غامدی صاحب بھی امریکہ منتقل ہو گئے

فہد اشرف

محفلین
ایک غیر متعلقہ سوال ہے کہ۔
مختار مسعود کی کتاب ‘سفر نصیب‘ میں انہوں نے اپنے ایک استاد ‘ڈاکٹر ایل۔ کے۔ حیدر‘ کا ذکر کیا ہے۔
لیکن نیٹ پر مجھے کہیں ان کے متعلق کچھ معلومات نہیں مل سکیں۔
آپ کو کچھ علم ہے ان کے بارے میں؟
پروفیسر ایل کے حیدر شعبۂ معاشیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر شعبہ تھے۔ ان کا ذکر اطہر پرویز کی کتاب علی گڑھ سے علی گڑھ تک میں بھی ہے۔
20191015-192528.jpg


20191015-192546.jpg


20191015-192607.jpg
 

فہیم

لائبریرین
پروفیسر ایل کے حیدر شعبۂ معاشیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر شعبہ تھے۔ ان کا ذکر اطہر پرویز کی کتاب علی گڑھ سے علی گڑھ تک میں بھی ہے۔


20191015-192546.jpg


20191015-192607.jpg

جی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ان کا آخری پیشہ تھا۔ اور ایک لحاظ سے سب سے ہلکا بھی۔ کیونکہ اس سے پہلے وہ انگریز سرکار میں کئی اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔
 

بافقیہ

محفلین
جی علماء کرام اس بات کا جواب دیں کہ کیا قرآن کا ایسا کوئی حکم ہے جس پر ان ادوار میں عمل نہ کیا گیا ہو یا ان کی تشریح نہ کی گئی ہو؟
اپنی علمی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے باوجود کچھ لکھنے کی جسارت کررہاہوں۔ کیونکہ ٹیگ کرنے کے باوجود شریک نہ ہونا علمی خیانت نہ سہی ، لیکن حالات نے اسے معاشرتی اور اجتماعی خیانت ضرور بنا رکھا ہے۔
قرآن میں اکثر احکام بالکل واضح اور صاف ہیں۔ ہاں کچھ احکام پر شروع دور سے علمی اختلاف رہا ، اور بعض نے اس کی تشریح میں بعض ایسے مسائل پیش کئے جو ہر زمانے میں ناقابل قبول رہے۔ لیکن قرآن میں غور و خوض اور اس کے معانی میں غوطہ زنی ہر زمانے میں فاضل اور انقلابی شخصیات کرتی رہیں۔ اور اس کے ناپیدا کنار سمندر سے نئے نئے موتی چن کر لاتی رہیں۔
لیکن کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ قرآن کے کسی حکم ، کسی آیت اور کسی مفہوم کو تشنہ رکھا گیا ہو۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح ایک نازک عمل ہے۔ اور اس کی صلاحیت کم ہی اشخاص میں ہوتی ہے۔ کیونکہ اس میدان میں قدم رکھنے کیلئے کم از کم اٹھارہ علوم و فنون میں مہارت تامہ کی ضرورت ہے۔ لفظ اٹھارہ ہی کافی ہے ۔ پوری بات خاطر خواہ سمجھنے کیلئے۔ ان اٹھارہ علوم کے ساتھ ضروری ہے کہ بالعموم جمہور کا ہمنوا ہو۔ ہم علامہ ابن تیمیہ ،علامہ ابن القیم اور امام غزالی وغیرہ کو بہت سے مسائل میں اختلاف کے باوجود انھیں امام کہتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان حضرات کی تصنیفات امت مسلمہ کا وہ لازوال کرشمہ ہے کہ جس نے تقریبا ہر ایک فن کو ایک نئی ڈگر دی۔ ان کے اختلاف کے ساتھ ان کے پاس ایسے ٹھوس دلائل ہوتے ہیں کہ اچھے اچھوں کے سر چکرانے لگتے ہیں۔
اور جہاں تک حال یا ماضی قریب کی مختلف فیہ شخصیات کا تعلق ہے ۔ ان کے دلائل عوام کو تو بھاری نظر آتے ہیں لیکن ایک عام سی صلاحیت کا عالم بھی بلاجھجک اس پر انگلی رکھ کر نشاندہی کرسکتا ہے۔
اور میرے حقیر خیال میں ’’ جس کو جمہورعلماء غلط سمجھتے ہیں وہ عقیدہ غلط ، وہ فیصلہ غلط، وہ مسئلہ غلط‘‘ ۔ ہاں البتہ اگر کچھ علماء کا خیال ہو کہ ان کا یہ نظریہ غلط ہے ۔ تو وہ میدان کھلا ہے‘‘۔ اس میں کچھ افہام و تفہیم کی کوشش ہوسکتی ہے۔

