سید عاطف علی

لائبریرین
حال من اکنوں بروں از گفتن است
ایں چہ می گویم ، نہ احوال من است

میرا حال اب گفتار (کی حد )سے پرے ہو گیا ہے۔
(سواب ) میں جو کہہ رہا ہوں یہ میرا حال نہیں ہے۔
مولانا ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دلہا سیاہ گشتہ و خونہا سپید شد
ایں است در زمانۂ ما رنگِ روزگار


واقف لاہوری

دل سیاہ ہو چکے ہیں اور خون کا رنگ سفید ہو گیا ہے، ہمارے وقت میں زمانے کا رنگ کچھ ایسا ہی ہے۔
 

بے الف اذان

محفلین
؎
گر مہر خویش بر کنم از روئے دلبرم
آں مہر برکہ افگنم آں دل کجا برم

ترجمہ:
اگر میں اپنی محبت کو اپنے دلبر کی جانب سے ہٹا لوں تو اس محبت کو کس سے لگاؤں اور اس دل کو کہاں لے جاؤں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نفس خود قربان نما در راه او
نی کہ خون جاری کنی در آب جو

. مولانا
اپنے نفس کواس ( خدا) کی راہ میں قربان کرو۔(کہ یہ اصل قربانی ہے)۔
یہ (قربانی ) نہیں کہ خون کو نہروں میں بہا دو۔
 

کاظمی بابا

محفلین
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الہ را

جب میں اپنے مسلمان ہونے کا کہتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں
کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ غیر اللہ کی نفی سے کس قدر مشکلات ہوں گی ۔ ۔ ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از شاہ شجاع

در مجلسِ دہر ساز مستی پست است
نے چنگ بقانون، نہ دف بر دست است
رنداں ہمہ ترکِ مے پرستی کردند
جز محتسبِ شہر کہ بے مے مست است


دنیا کی محفل میں سازِ مستی پست ہے، نہ چنگ، قانون کے ساتھ ہے (دونوں ساز ہیں) اور نہ ہی ہاتھوں میں دف ہے، تمام کے تمام رندوں نے مے پرستی ترک کر دی ہے، سوائے محتسبِ شہر کے، کہ وہ بغیر مے کے ہی مست ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
ترکِ عُجب و کِبر کن تا قبلهٔ عالم شوی
سیرتِ ابلیس را بگذار تا آدم شوی
(صائب تبریزی)

غرور و تکبّر کو ترک کر دو تاکہ قبلۂ عالَم بن جاؤ؛ ابلیس کی روِش کو چھوڑ دو تاکہ آدم (یعنی انسان) بن جاؤ۔

زمین ز جلوهٔ قُربانیان گلستان است
بِریز خونِ صُراحی که عیدِ قربان است
(صائب تبریزی)

زمین ذبیحوں کے جلوے سے گلستان [بنی ہوئی] ہے؛ صراحی کا خون بہاؤ کہ [اِمروز] عیدِ قربان ہے۔
× اِمروز = آج


عیدِ قربان مبارک!
 
آخری تدوین:

طارق حیات

محفلین
اے از کرم نریختہ خونِ سبیل را
و زلطف عید کردہ غزائے خلیل را

اے وہ ہستی کہ جس نے (اپنے) کرم سے مباح خون نہیں بہایا اور (اپنے) لطف و کرم سے (حضرت ابراہیم) خلیل (اللہ) کے ماتم کو عید بنادیا۔

نظیری نیشاپوری
 

حسان خان

لائبریرین
و زلطف عید کردہ غزائے خلیل را
تصحیح: وز لطف عید کرده عزای خلیل را

اسی حمدیہ غزل سے ایک اور شعر:
قایل به عَجز گشت ثنای تو هر که گفت
در هستیِ تو ره نبوَد قال و قیل را

(نظیری نیشابوری)
جس نے بھی تیری ثنا کہنے کی کوشش کی وہ اپنے عجز کا قائل ہو گیا؛ تیری ہستی تک قال و قیل کا گذر ممکن نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
عشقِ تو در دیارِ وجودم بسی بگشت
خالی ز مهرِ رویِ تو یک ذره جا ندید

(سید عمادالدین نسیمی)
تمہارا عشق میرے وجود کے دیار میں بہت گھوما پھرا (لیکن) اُس نے (وہاں) تمہارے چہرے کی محبت سے خالی ایک ذرّہ برابر بھی جگہ نہ دیکھی۔

ای دل جفا نه عادتِ یارِ من است و بس
بنمای عاشقی که ز دلبر جفا ندید

(سید عمادالدین نسیمی)
اے دل! جفا صرف میرے یار کی عادت نہیں ہے؛ کوئی ایسا عاشق دکھاؤ جس نے دلبر سے جفا نہ دیکھی ہو۔
 

