پندرہویں سالگرہ برصغیر کی معدوم ہوتی اشیاء

IMG-20200814-002920.jpg

چور، سپاہی،بادشاہ اور وزیر
یہ کھیل شاید پرچیوں والا کھیل یا چور سپاہی کہلاتا تھا۔
ان پہ نمبر لکھ دیے جاتے تھے۔ پرچیاں بند کر کے رکھ دی جاتی تھیں۔ اب جس کے حصے میں جو پرچی آگئی۔ بادشاہ والی پرچی پہ زیادہ نمبر لکھے جاتے تھے، سپاہی والی پہ اس سے کم اور سب سے کم چور والی پہ۔
ایک صفحہ پہ ہر باری کے نمبر درج کر دیے جاتے اور آخر میں جمع کر کے دیکھا جاتا کہ کس کے زیادہ ہیں۔ وہی پہلے نمبر پہ آتا۔
یہ گیم تو بچہ پارٹی نے کرونا زدگی میں خوب کھیلی ہے۔

چاروں پرچیاں مروڑ تروڑ کر نیچے پھینک دی جاتی ہیں اور سب ایک ایک اٹھا لیتے ہیں، پھر جس کے پاس بادشاہ آتا ہے وہ سوال پوچھتا ہے۔

’بادشاہ کا وزیر کون ؟‘

جس کے پاس وزیر والی پرچی ہوتی ہے وہ جواب دیتا۔

’میں حضور، میں حضور‘

پھر بادشاہ سوال کرتا۔

’ان دونوں میں سے چور کون؟‘

وزیر نے اگر صحیح جواب دے دیا تو سب کو پرچیوں پر لکھے ہوئے نمبر مل جائیں گے اور اگر غلط جواب دیا تو چور کو وزیر کے نمبر مل جائیں گے اور یہ سب کسی ورق پر لکھا جا رہا ہوتا۔ عموماً دو تین صفحات ایک نشست میں بھر جاتے ہیں۔ پھر سب کے نمبر جمع کیے جاتے اور زیادہ نمبروں والے کو فاتح قرار دیا جاتا ہے، یعنی اگلی نشست تک وہ بادشاہ رہے گا۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ گیم تو بچہ پارٹی نے کرونا زدگی میں خوب کھیلی ہے۔

چاروں پرچیاں مروڑ تروڑ کر نیچے پھینک دی جاتی ہیں اور سب ایک ایک اٹھا لیتے ہیں، پھر جس کے پاس بادشاہ آتا ہے وہ سوال پوچھتا ہے۔

’بادشاہ کا وزیر کون ؟‘

جس کے پاس وزیر والی پرچی ہوتی ہے وہ جواب دیتا۔

’میں حضور، میں حضور‘

پھر بادشاہ سوال کرتا۔

’ان دونوں میں سے چور کون؟‘

وزیر نے اگر صحیح جواب دے دیا تو سب کو پرچیوں پر لکھے ہوئے نمبر مل جائیں گے اور اگر غلط جواب دیا تو چور کو وزیر کے نمبر مل جائیں گے اور یہ سب کسی ورق پر لکھا جا رہا ہوتا۔ عموماً دو تین صفحات ایک نشست میں بھر جاتے ہیں۔ پھر سب کے نمبر جمع کیے جاتے اور زیادہ نمبروں والے کو فاتح قرار دیا جاتا ہے، یعنی اگلی نشست تک وہ بادشاہ رہے گا۔ :)
میرے بچے بھی کھیلتے تھے، اور جو اگلی نشست تک بادشاہ بنتا تھا اس کا ہر حکم ماننا فرض ہو جاتا تھا، خاصی دھمکا چوکڑی مچتی ہے۔ :)
 

سید عمران

محفلین
ماشکی کی پیٹھ پہ پانی سے بھری مشک ہوا کرتی تھی جسے وہ دور کنوئیں سے بھر کے گھر گھر لے جا کر گھڑے اور پانی کے دیگر برتن بھرا کرتے تھے۔عام لوگوں کے گھروں میں پانی کے لیے کنوئیں نہیں ہوتے تھے۔ نلکے بعد میں لگنا شروع ہوئے۔

سارے ماشکیوں میں ایک بات مشترکہ ہے۔۔۔
سب ننگے پاؤں ہیں !!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
IMG-20200728-140738.jpg

کبھی یہ کیمرہ بھی ہوتا تھا۔
اس کا اگر کوئی مخصوص نام تھا تو مجھے معلوم نہیں۔
محفل کی کیمرہ مین متوجہ ہوں۔
سید عاطف علی