چھوٹا منھ بڑی بات :-(
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
مجھے نہیں معلوم کہ یہ محمد اظہارالحق صاحب دو ٹکے کے صحافی ہیں یا ان کی قیمت ذرا سی زیادہ ہے لیکن ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ (حفظہا اللہ) کے بارے میں ان کا تبصرہ درست نہیں ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں "صحافیوں" نے صحافت کا معیار اس قدر گرادیا ہے کہ اب خبر اور ذاتی رائے کا فرق تک مٹ کر رہ گیا ہے ۔ بغیر کسی تحقیق اور چھان بین کے جو چاہے لکھ دیا جاتا ہے ۔ قلم کو لاٹھی کی طرح استعمال کیا جارہا ہے ۔
جو کچھ ان صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں لکھا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے ۔ خواتین کی اسلامی تعلیم کے سلسلے میں ڈاکٹر صاحب کی مجددانہ مساعی کے بارے میں تو پوری ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ آپ اور آپ کے رفقاء کی انتھک کوششوں کی وجہ سے مغرب میں بالخصوص اور کئی اسلامی ممالک میں بالعموم خواتین کیلئے اسلامی تعلیم کے متعدد پروگرام جاری ہوئے ہیں اور ان کے مثبت اثرات اگلی کئی دہائیوں میں اسلامی دنیا میں ظاہر ہوں گے ۔ ان کی بیٹی اور داماد کینیڈا کے شہری ہیں اور ٹورونٹو میں الہدٰی انسٹیٹیوٹ چلاتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ اور ان کے شوہر ڈاکٹر ادریس ہر سال تین چار ماہ کے لئے اس انسٹیٹیوٹ میں آکر پڑھاتے ہیں اور بقیہ وقت اسلام آباد اور دنیا کے دیگر شہروں میں درس و تدریس کرتے ہیں ۔ اور جو بات امریکہ کا بارڈر کراس کرنے کے متعلق ہے وہ جھوٹ اور کردار کشی ہے ۔ امریکا میں ایک طبقہ اسلام اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر سے بہت خائف ہے اور ڈاکٹر صاحبہ کی طرح کی کلیدی شخصیات کے لئے کردار کشی اور منفی تشہیر کا ہتھیار اپناتا ہے ۔ انہیں اور ان کے انسٹیٹیوٹ کو بدنام کرنے کی کئی کوششیں کیا جاچکی ہیں ۔ اللہ کریم ڈاکٹر صاحبہ، ان کے رفقاء اور ان کے اداروں کو اپنی امان میں رکھے اور ان کی تعلیمی کوششوں کو بار آور فرمائے ۔ آمین ۔
میرے خیال سے کالم نگار نے اس انداز سے بات کر کے ٹھیک نہیں کیا کہ بنیادی بات ہاشمی اور ان کی اولاد کا مغرب میں رہنا تھی اور وہ حقیقت ہی ہے۔

