زبانِ عذب البیانِ فارسی سے متعلق متفرقات

حسان خان

لائبریرین
زبس سہوش نشان نتوان نہادن
یہ تو مجھ کو ہنوز سمجھ نہ آیا کہ نظیری نے یہاں «نشان نهادن» (نشان/نشانی رکھنا) کس مفہوم میں استعمال کیا ہے، لیکن مجھے استائنگاس کی فرہنگِ فارسی میں اِس فعلِ مُرکّب کا معنی 'کسی عورت کو اِک انگُشتری دے کر ازدواج کے لیے نامزد کرنا یا ازدواج کرنا' نظر آیا ہے۔ لیکن بہر حال، یہ تو یقینی ہے کہ نظیری نے موردِ بحث بیت میں «نشان نھادن» اِن معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے۔ :)
 

حسان خان

لائبریرین
قلم درکش به دیوانِ نظیری
زبس سہوش نشان نتوان نہادن

دوسرے مصرع کا لفظی ترجمہ کیا ہوگا؟

حسان خان محمد وارث اریب آغا
اگر «نشان نهادن» کو «نشان گُذاشتن» (نشان/نشانی/علامت چھوڑنا) کے مفہوم میں تعبیر کیا جائے تو بیت کا یہ معنی نکالا جا سکتا ہے: نظیری کے دیوان پر خطِ بُطلان کھینچ دو، کیونکہ جو چیز اُس کی خطا و غلطی ہے، اُس کو آئندہ زمانوں کے لیے بطورِ نشانیِ نظیری نہیں چھوڑا جا سکتا۔
لیکن یہ کوششِ تفسیر بھی محض ایک حَدْس (اندازہ) و ظَنّ سے بیش نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
چوری
ماوراءالنہری فارسی میں چند ایک جگہوں پر «کنیز، غُلام عورت» کے معنی میں «چوری» (çörî/чӯрӣ) استعمال ہوتا نظر آیا ہے۔ یہ ایک علاقائی تُرکی الاصل لفظ ہے کیونکہ یہ اُزبَکی فرہنگوں اور انٹرنیٹی اُزبَکی مُتون میں بھی نظر آیا ہے، اور لغت‌نامۂ دہخدا میں 'چوری' کے ذیل میں فرہنگِ نظام کے حوالے سے درج ہے کہ: "در تُرکی به معنیِ کنیزِ باکره و دُخترِ خانه‌زاد است"۔ اگرچہ ایرانی فارسی میں شاید ہی کبھی استعمال ہوا ہو۔
«چوری» کا حاصلِ مصدر «چوریگی» (کنیزی) ہے۔

اِس کا استعمال اوّلین بار میرزا علی‌اکبر 'صابر' کے ایک طنزیہ تُرکی مصرعے کے منظوم تاجکستانی فارسی ترجمے میں دیکھا تھا:
"گو، زن چی معنا می‌دِهد؟ -- چوری، کنیز و جاریه!"

انٹرنیٹ سے یہ ایک مثال مِلی ہے:
"در این خانه هیچ کس مرا گوش نمی‌کند، من قدری ندارم، یک چوری هستم و خلاص!"