اس کیمرے کا اردو میں کوئی مخصوص نام نہیں لیکن انگریزی میں اسے ڈیگیروٹائپ کہتے ہیں ۔
کیمرے کے ذکر پر یادآیا کہ میرے بچپن میں ہمارے بڑے بھائی کے پاس کوڈک کا مشہورِ زمانہ براؤنی کیمرا یعنی کالے ڈبے والا کیمرہ ہوا کرتا تھا ۔ یہ کیمرا ایک عرصے تک میں نے سنبھال کر رکھا لیکن پھر اور بہت سی چیزوں کی طرح دست بردِ زمانہ کی نذر ہوگیا ۔ اب یاد آتا ہےتو افسوس ہوتا ہےکہ کیوں محفوظ نہ کیا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ماشکی یا بہشتی؟ یا دونوں کہہ سکتے ہیں؟
یہ پانی پلانے والے لگتے ہیں۔ نیز ماشکی، سقہ اور بہشتی میں کیا فرق ہے؟
سقّا (یا سقّہ) ، بہشتی اور ماشکی ایک ہی بات ہے یعنی وہ شخص جو کنویں یا دریا سے پانی بھرکرگھروں تک پہنچائے ۔ ماشکی اوربہشتی خالص ہندوستانی الفاظ ہیں ۔ جبکہ سقا عربی الاصل ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ بعض علاقوں میں ماشکی یا سقا میں فرق کیا جاتا ہو ۔ بہشتی کو عوام الناس "بھِشتی" بھی کہتے ہیں ۔ نظام سقہ کا نام تو ہر شخص نے سنا ہوا ہے ۔ مشہور ہے کہ اس نے اپنی مشک میں ہوا بھرکر اس کی مدد سے ہمایوں کو دریا پارکروایا تھا ۔ ایک اور پرتصنع لفظ جو پانی کا انتظام کرنے اور پلانے والوں کے لئے لکھا ملتا ہے وہ ہے "آبدار" ۔ آبدار عموماً بادشاہوں اور نوابوں کے ہاں ملازم ہوا کرتے تھے اور آبدار خانے میں کام کیا کرتے تھے ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
شاید جھاڑو لگانے والوں کو بہشتی یا بہشتن کہتے تھے۔
جھاڑو دینے اور بیت الخلا وغیرہ صاف کرنے والوں کے لئے بھنگی ، مہتر یا حلال خور کے الفاظ مستعمل ہیں ۔ بھنگن ، مہترانی اور حلال خورنی مؤنث کے لئے استعمال ہوتےہیں ۔
بہشتی سقے کو کہتے ہیں ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بندر یا ریچھ وغیرہ کا تماشا دکھانے والوں کو مداری کہا جاتا ہے جبکہ سانپ کا تماشا دکھانے والے جوگی کہلاتے ہیں ۔

اقبال نے اشتراکی انقلاب کے بارے میں کہا تھا :
گیا دورِ سرمایہ داری گیا
تماشا دکھا کر مداری گیا
افسوس کہ جناب کی یہ پیشین گوئی بھی دیگر اور پیشین گوئیوں کی طرح درست ثابت نہ ہوسکی ۔ بقول غالؔب " مداری اور اُس کے جورُو بچے بدستور موجود "
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جھاڑو دینے اور بیت الخلا وغیرہ صاف کرنے والوں کے لئے بھنگی ، مہتر یا حلال خور کے الفاظ مستعمل ہیں ۔ بھنگن ، مہترانی اور حلال خورنی مؤنث کے لئے استعمال ہوتےہیں ۔
بہشتی سقے کو کہتے ہیں ۔
جھاڑو دینے والے کے لئے ایک اور لفظ یادآیا : خاکروب
 

سید عاطف علی

لائبریرین
پراندے کو اردو میں چُٹیا یا چُٹیلا کہتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اب پاکستان میں لفظ پراندہ زیادہ مقبول ہوتا جارہا ہے ۔
میرے خیال ہے کہ چٹیا محض اصلی بالوں کی ہوتی ہے جبکہ پراندے بالوں کی چٹیا لو لمبا کرنے اور اچھی طرح گونتھنے کے لیے رنگین یا سیاہ دھاگوں سے بنے ہوتے ہیں اور جس کے آخر میں آرائشی پھندنے وغیرہ معلق ہوتے ہیں ۔ :) ۔ جیسا کہ تصویر میں تھا ۔
۔ بقول شاعر ۔ کالی تیری گُتھ تے پراندہ تیرا لال نی :LOL:
 

جاسمن

لائبریرین
میرے خیال ہے کہ چٹیا محض اصلی بالوں کی ہوتی ہے جبکہ پراندے بالوں کی چٹیا لو لمبا کرنے اور اچھی طرح گونتھنے کے لیے رنگین یا سیاہ دھاگوں سے بنے ہوتے ہیں اور جس کے آخر میں آرائشی پھندنے وغیرہ معلق ہوتے ہیں ۔ :) ۔ جیسا کہ تصویر میں تھا ۔
۔ بقول شاعر ۔ کالی تیری گُتھ تے پراندہ تیرا لال نی :LOL:

جی میرا بھی یہی خیال ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ چٹیا کر لو۔ چٹیا کرنے کے بعد آخر میں پونی سے یا رب بینڈ کی مدد سے چٹیا کو بند کیا جا سکتا ہے۔ اور پراندہ بھی اس چٹیا میں ڈالا سکتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
پراندہ دھاگے کی تین لڑیوں کو ایک کنارے سے جوڑا ہوتا ہے۔ پرندے چھوٹے بڑے، سادہ اور زری، شیشے، گوٹے، ستاروں اور موتیوں والے چمک دمک والے ہر طرح کے ہو سکتے ہیں۔ بالوں کے سائز کے حساب سے چھوٹے بڑے خریدے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ پہ چمک دمک والے اور عام گھر میں پہننے کے لیے سادہ چلتے ہیں۔ عام طور پہ ان میں دھاگہ کالا ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
اور ربن کپڑے کی پٹی کا ٹکڑا ہوتا ہے۔
 
Top