حسان خان

لائبریرین
صنعتِ لفّ و نشرِ مرتّب کی ایک اعلیٰ مثال:
به روزِ نبرد آن یلِ ارجمند
به شمشیر و خنجر، به گرز و کمند
برید و درید و شکست و ببست
یلان را سر و سینه و پا و دست

(حکیم ابوالقاسم فردوسی طوسی)
جنگ کے روز اُس بلند مرتبہ پہلوان (یعنی رستم) نے تیغ سے پہلوانوں کا سر کاٹا، خنجر سے اُن کا سینہ شگافتہ کیا، گُرز سے اُن کے پاؤں توڑے، اور کمند سے اُن کے ہاتھ باندھے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چون دلت با من نباشد، هم‌نشینی سود نیست
گرچه با من می‌نشینی، چون چنینی، سود نیست

(مولانا جلال‌الدین بلخی رومی)

جب تمہارا دل میرے ہمراہ نہ ہو تو ہم نشینی کا فائدہ نہیں ہے؛ اگرچہ تم میرے ساتھ بیٹھتے ہو، لیکن چونکہ ایسے [غائب دل] ہو، [لہٰذا اِس کا کوئی] فائدہ نہیں ہے۔


اگر تو یار نداری چرا طلب نکنی
وگر به یار رسیدی چرا طرب نکنی

(مولانا جلال‌الدین بلخی رومی)
اگر تمہارے پاس یار نہیں ہے تو طلب کیوں نہیں کرتے؟ اور اگر یار تک پہنچ چکے ہو تو طرب (یعنی شادمانی) کیوں نہیں کرتے؟

(رباعی)
عشق آمد و شد چو خونم اندر رگ و پوست
تا کرد مرا تهی و پر کرد ز دوست
اجزای وجودِ من همه دوست گرفت
نامی‌ست ز من بر من و باقی همه اوست

(مولانا جلال‌الدین بلخی رومی)
عشق آیا اور (میری) رگ و پوست میں (جاری) میرے خون کی طرح ہو گیا؛ تا آنکہ اُس نے مجھے خالی کر کے محبوب سے پُر کر دیا؛ میرے وجود کے اجزا سب کے سب محبوب نے لے لیے؛ (اب) مجھ پر (صرف) ایک میرا نام بچا ہے اور باقی سب کچھ وہ (محبوب) ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
در بُود و نبودِ من، اندیشہ گماں ہا داشت
از عشق ہویدا شد ایں نکتہ کہ ہستم من


علامہ محمد اقبال

میرے ہونے اور نہ ہونے کے بارے میں عقل بہت سے اور طرح طرح کے گمان رکھتی تھی، لیکن یہ نکتہ عشق سے ظاہر ہوا کہ میں موجود ہوں۔
 

حسان خان

لائبریرین
از مزاجِ اهلِ عالم مردمی کم جوی از آنک
هرگز از کاشانهٔ کرکس همایی برنخاست

(خاقانی شروانی)
اہلِ دنیا کی فطرت میں انسانیت کم تلاش کرو کیونکہ گِدھ کے آشیانے سے ہرگز کوئی ہُما ظاہر نہیں ہوا ہے۔

کشتیِ خود با خدا بسپار کز طوفانِ یاس
عالمی شد غرق و دستِ ناخدایی برنخاست

(بیدل دهلوی)
اپنی کشتی خدا کے سپرد کر دو کیونکہ مایوسی و ناامیدی کے طوفان سے ایک عالَم غرق ہو گیا لیکن کسی ناخدا (یعنی ملّاح و کشتی بان) کا دستِ مدد بلند نہیں ہوا۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
هر چه هست از قامتِ ناسازِ بی‌اندامِ ماست
ورنه تشریفِ تو بر بالای کس کوتاه نیست

(حافظ شیرازی)
جو بھی (عیب و اشکال) ہے وہ ہماری ہی نامتناسب اور ناموزوں قامت کے سبب ہے ورنہ جو خلعت تم نے بخشی ہے وہ کسی شخص کے قد و قامت پر کوتاہ نہیں ہے۔

