بابا-جی

محفلین

بابا-جی

محفلین
فارسی میں اِسے آشنا پنداری یا حالتِ پیش دیدہ کہتے ہیں اور اُردو میں دُوسری اصطلاح رائج ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں حالتِ پیش دیدہ نا مُکمل ہے، اِس میں وہم اور گُمان کے معنی نہیں مِلتے۔
 
آخری تدوین:

بابا-جی

محفلین
عربی زبان میں اِس اصطلاح کو وهم سبق الرؤية کہا جاتا ہے جو اُن کی زبان کے حساب سے کافی بہتر ہے۔ اُردو میں ڈیژا وُو سے کام چلانا مُناسب لگ رہا ہے۔
 

عاطف ملک

محفلین
متروکہ کلام سے ایک اور پرانی نظم پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں کہ آپ دوستوں کا یہی تقاضا تھا ۔ اس نظم کا نام اردو میں نہ ہونے کے لئے معذرت۔ باوجود کوشش کے ڈیژا وُو کا اردو متبادل مجھے نہیں مل سکا ۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ڈیژا وُو عالمی طور پر شاید ہر زبان میں معروف ہے اس لئے اسی عنوان کو برقرار رکھتا ہوں ۔ آپ اپنی رائے سے ضرور آگاہی بخشئے گا ۔ ممنون رہوں گا۔


ڈیژا وُو

(جھیل مشی گن کےکنارے)

٭

جھیل کی سرد ہوا ہے یہ مرے چاروں طرف
یا کسی بھولی ہوئی یاد کا جھونکا ہے کوئی
مجھے چُھوتی ہوئی گذری ہے تو محسوس ہوا
جیسے اک یاد کے یخ بستہ دریچے پہ کہیں
عکسِ امروز نے موہوم سی دستک دی ہے
اسقدر ماند ہے اس موجۂ احساس کی رو
سرمئی دھند میں لپٹا ہوا دن ہو جیسے
یادِ ماضی کا یہ بھولا ہوا لمحہ بھی کبھی
وقت کی رو میں گلابوں کی طرح تازہ تھا
اپنے ماحول کے سب رنگوں کی ساری حدت
اپنے دامن میں لئے پوری طرح زندہ تھا
جیسے ہوتا ہے مگر ویسے ہی رفتہ رفتہ
فکرِ فردا کے زمستانوں کی ژالہ باری
تہ بہ تہ دل کی زمیں پرہوئی ایسے شب و روز
منجمد ہو گئے سوئی ہوئی یادوں کے نقوش
آج اس جھیل مشی گن کے کنارے سے اِ دھر
ہلکی برسات میں بھیگے ہوئے گیلے پتے
اپنی رعنائی کی خوشبو سے مہک کر خود ہی
تال پر بوندوں کی بجنے لگے دھیرے دھیرے
دُور اک موجۂ بےتاب نے اٹھ کر جیسے
ساتھ اُڑتے ہوئے سِیگل کا چمکتا سا بدن
ذرا دھیرے سے چُھوا اور یونہی چھوڑ دیا
جانے کیا وعدۂ و پیماں ہوئے اُس لمحے میں
پاس اک شرمگیں چہرے پہ دھنک پھیل گئی
گل ستاں جیسے سمٹ جائے کسی غنچے میں
رقص کرتی ہوئی کچھ شوخ سی بیباک ہوا
اک کھلی زلف سے اُلجھی تو یہ سوچا میں نے
جھیل کی سرد ہوا ہے یہ مرے چاروں طرف
یا کسی بھولی ہوئی یاد کا جھونکا ہے کوئی
یہ سمے مجھ پہ کہیں پہلے بھی ہو گذرا ہے
یا کہیں میرے تصور کا یہ دھوکا ہے کوئی

٭٭٭

ارے واہ۔۔۔۔ایسا کلام اور اس پہ یہ دعویٰ
ویسے آپ دیکھ لیجئے تیس سال پہلے بھی میری غزلیں اسی طرح "خشک" ہوا کرتی تھیں
میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا:p
اگر یہی خشک شاعری ہے تو دعا ہے کہ خدا مجھے بھی کسی مشی گن جھیل سے روشناس کرے:rolleyes:

بہت خوبصورت کلام ہے۔داد قبول کیجیے۔:)
 