ایک علاقائی لفظ ہونے کے باعث اِس کا استعمال ادبی ماوراءالنہری فارسی میں بھی بِسیار کم ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اُزبکی میں «یخْشی کۉرماق» (خوب دیکھنا‌) پسند کرنے، دوست رکھنے، محبت کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ ماوراءالنہری فارسی کے جو گُفتاری زبانچے اُزبکی سے بِسیار زیاد مُتاثر ہیں، اُن میں بھی «نغْز دیدن» (خوب دیکھنا) اِسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اُن زبانچوں میں «میں تم سے محبت کرتا ہوں/میں تم کو پسند کرتا ہوں» کے لیے «من تُویه نغْز می‌بینم» (میں تم کو خوب دیکھتا ہوں) کہا جائے گا جو اُزبکی کے «مېن سېنی یخْشی کۉره‌من» کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔ ادبی ماوراءالنہری فارسی میں اِس عِبارت کا استعمال نادر ہے۔
ماوراءالنہر میں شُمالی تاجکستان اور اُزبکستان کے فارسی زبانچے سب سے زیادہ اُزبکی و تُرکی سے مُتاثر ہیں۔ سمرقند و بُخارا و خُجند و وادیِ فرغانہ کے گُفتاری زبانچے اِسی زُمرے میں آتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
اُزبکی میں «یخْشی کۉرماق» (خوب دیکھنا‌) پسند کرنے، دوست رکھنے، محبت کرنے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ ماوراءالنہری فارسی کے جو گُفتاری زبانچے اُزبکی سے بِسیار زیاد مُتاثر ہیں، اُن میں بھی «نغْز دیدن» (خوب دیکھنا) اِسی معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اُن زبانچوں میں «میں تم سے محبت کرتا ہوں/میں تم کو پسند کرتا ہوں» کے لیے «من تُویه نغْز می‌بینم» (میں تم کو خوب دیکھتا ہوں) کہا جائے گا جو اُزبکی کے «مېن سېنی یخْشی کۉره‌من» کا لفظ بہ لفظ ترجمہ ہے۔ ادبی ماوراءالنہری فارسی میں اِس عِبارت کا استعمال نادر ہے۔
ماوراءالنہر میں شُمالی تاجکستان اور اُزبکستان کے فارسی زبانچے سب سے زیادہ اُزبکی و تُرکی سے مُتاثر ہیں۔ سمرقند و بُخارا و خُجند و وادیِ فرغانہ کے گُفتاری زبانچے اِسی زُمرے میں آتے ہیں۔
پس نوِشت:
جس طرح «نغْز دیدن» محبّت کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اُسی طرح اِس کی ضِد و نقیض «بد دیدن» نفرت کرنے کے معنی میں بروئے کار لائی جاتی ہے۔ دونوں کے استعمال کی ایک ادبی مثال دیکھیے:
"گُل‌چهر بهرام را بد می‌بیند. امّا به بهروز مَیل و رغبت و محبّت دارد. بهروز هم گُل‌چهر را نغْز می‌بیند. ولی عشقش را اظهار نمی‌کند.”
ترجمہ: گُل‌چہر بہرام سے نفرت کرتی ہے۔ لیکن بہروز کی جانب مَیل و رغبت و محبّت رکھتی ہے۔ بہروز بھی گُل‌چہر سے محبّت کرتا ہے۔ لیکن اپنے عشق کا اظہار نہیں کرتا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مُحاورہ اُزبَکی الاصل نہ ہو بلکہ تاجیکی الاصل ہو اور ماوراءالنہری فارسی سے اُزبَکی میں گیا ہو۔ لیکن اُزبکی میں اِس کا استعمال زیادہ ہے اور ادبی اُزبَکی میں بھی «یخْشی کۉرماق» کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ یا یہ امکان بھی ہے کہ ہر دو زبان میں یہ محاورہ بہ یک وقت استعمال ہونا شروع ہوا ہو۔ گُذشتہ صدیوں میں ماوراءالنہری شہروں کے بیشتر مردُم دوزبانی تھے، اِس لیے یہ دونوں زبانیں مُتَقابلاً ایک دوسرے پر اثر ڈالتی رہی ہیں۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
تپّی
ماوراءالنہری فارسی میں چارپایوں کے خُشک کردہ گوبر کو، جو جلانے کے لیے کام میں لایا جاتا ہے، «تپّی» کہتے ہیں۔ ایرانی نوِشتاری فارسی یا تہرانی گُفتاری فارسی میں یہ لفظ رائج نہیں ہے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ ایرانی خُراسان کے علاقائی لہجوں میں یہ لفظ گوبر کے معنی میں مُستَعمل ہے۔ افغانستانی فارسی میں بھی اِس لفظ کا استعمال نظر آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
فارسی میں «جیسے ہی» یا «-تے ہی» کے مفہوم کے لیے «به محضِ» استعمال ہوتا ہے۔

تاجکستانی اخباری زبان سے ایک مثال:
وَی به محضِ وارد شدن به کِشوَر، از سُویِ مقامات بازداشت شد.
وہ جیسے ہی مُلک میں داخل ہوا، حُکّام کی طرف سے گرفتار کر لیا گیا۔
(وہ مُلک میں داخل ہوتے ہی حُکّام کی طرف سے گرفتار کر لیا گیا۔)