جہاں تک مجھے علم ہے فرحت ہاشمی کا کینیڈا میں ورک پرمٹ کا دس پندرہ سال پہلے کچھ مسئلہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں کی گئی قانونی چارہ جوئی کے کچھ ریکارڈ اخبارات میں آئے تھے
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرا غامدی صاحب سے اختلاف ہے نہ اتفاق البتہ چند دن قبل ایک سبب سے ان سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی اور اچھی نششست رہی۔ زیادہ تر تو وہ بولنے کی بجائے ہمارے ایک زود گو دوست کو سنتے ہی رہے۔ :)
 

ابن جمال

محفلین
بنیادی طورپر کالم نگار نے محض دوچار افراد کو مغرب میں مقیم دیکھ کر ایک فیصلہ کرلیا،اس کے بالمقابل وہ ہزاروں جید علماء جواپنے وطن میں ہی مقیم ہیں اورمغرب میں مقیم ہونے کی استطاعت کے باوجود اپنے وطن میں ہی دینی خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کی جانب مضمون نگار کی نگاہ نہیں گئی، جب کہ علم عمل ، دین واخلاق ،دیانت وشرافت ،سب میں اپنے ملک میں مقیم رہ کر دینی خدمات انجام دینے والے مغرب میں بسنے والے علماء (جن کا ذکر کیاگیاہے)میلوں آگے ہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرے خیال سے کالم نگار نے اس انداز سے بات کر کے ٹھیک نہیں کیا کہ بنیادی بات ہاشمی اور ان کی اولاد کا مغرب میں رہنا تھی اور وہ حقیقت ہی ہے۔
جہاں تک مجھے علم ہے فرحت ہاشمی کا کینیڈا میں ورک پرمٹ کا دس پندرہ سال پہلے کچھ مسئلہ ہوا تھا۔ اس سلسلے میں کی گئی قانونی چارہ جوئی کے کچھ ریکارڈ اخبارات میں آئے تھے

اس کا پس منظرمیں آپ کو بتادیتا ہوں ۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی اور ان کے شوہر ڈاکٹر ادریس زبیر پہلی دفعہ 2004 میں کینیڈا مدعو کئے گئے تھے ۔ ڈاکٹر صاحبہ کو مسی ساگا کی مقامی کمیونٹی نے لیکچرزدینے کے لئے بلایا تھا ۔الحمدللہ ان کے پروگرام اتنے مقبول ہوئے کہ اگلے سال انہیں پھر بلایا گیا ۔ ان کے پروگرامزکی بدولت پہلی دفعہ مقامی خواتین نے مسجد آنا شروع کیا اور باقاعدہ قرآنی علوم کی تعلیم کا آغاز کیا ۔ اسی سال مقامی کمیونٹی نے الہدیٰ اسلام آباد کی طرز کا ایک انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ۔ چنانچہ ISNA اور مسی ساگا کی ایک مسجد نے ان کو مذہبی ورکر کے طور پر اسپانسر کیا ۔ بدقسمتی سے ہمارے پاکستانی بھائی ہر معاملے میں اپنے روایتی عدم احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ چنا نچہ ان کے کاغذات پوری معلومات کے ساتھ درست طور پر فائل نہیں کئے گئے اور امیگریشن نے تکنیکی بنیادوں پر واپس کردیئے ۔ تصحیح کے بعد دوبارہ فائل کئے گئے تو اس بناء پر واپس کردئے گئے کہ ان کی تنخواہ عام معمول سے بہت زیادہ تجویز کی گئی تھی ۔ ان ساری باتوں کی ایک مذہب بیزار طبقے کی طرف سے بہت تشہیر کی گئی۔ حالانکہ امیگریشن کے یہ اقدامات مذہبی ورکرز اور دیگر مخصوص ویزا پر آنے والوں کے لئے معمو ل کی باتیں ہیں اور روزانہ کے قصے ہیں ۔ قصہ مختصر یہ سارے معاملات کچھ تاخیر کے بعد بحسن و خوبی انجام پاگئے ۔ اور الحمدللہ مسی ساگا میں الہدیٰ انسٹیٹیوٹ اب ایک عرصے سے کامیابی سے چل رہا ہے ۔ یہ تمام باتیں ڈاکٹر صاحبہ کی ذاتی ویب گاہ پر بھی تفصیل کے ساتھ مل جائیں گی ۔ ڈاکٹر صاحبان ٹورونٹو میں نہیں رہتے ۔ اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔ یہاں صرف سال میں چند مہینوں کے لئے کورس پڑھانے آتے ہیں۔ ان دنوں بھی دونوں ڈاکٹر صاحبان یہاں مسی ساگا آئے ہوئے ہیں اور آج صبح ہی ڈاکٹرصاحبہ نے سالانہ گریجویشن کی تقریب کی صدارت کی تھی ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں برکت دے اور ان کے تعلیمی کام کو جاری و ساری رکھے ۔ آمین ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرا غامدی صاحب سے اختلاف ہے نہ اتفاق البتہ چند دن قبل ایک سبب سے ان سے ان کے گھر پر ملاقات ہوئی اور اچھی نششست رہی۔ زیادہ تر تو وہ بولنے کی بجائے ہمارے ایک زود گو دوست کو سنتے ہی رہے۔ :)
فرخ بھائی ، تو گویا غامدی صاحب کی امریکا نقل مکانی کی یہ خبر درست نہیں ؟!
 

