہے جتنا مری اڑانوں پر غرورِ بازو و پر بیچ کر ادا ہوگا چکانے نکلا ہوں میں کاسۂ گدائی لئے جو قرض کاسۂ سر بیچ کر ادا ہوگا لبوں سے حرفِ محبت بہ لہجۂ تسلیم متاعِ قلب و جگر بیچ کر ادا ہوگا ہے یرغمالِ ضرورت جو...
  7. ظہیراحمدظہیر

    اپنے سر تیرے تغافل کا بھی الزام لیا ہے

    یہ غزل ایک بہت ہی شاذ بحر میں ہے ۔ اردو شاعری میں یہ وزن خال خال ہی دیکھنے کو ملتا ہے ۔ اس وزن میں دو تین غزلیں اور ہیں اور اس عہد کی یادگار ہیں کہ جب میں بحروں کے ساتھ تجربات کررہا تھا ۔ شاید آپ احباب کو ایک آدھ شعر پسند آجائے ۔ اپنے سر تیرے تغافل کا بھی الزام لیا ہے خود فریبی کا ستم دل...
  8. ظہیراحمدظہیر

    نہ کوئی باد نما تھا نہ ستارہ اپنا

    نہ کوئی باد نما تھا نہ ستارہ اپنا رہنما کوئی اگر تھا تو یہ رستہ اپنا زندگی گزری تضادات سے لڑتے لڑتے فیصلے سارے تھے اوروں کے ، طریقہ اپنا بے سلیقہ تو نہیں ، بے سروسامان سہی دست و بازو کو بنائیں گے وسیلہ اپنا مان کرمشورے اپنوں کے اٹھایا ہے قدم دیکھئے اب کیا نکلتا ہے نتیجہ اپنا ڈر تو لگتا...
  9. ظہیراحمدظہیر

    نصیب ہو جو کبھی اُس کی آرزو کرنا

    نصیب ہو جو کبھی اُس کی آرزو کرنا متاعِ دیدہ و دل صرفِ جستجو کرنا گمان تک بھی نہ گزرے کہ غیر شاہد ہے یہ جس کا سجدہ ہے بس اُس کے روبرو کرنا ملیں گے حرفِ عبادت کو نت نئے مفہوم کبھی تم اُس سے اکیلے میں گفتگو کرنا ہزار رہزنِ ایمان سے ملے گی نجات کوئی سفر ہو عقیدت کا قبلہ رو کرنا وہ ذاتِ...
  10. ظہیراحمدظہیر

    یہ مرا غم کسی صورت نہیں گھٹنے والا

    یہ مرا غم کسی صورت نہیں گھٹنے والا ناخدا تھا مری کشتی کو اُلٹنے والا لذتِ درد کا موسم بھی کبھی بدلا ہے؟ ابرِ غم سر سے یہ برسوں نہیں چھَٹنے والا چھوڑ کر دیکھ تو احساس کا دامن اے دل غم رہے گا نہ کوئی جاں سے لپٹنے والا راہِ تسکین پہ لے آئی تمنا مجھ کو زندگی بھر بھی سفر اب نہیں کٹنے...
  11. ظہیراحمدظہیر

    مسافرانِ محبت ہیں ، سنگِ راہ نہیں

    یہ غزل سانحہ گیارہ ستمبر کے بعد کے چند سالوں میں رونما ہونے والے واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی تھی ۔ کسی کو روک لیں ہم ، ایسے کم نگاہ نہیں مسافرانِ محبت ہیں سنگِ راہ نہیں ۔ق۔ ستم تو یہ ہےکہ دنیا تمہارے زیرِ ستم تمہارے ظلم کا پھر بھی کوئی گواہ نہیں کھلا ہے کون سا...
  12. ظہیراحمدظہیر

    سایۂ نخلِ ثمر بار نہیں آیا پھر

    احبابِ کرام ! دس پندرہ پرانی غزلیں اور نظمیں اور نکل آئی ہیں اور ٹائپ بھی ہوگئی ہیں ۔ ان میں سےکچھ چنیدہ غزلیں اور نظمیں آئندہ کچھ دنوں میں آپ کی خدمت میں پیش کرنے کا ارادہ ہے ۔ سایۂ نخلِ ثمر بار نہیں آیا پھر گھر سے نکلے تو چمن زار نہیں آیا پھر پھر مجھے خاکِ جنوں لے کے پھری دشت بہ دشت...
  13. ظہیراحمدظہیر