"مردُم درک نمودند، که اساساً سیاست‌مداران به محضِ به قدرت رسیدن تنها به فکرِ خودشان می‌افتند."
مردُم نے درک کر لیا کہ بُنیادی طور پر سیاست دانان اقتدار میں آتے ہی (یا جیسے ہی اقتدار میں آتے ہیں) فقط اپنی فکر کرنے لگتے ہیں۔

"به محضِ به قدرت رسیدن، فلسطین را به رسمیت خواهیم شناخت."
ہم اقتدار تک پہنچتے ہی (یا ہم جیسے ہی اقتدار تک پہنچے) فلسطین کو رسمی طور پر قبول کر لیں گے۔

نواز شریف و دُخترش به محضِ بازگشت دستگیر خواهند شد.
نواز شریف اور اُن کی دُختر واپس آتے ہی گرفتار ہو جائیں گے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حسان خان بھائی ایشان کا معنی کیا ہوگا؟
'اِیشان'، 'او' کی جمع ہے اور 'آن‌ها' کا مُترادف ہے، لیکن 'آن‌ها' کے برخلاف، 'ایشان' غیر جاندار و غیر عاقل چیزوں کے لیے استعمال نہیں ہوتا۔ گاہے یہ ضمیر احتراماً شخصِ سومِ مُفرَد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
جہاں تک میرا گُمان ہے، مُعاصر فارسی میں شخصِ سومِ جمع کے لیے 'آن‌ها' ہی زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ 'ایشان' زیادہ تر شخصِ سومِ مُفرَد کے لیے تعظیماً بروئے کار لایا جاتا ہے۔
ماوراءالنہر میں 'ایشان' (ماوراءالنہری تلفُّظ: eshon) مُمتاز دینی مولویوں اور صوفی شُیوخ کو بھی کہتے ہیں، اور اُن کے لقب کے طور پر بھی استعمال ہوتا آیا ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
اِمروز، سُتون نویس سعد اللہ جان برق، جو پاکستانی پشتون ہیں، نے اپنے اخباری سُتون «پشتون اور افغان» میں افغانستان میں زبانِ فارسی کی حیثیت کے بارے میں یہ لِکھا ہے:

"احمد شاہ ابدالی نے جب موجودہ ’’افغانستان ‘‘ قائم کیا تو اس وقت سے لے کر آج تک وہاں کے سرکار، دربار، تعلیم اور درسگاہوں مجلسی زندگی، دفتروں میں اور کاروبار کی زبان ’’ فارسی ‘‘ ہی رہی ہے جو اس آٹھ سو یا ہزار سالہ دور کا تسلسل ہے جو محمود غزنوی سے شروع ہو کر انگریزوں کے زمانے تک رائج رہا ہے کہ سرکاری دفتری اور درسی زبان فارسی تھی۔ انگریزی دور میں بھی فارسی کا اردو پشتو وغیرہ پر غلبہ رہا یہاں تک کہ سکھ حکومت میں سارا کام فارسی میں ہوتا تھا اور اس ’’ فارسی ‘‘ بالادستی کا نتیجہ پشتو کی ایک کہاوت ہے کہ ’’ بھرا پیٹ فارسی بولتا ہے ‘‘ جو اب بھی رائج ہے مطلب یہ کہ اشرافیہ کی زبان فارسی تھی اور یہ گرفت اتنی سخت تھی کہ احمد شاہ ابدالی جو پشتو کا صاحب دیوان شاعر ہے وہ بھی افغانستان اور اردگرد کے علاقوں میں بولی جانے والی زبان پشتو کو سرکاری، درباری یا درسی زبان نہیں بنا سکا، یہی وجہ ہے بعد میں آنے والے ان حکمرانوں کے ساتھ بھی رہی جو نسلاً پشتون لیکن لساناً فارسی وان تھے اور ان سب کے گھروں میں فارسی کا راج ہوتا تھا، نتیجے میں بال بچے بھی فارسی بولتے تھے کیونکہ فارسی بولنے والوں میں ایک احساس برتری بہت زیادہ ہوتا ہے اور پشتو کو کمی کمین لوگوں کی زبان یا دوسرے الفاظ میں جاہلوں کی زبان سمجھا جاتا ہے۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ افغان مہاجر جب یہاں آئے ان میں ایک فیصد مہاجر بھی فارسی وان نہیں تھے لیکن پندرہ بیس سالوں میں انھوں نے پشتو کا ایک لفظ نہ بولا نہ سیکھا البتہ پورے پشاور شہر کے دکانداروں کو فارسی وان بنا دیا اور ان تمام لوگوں کو بھی جن کا ان سے واسطہ ہوتا تھا۔"
 