جاسم محمد

محفلین
امریکا میں ایک طبقہ اسلام اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر سے بہت خائف ہے
یہ تو فطری سی بات ہے۔ ہر عمل کا ایک رد عمل آتا ہے۔
بظاہر یہاں مغرب میں مقیم تارکین وطنوں کو مقامی اکثریت سے کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ البتہ جب مذہب کے نام پر گندی سیاست یہاں بھی شروع ہو گئی تو مقامی آبادی کی طرف سے ردعمل تو آنا چاہئے تھا۔ اور آیا۔ چونکہ یہ مغربی ممالک سیکولر ہیں اس لئے یہ نہیں چاہتے کہ ان کے وطین کا بھی وہی حال ہو جو مسلم ممالک میں بڑھے ہوئے مذہبی اثر رسوخ کے بعد ہوا ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
فرخ بھائی ، تو گویا غامدی صاحب کی امریکا نقل مکانی کی یہ خبر درست نہیں ؟!
جی درست ہے۔ امریکہ منتقلی سے پہلے ان کے بیٹھے کے گھر پر ان سےملاقات ہوئی تھی۔ البتہ اس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ غامدی صاحب امریکہ منتقل ہو رہے ہیں۔
 
محفل پر عرصہ سے میرا روزانہ خاصا وقت گزرتا ہے۔ میری ذاتی رائے جو ذاتی تجربات کی بنیاد پر مبنی ہے یہ ہے کہ محفل کسی بھی قسم کے مباحثوں کے لیے بوجوہ غیر موزوں ہے چاہے وہ مذہبی ہوں، سیاسی ہوں یا کچھ اور۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ یہاں دوسرے کا موقف جاننے کی نسبت زیادہ زور عام طور پر اپنی بات کو اونچا رکھنے پر ہوتا ہے۔
سو ہمیں تو معاف ہی رکھا جائے۔
نا چیز ابتدا سے اسی فلسفے پر گامزن ہے۔ میرا مسلک دو سو فیصد یہی ہے۔ ہزار زبانیں ہزار باتیں۔۔۔۔ میں جب سے اس محفل میں آیا ہوں تب سے میں نے کسی مذہبی مکالمے میں حصہ نہیں لیا۔ اسی لیے اس لڑی کو دیکھنے کے باوجود حصہ لینے سے محترز ہوں۔
شکریہ عبید بھائی۔
 