    پینسل سے پکسل تک

    اس مراسلے کا مقصد آپ دوستوں کو یہ اطلاع دینا ہے کہ یہ کشتۂ آزار ، بندۂ بیکار ،گنہگار شاعری کے علاوہ کئی دوسرے عارضوں میں بھی مبتلا ہے۔ عرصہ پہلے احمد بھائی سے مراسلت کے دوران کہیں غلطی سے لکھ دیا کہ ہمیں آرٹ وغیرہ سے بھی کچھ شغف ہے ۔ نتیجتاً ان کی طرف سے اس ’’ آرٹ‘‘ کی نمائش کی...
  14. ظہیراحمدظہیر

    سخن رہے گا ، سخنور بھی کم نہیں ہونگے

    احبابِ کرام ! پچھلے دنوں یہیں کسی لڑی میں فیس بک کے بارے میں برادرم تابش صدیقی کا ایک شعر پڑھ کر یہ غزل یاد آگئی تھی لیکن اسے پوسٹ کرنا بھول گیا ۔ وہ لڑی بھی نجانے کہاں اوجھل ہوگئی ۔ آج یاد آیا اور موقع ملا ہے تو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ۔ سخن رہے گا ، سخنور بھی کم نہیں ہونگے یہ اور...
  15. ظہیراحمدظہیر

    ہوش و خرد ، غرورِ تمنا گنوا کے ہم

    ہوش و خرد ، غرورِ تمنا گنوا کے ہم پہنچے ترے حضور میں کیا کیا لٹا کے ہم کوہِ گرانِ عشق تری رفعتوں کی خیر! دامن میں تیرے آگئے تیشہ گنوا کے ہم ہم پیش کیا کریں اُسے کشکول کے سوا وہ ذات بے نیاز ہے ، بھوکے سدا کے ہم نادم ہیں کر کے چہرۂ قرطاس کو سیاہ...
  16. ظہیراحمدظہیر

    حسرت ان مطلعوں پہ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    اشعارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران یہ چند مطلع برآمد ہوئے ہیں جو کسی غزل کا سرنامہ نہ بن سکے ۔ یہ ٹوٹے پھوٹے اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔ شاید ایک آدھ آپ کو پسند آجائے ۔ :):):) اک بات کہہ رہے ہیں شاعر سبھی غزل کے اک شعر ہورہا ہے مصرعے بدل بدل کے ×××× مجھ کو شریکِ غم بنا ، اپنا شریکِ حال رکھ اتنا...
  17. ظہیراحمدظہیر

    قطعہ: جل بجھے ہم تو ہوا ایک زمانہ واقف

    قطعہ جل بجھے ہم تو ہوا ایک زمانہ واقف واقعہ اپنے بکھرنے کا سبھی نے دیکھا لوگ پتھر تھے یا پھر ہم تھے شہاب ثاقب ٹوٹ کر گرنے سے پہلے نہ کسی نے دیکھا ظہیر احمد ۔۔۔۔ ۲۰۰۵
  18. ظہیراحمدظہیر

    قطعہ: حوصلہ قافلے والوں کا بڑھاتے رہنا

    قطعہ حوصلہ قافلے والوں کا بڑھاتے رہنا منزلیں دور ہیں قدموں کو ہلاتےرہنا میں حدی خواں ہوں مرا کام صدائیں کرنا میری آواز میں آواز ملاتے رہنا ظہیراحمد ۔۔۔۔۔۔ تاریخ نامعلوم
  19. ظہیراحمدظہیر

    قطعہ: ہر لمحہ زہرِ نو کوئی پی کر دکھائے تو

    قطعہ ہر لمحہ زہرِ نو کوئی پی کر دکھائے تو مر مر کے شہرِ ہجر میں جی کر دکھائے تو اپنے ہی ہاتھوں اپنا کلیجہ کیا ہے چاک چارہ گری کرے ، کوئی سی کر دکھائے تو ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔ نومبر ۲۰۱۳
  20. ظہیراحمدظہیر

    میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا

    میں پلٹ کر وار کرتا ، حوصلہ میرا بھی تھا کیا کہوں میں ، دشمنوں میں آشنا میرا بھی تھا اجنبی بیگانہ تیری آشنائی کر گئی اک زمانہ تھا ، زمانہ آشنا میرا بھی تھا ہاں یہی کوئے خرابی ، ہاں یہی دہلیزِ عشق لاپتہ ہونے سے پہلے یہ پتہ میرا بھی تھا ریزہ ہائے خوابِ الفت چننے والے دیکھنا! اِن شکستہ آئنوں...
Top