حسان خان

لائبریرین
در رہِ ویرانِ دل، اقلیمِ دانش ساختن
در رہِ سیلِ قضا، بنیاد و بنیاں داشتن


پروین اعتصامی

ویران دل کی اُجاڑ راہوں میں، عقل و دانش و علم و ہنر کی سلطنت بنا لینا، اور تقدیر کے تُند و تیز سیلاب کے راستوں میں اساس و بنیاد رکھنا۔
جو دوستان فارسی زبان نہیں جانتے، اور اردو ترجمے کی مدد سے بیت کا مفہوم سمجھتے ہیں، اُن کی اطلاع کے لیے ایک چیز بتانا چاہتا ہوں: اردو میں مصدر (فعل کی جڑ + نا) مصدری معانی کے علاوہ امرِ مُستقبل و تأکیدی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً، یہ دو جملے دیکھیے:
۱) یہ کام کرنا ہماری راحت کا باعث بنے گا۔
۲) تم یہ کام ضرور کرنا!
جُملۂ اوّل میں «کرنا» مصدری معنی میں استعمال ہوا ہے، جبکہ جُملۂ دوم میں کسی شخص کو امْر یا نصیحت کی جا رہی ہے کہ وہ آئندہ زمانے میں یہ کام کرے۔

لیکن، فارسی میں مصدر صرف جُملۂ اوّل کی طرح مصدری معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا «اقلیمِ دانش ساختن» کا اردو ترجمہ جو «عقل و دانش و علم و ہنر کی سلطنت بنا لینا» کیا گیا ہے، اُس سے یہ چیز ذہن میں نہیں آنی چاہیے کہ شاعرہ قاری کو ایسا کرنے کا حُکم یا نصیحت کر رہی ہے، بلکہ شاعرہ کسی غیر مُعیّن وقت میں اِس عمل کا ہونا بتا رہی ہے۔
 

فہد اشرف

محفلین
جو دوستان فارسی زبان نہیں جانتے، اور اردو ترجمے کی مدد سے بیت کا مفہوم سمجھتے ہیں، اُن کی اطلاع کے لیے ایک چیز بتانا چاہتا ہوں: اردو میں مصدر (فعل کی جڑ + نا) مصدری معانی کے علاوہ امرِ مُستقبل و تأکیدی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً، یہ دو جملے دیکھیے:
۱) یہ کام کرنا ہماری راحت کا باعث بنے گا۔
۲) تم یہ کام ضرور کرنا!
جُملۂ اوّل میں «کرنا» مصدری معنی میں استعمال ہوا ہے، جبکہ جُملۂ دوم میں کسی شخص کو امْر یا نصیحت کی جا رہی ہے کہ وہ آئندہ زمانے میں یہ کام کرے۔

لیکن، فارسی میں مصدر صرف جُملۂ اوّل کی طرح مصدری معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہٰذا «اقلیمِ دانش ساختن» کا اردو ترجمہ جو «عقل و دانش و علم و ہنر کی سلطنت بنا لینا» کیا گیا ہے، اُس سے یہ چیز ذہن میں نہیں آنی چاہیے کہ شاعرہ قاری کو ایسا کرنے کا حُکم یا نصیحت کر رہی ہے، بلکہ شاعرہ کسی غیر مُعیّن وقت میں اِس عمل کا ہونا بتا رہی ہے۔
پھر تو مفہوم مکمل نہیں ہو رہا (یا کم از کم میری فہم میں نہیں آ رہا ہے)۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی قطعہ کا ایک شعر پڑھ لیا ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
پھر تو مفہوم مکمل نہیں ہو رہا (یا کم از کم میری فہم میں نہیں آ رہا ہے)۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی قطعہ کا ایک شعر پڑھ لیا ہو۔
آپ نے دُرُست فہم کیا۔ اگر بیت کو نظم سے نثر میں بھی مُنتقل کر دیا جائے تب بھی مفہوم نامکُمّل ہے۔ در اصل اِس بیت کو ایک مُسلسَل (سِلسِلہ دار، باہم پیوستہ) قِطعے کے درمیان سے لیا گیا ہے۔۔ قِطعے کا مصرعِ اوّل یہ ہے:
ای خوشا سودایِ دل از دیده پنهان داشتن
اے خوشا دل کا عشق و جُنون نظر سے پنہاں رکھنا!
(یعنی دل کے عشق و جُنون کو چشم و نظر سے پنہاں رکھنا کس قدر خوب ہے!)