اپنی علمی کم مائیگی اور بے بضاعتی کے باوجود کچھ لکھنے کی جسارت کررہاہوں۔ کیونکہ ٹیگ کرنے کے باوجود شریک نہ ہونا علمی خیانت نہ سہی ، لیکن حالات نے اسے معاشرتی اور اجتماعی خیانت ضرور بنا رکھا ہے۔
قرآن میں اکثر احکام بالکل واضح اور صاف ہیں۔ ہاں کچھ احکام پر شروع دور سے علمی اختلاف رہا ، اور بعض نے اس کی تشریح میں بعض ایسے مسائل پیش کئے جو ہر زمانے میں ناقابل قبول رہے۔ لیکن قرآن میں غور و خوض اور اس کے معانی میں غوطہ زنی ہر زمانے میں فاضل اور انقلابی شخصیات کرتی رہیں۔ اور اس کے ناپیدا کنار سمندر سے نئے نئے موتی چن کر لاتی رہیں۔
لیکن کوئی زمانہ ایسا نہیں گزرا کہ قرآن کے کسی حکم ، کسی آیت اور کسی مفہوم کو تشنہ رکھا گیا ہو۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ قرآن کی تفسیر اور حدیث کی تشریح ایک نازک عمل ہے۔ اور اس کی صلاحیت کم ہی اشخاص میں ہوتی ہے۔ کیونکہٓ اس میدان میں قدم رکھنے کیلئے کم از کم اٹھارہ علوم و فنون میں مہارت تامہ کی ضرورت ہے۔ لفظ اٹھارہ ہی کافی ہے ۔ پوری بات خاطر خواہ سمجھنے کیلئے۔ ان اٹھارہ علوم کے ساتھ ضروری ہے کہ بالعموم جمہور کا ہمنوا ہو۔ ہم علامہ ابن تیمیہ ،علامہ ابن القیم اور امام غزالی وغیرہ کو بہت سے مسائل میں اختلاف کے باوجود انھیں امام کہتے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ ان حضرات کی تصنیفات امت مسلمہ کا وہ لازوال کرشمہ ہے کہ جس نے تقریبا ہر ایک فن کو ایک نئی ڈگر دی۔ ان کے اختلاف کے ساتھ ان کے پاس ایسے ٹھوس دلائل ہوتے ہیں کہ اچھے اچھوں کے سر چکرانے لگتے ہیں۔
اور جہاں تک حال یا ماضی قریب کی مختلف فیہ شخصیات کا تعلق ہے ۔ ان کے دلائل عوام کو تو بھاری نظر آتے ہیں لیکن ایک عام سی صلاحیت کا عالم بھی بلاجھجک اس پر انگلی رکھ کر نشاندہی کرسکتا ہے۔
اور میرے حقیر خیال میں ’’ جس کو جمہورعلماء غلط سمجھتے ہیں وہ عقیدہ غلط ، وہ فیصلہ غلط، وہ مسئلہ غلط‘‘ ۔ ہاں البتہ اگر کچھ علماء کا خیال ہو کہ ان کا یہ نظریہ غلط ہے ۔ تو وہ میدان کھلا ہے‘‘۔ اس میں کچھ افہام و تفہیم کی کوشش ہوسکتی ہے۔

چھوٹا منھ بڑی بات :-(

ٓٓٓآپ کے نکات اور اللہ تعالی کا جواب، سورۃ القمر میں چار بار اللہ تعالی کی گواہی۔
54:17 وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ
اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت قبول کرنے والا ہے

10:36 وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لاَ يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا إِنَّ اللّهَ عَلَيمٌ بِمَا يَفْعَلُونَ
ٓ ان میں سے اکثر لوگ صرف گمان (تکے بازی) ٓ کی پیروی کرتے ہیں، بیشک گمان (تکے بازی) حق (سچ) ٓسے معمولی سا بھی بے نیاز نہیں کرسکتا، یقیناً اللہ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں

ٓوالسلام

ٓ
 
Top