بہت خوب ظہیرؔ بھائی ۔۔۔ نہایت اعلیٰ اور رواں منظرکشی ہے ۔۔۔ کبھی ہمیں امریکا یاترا کی سعادت نصیب ہوئی تو جھیل مشی گن کنارے بیٹھ کر یہ نظم ضرور پڑھیں گے، ترنم کے ساتھ! :)

اُردو میں 'دیدِ قبلاََ' کِسی حد تک رائج ہے مگر ڈیژا وُو ہی بہتر ہے۔
کیا جھیل مشی گن کو اردو میں بحیرۂ پیادہ بندوق کہہ سکتے ہیں؟ :)
 
اتنا کام ابھی کر پوسٹ کیجیے۔ تاکہ آپ کی امریکہ یاترا کی دعا کی جا سکے۔
آپ سمجھے نہیں، ہم بمع آنسہ ترنم امریکا یاترا کی سعادت کا کہہ رہے تھے :)
الحمد للہ ہماری اہلیہ محترمہ محفل سے ۱۰۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر رہتی ہیں :)
 
فتویٰ بریگیڈ حرکت میں آجائے گا اور پھر جواب در جواب در جواب کا وقت کہاں سے لاؤں گا۔ :)
آپ نے دیر کردی، ہم نے تو اب اپنے چاق چوبند دستوں کو ’’موبلائز‘‘ کردیا ہے :)
خیر، اس موضوع پر اشتراکیوں سے ہمارا اختلاف خالصتاً ’’سیکولر‘‘ بنیادوں پر ہے :)
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
مفت کا ہے تو قبول ہے ۔
چنانچہ آئندہ نظم پوسٹ کرتے وقت شروع ہی میں لکھ دیا کروں گا کہ یہ نظم سوئٹر اور دستانے پہن کر پڑھنی ہے یا پنکھا چلا کر ۔
میں نے کچھ قادر الکلامی کے نایاب اور انوکھے واقعات سن رکھے ہیں کہ صاحبِ بیان نے حاضرین و سامعین کو اس طرز سے اپنے سحر میں جکڑا کہ ہم جیسے لوگوں نے اُس بیان کو فی الواقع وقوع پذیر ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا اس روایت کی صحت کی بہرحال میں تصدیق تو نہیں کر سکتا مگر واقعات کچھ یوں تھے کہ ایک بار ایک صاحب سردیوں کی ایک شام کے وقت حاضرین کے سامنے ایک گرم دوپہر کو کچھ اس انداز سے بیان کیا کہ حاضرین نے شدتِ گرمی سے بچنے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی
دوسرا واقعہ
دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ایک صاحب نے ریڈیو پہ اپنے بیان کے جوہر دکھاتے ہوئے جنگ کا نقشہ اس انداز سے بیان کیا کے لوگوں نے گھبراہٹ میں اپنے گھروں سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ کو بالخصوص یِہ رِعایت و سہولت نہیں دِی جا سکتی کِہ یہاں آپ کے مُتاثرین بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
جناب آئندہ پوری کوشش رہے گی ۔ اب میں دھیان رکھوں گا کہ بے دھیانی غالب نہ آنے پائے ۔ :)

فارسی میں اِسے آشنا پنداری یا حالتِ پیش دیدہ کہتے ہیں اور اُردو میں دُوسری اصطلاح رائج ہو سکتی ہے۔ میرے خیال میں حالتِ پیش دیدہ نا مُکمل ہے، اِس میں وہم اور گُمان کے معنی نہیں مِلتے۔
عربی زبان میں اِس اصطلاح کو وهم سبق الرؤية کہا جاتا ہے جو اُن کی زبان کے حساب سے کافی بہتر ہے۔ اُردو میں ڈیژا وُو سے کام چلانا مُناسب لگ رہا ہے۔
یہ سب ترجمے نامکمل اور سطحی سے ہیں ۔ خصوصاً دیدِ قبلاً تو بالکل ہی مریل اور چوں چوں کا مربہ ہے ۔ پسند نہیں آیا ۔ سو بات کی ایک بات وہی ہے جو آپ نے کہی کہ ڈیژا وُو ہی سب سے بہتر اور معروف ترکیب ہے ۔ سو اسی کو برتنا چاہیے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ارے واہ۔۔۔۔ایسا کلام اور اس پہ یہ دعویٰ

میں نہیں مانتا،میں نہیں مانتا:p
اگر یہی خشک شاعری ہے تو دعا ہے کہ خدا مجھے بھی کسی مشی گن جھیل سے روشناس کرے:rolleyes:

بہت خوبصورت کلام ہے۔داد قبول کیجیے۔:)
بہت شکریہ عاطف بھائی !
کبھی کبھی کسی مصرعِ تر کی صورت نکل آتی ہے ۔ سو اس کے لئے معذرت! اگلے ہفتے سے دوبارہ جھیل سے خشکی پر واپسی ہوجائےگی ۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ظہیرؔ بھائی ۔۔۔ نہایت اعلیٰ اور رواں منظرکشی ہے ۔۔۔ کبھی ہمیں امریکا یاترا کی سعادت نصیب ہوئی تو جھیل مشی گن کنارے بیٹھ کر یہ نظم ضرور پڑھیں گے، ترنم کے ساتھ! :)
راحل بھائی ، ترنم ساتھ لے کر آئیں گے یا یہاں پہنچ کر ڈھونڈیں گے ۔ مجھے پہلے سے بتادیجیے گا تاکہ قیام و طعام کے انتظامات میں آسانی رہے ۔ (سنجیدہ تھوبڑے والا شتونگڑہ)
کیا جھیل مشی گن کو اردو میں بحیرۂ پیادہ بندوق کہہ سکتے ہیں؟ :)
بالکل کہہ سکتے ہیں ۔ اگر عوام الناس کو یہ ترکیب مشکل لگے تو سلیس اردو میں بحیرۂ پیدل پستول بھی کہہ سکتے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ نے دیر کردی، ہم نے تو اب اپنے چاق چوبند دستوں کو ’’موبلائز‘‘ کردیا ہے :)
خیر، اس موضوع پر اشتراکیوں سے ہمارا اختلاف خالصتاً ’’سیکولر‘‘ بنیادوں پر ہے :)
اجی فوراً روکئے ان دستوں کو ۔ میں ابھی کفر چھوڑکر مسلمان ہوتا ہوں، کلمہ پڑھتا ہوں۔ آپ رحم کیجیے۔ :):):)
اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو پھر کبھی کسی مناسب موقع پر رہے گی
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں نے کچھ قادر الکلامی کے نایاب اور انوکھے واقعات سن رکھے ہیں کہ صاحبِ بیان نے حاضرین و سامعین کو اس طرز سے اپنے سحر میں جکڑا کہ ہم جیسے لوگوں نے اُس بیان کو فی الواقع وقوع پذیر ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا اس روایت کی صحت کی بہرحال میں تصدیق تو نہیں کر سکتا مگر واقعات کچھ یوں تھے کہ ایک بار ایک صاحب سردیوں کی ایک شام کے وقت حاضرین کے سامنے ایک گرم دوپہر کو کچھ اس انداز سے بیان کیا کہ حاضرین نے شدتِ گرمی سے بچنے کے لیے سمندر میں چھلانگ لگا دی
دوسرا واقعہ
دوسری جنگ عظیم کو ختم ہوئے کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ایک صاحب نے ریڈیو پہ اپنے بیان کے جوہر دکھاتے ہوئے جنگ کا نقشہ اس انداز سے بیان کیا کے لوگوں نے گھبراہٹ میں اپنے گھروں سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی
عبدالرؤف بھائی ، آپ تو سنجیدہ ہوگئے ۔ میں تو یو نہی مذاق کیا تھا ۔ آپ کی بات سے متفق ہوں۔ سامع بعض اوقات خود کسی ایسی کیفیت میں ہوتا ہے کہ عام سا کلام بھی کسی تار کو چھیڑ دیتا ہے ۔ میں خود کئی دفعہ کچھ شاعروں کا کلام سن کر سر دُھن چکا ہوں ۔ بعض دفعہ اپنا اور بعض دفعہ شاعر کا ۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
عبدالرؤف بھائی ، آپ تو سنجیدہ ہوگئے ۔ میں تو یو نہی مذاق کیا تھا ۔ آپ کی بات سے متفق ہوں۔ سامع بعض اوقات خود کسی ایسی کیفیت میں ہوتا ہے کہ عام سا کلام بھی کسی تار کو چھیڑ دیتا ہے ۔ میں خود کئی دفعہ کچھ شاعروں کا کلام سن کر سر دُھن چکا ہوں ۔ بعض دفعہ اپنا اور بعض دفعہ شاعر کا ۔
نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے :)
الحمدللہ ثم الحمدللہ
میں پرانی سوچ کا بندہ ہوں مجھے اساتذہ کی باتوں کا احترام رہتا ہے، ناراضی کا تو امکان ہی نہیں ہے :)
 
Top