اور پھر قِطعے کے باقی مِصرعے بھی اِسی طرح مصدر کے ساتھ کہے گئے ہیں، اور وہ اِسی مصرعِ اوّل کے ساتھ معنائاً مُنسلِک ہیں۔ اِس مصرعِ اوّل کو ذہن میں رکھے بغیر قِطعے کے دیگر مصرعوں کا مفہوم بھی کُل طور پر واضح نہیں پو پائے گا، اِلّا یہ کہ ترجمے میں قَوسین کی مدد سے مفہوم کو مُکمّل کر دیا جائے۔

جس بیت سے اِس گُفتگو کا آغاز ہوا ہے، اُس میں شاعرہ یہ کہنا چاہتی ہے کہ: دل کی راہِ ویراں میں علم و دانش کی اِقلیم بنانا اور سیلابِ قضا کی راہ میں بُنیاد رکھنا اِک بِسیار خوب کام ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
در رہِ ویرانِ دل، اقلیمِ دانش ساختن
یہ بھی علم میں آیا ہے کہ اِس مصرعے کا درست متن یہ ہے:
در دِهِ ویرانِ دل، اِقلیمِ دانش ساختن
یعنی: دل کے ویران قریے میں علم و دانش کی اِقلیم بنانا [کس قدر خوب ہے!]

گنجور میں کتابت کی غلطی کے باعث «ده» کو «ره» لکھ دیا گیا ہے۔
 
زندگانی قوت پیداستی
اصل او از ذوق استیلاستی
(اقبالِ لاهوری)
اس شعر میں اقبالِ لاهوری نے است پر یائے تمنا لگایا. کہنہ شعراء کی ابیات میں اس کی نظیر موجود ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
زندگانی قوت پیداستی
اصل او از ذوق استیلاستی
(اقبالِ لاهوری)
اس شعر میں اقبالِ لاهوری نے است پر یائے تمنا لگایا. کہنہ شعراء کی ابیات میں اس کی نظیر موجود ہے؟
بَلے۔ یہ کُہنہ شعری زبان ہی کا اثر ہے۔
از دلِ من گر نه هر دم آتشی برخاستی
زآبِ چشمِ من جهانی سر‌ به سر‌ دریاستی

(شاه نصرت‌الدین کبودجامه استرآبادی)
(میرے فرطِ گریہ کا یہ عالم تھا کہ) اگر (خشک کرنے کے لیے) میرے دل سے ہر دم کوئی آتش بلند نہ ہوتی رہتی تو میری چشم کے آب سے پوری دنیا دریا بن چکی ہوتی
۔
 

حسان خان

لائبریرین
زندگانی قوت پیداستی
اصل او از ذوق استیلاستی
(اقبالِ لاهوری)
اس شعر میں اقبالِ لاهوری نے است پر یائے تمنا لگایا. کہنہ شعراء کی ابیات میں اس کی نظیر موجود ہے؟
لُغت نامۂ دہخدا میں مثالوں کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ کیسے یائے شرطی و جزائی «است» کے ساتھ بھی مُلحق ہوتا رہا ہے، لیکن بعض مُتأخر شُعَرا نے اُستادانِ قدیم کے قاعدے کی مراعات نہیں کی، اور اِس یا کو وہ غیر شرطی جُملوں میں بھی «است» کے ساتھ لائے ہیں۔
 
Top