===========

سوال: حافظ کا ایک بہت مشہور شعر ہے:
ہر چہ ہست از قامتِ ناساز و بے ہنگامِ ماست
ورنہ تشریفِ تو بر بالائے کس کوتاہ نیست
لفظ 'تشریف' اردو میں جس محل پر استعمال کیا جاتا ہے اس سے ہر شخص واقف ہے مثلاً کوئی معزّز شخص کہیں آتا جاتا ہے تو تشریف لانا یا تشریف لے جانا کہتے ہیں۔ لیکن حافظ کے اس شعر میں لفظ تشریف کا استعمال اور اس کا تعلق 'بالائے کس' سے سمجھ میں نہیں آیا۔ اگر اس کے معنی محض اعزاز بخشنے کے ہیں تو بھی وہ جسمِ انسانی سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔
(سیّد بدرالحسن، پشاور)

جواب: اردو میں اس کا استعمال بے شک اسی مفہوم میں ہوتا ہے جو آپ نے ظاہر کیا اور یہ بھی بالکل درست ہے کہ تشریف کے معنی اعزاز بخشنے کے ہیں جس کا تعلق جسمِ انسانی سے نہیں، لیکن فارسی میں یہ لفظ 'پارچۂ خلعت' کے مفہوم میں بھی مستعمل ہے کیونکہ سلاطین و امراء کی طرف سے جب کسی کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا تھا تو بہ سلسلۂ انعام و اکرام جو خلعت عطا ہوتا تھا اس میں عبا یا قبا کا شمول بھی ضروری تھا جس کا تعلق جسمِ انسانی سے ظاہر ہے۔
حافظ کے اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ 'اگر تیری نوازشِ کرم سے ہم محروم ہیں تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ ہم اس کے اہل نہیں، ورنہ یوں تو ہر شخص اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔'
بالکل اسی مفہوم کو مشہور نعت گو شہیدی نے نہایت مؤثر انداز میں اس طرح ظاہر کیا ہے:
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
(نیاز فتح پوری)

[ماخذ: نگار پاکستان، نومبر ۱۹۶۲ء]
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ز شاہراہِ محبت نشاں چہ می پُرسی
اگر قدم نہی از صدق رہنموں کم نیست


ابوالفیض فیضی دکنی

شاہراہِ محبت کی نشانیاں کیا پوچھتا ہے؟ اگر تُو سچے دل سے اِس پر قدم رکھے گا تو راہنمائی کرنے والے کم نہیں ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
به مهرِ علی گرچه محکم پیَم
ز عشقِ عمر نیز خالی نیَم

(نظامی گنجوی)
اگرچہ میں علی کی محبت میں ثابت قدم ہوں، (لیکن) میں عمر کے عشق سے بھی خالی نہیں ہوں۔

از دلِ من گر نه هر دم آتشی برخاستی
زآبِ چشمِ من جهانی سر‌ به سر‌ دریاستی

(شاه نصرت‌الدین کبودجامه استرآبادی)
(میرے فرطِ گریہ کا یہ عالم تھا کہ) اگر (خشک کرنے کے لیے) میرے دل سے ہر دم کوئی آتش بلند نہ ہوتی رہتی تو میری چشم کے آب سے پوری دنیا دریا بن چکی ہوتی۔
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
من تشنہ و سیراب زصہبائے خودم
من کعبہ ء خویشم و کلیسائے خودم
با غیر خودم ہیچ سروکارے نیست
من عاشق و معشوق خودآرائے خودم

نواب شیفتہ۔
میں اپنے آپ کی مے سے سرشاراور تشنہ ہوں
میں خودہی کا کعبہ ہوں اور خود ہی کا کلیسا ہوں
مجھے خود اپنے علاوہ کسی اور سے بھلا کیا لینا دینا
میں خود اپنی خود آرائی کا عاشق اورمعشوق ہوں
 

محمد وارث

لائبریرین
کوزۂ چشمِ حریصاں پُر نہ شد
تا صدف قانع نہ شد، پُر دُر نہ شد


مولانا رُومی - (مثنوی)

لالچی آدمیوں کی آنکھوں کا پیالہ کبھی بھی نہیں بھرا، جب تک سیپ نے (بارش کے صرف ایک ہی قطرے پر) قناعت نہ کی، وہ موتی سے نہ بھرا۔
 

حسان خان

لائبریرین
بر درِ مسجد گذاری کن که پیشِ قامتت
در نماز آیند آنهایی که قامت می‌کنند

(اوحدی مراغه‌ای)
ذرا مسجد کے دروازے کے پاس سے گذرو تاکہ وہ افراد جو قد قامت الصلاۃ کہہ رہے ہیں، تمہاری قامت کے سامنے تعظیم میں نماز بجا لائیں۔

ای ساقی از آن پیش که مستم کنی از مَی
من خود ز نظر در قد و بالای تو مستم

(سعدی شیرازی)
اے ساقی! اِس سے قبل کہ تم مجھے شراب سے مست کرو، میں خود ہی تمہارے قد و قامت کی رویت سے مست ہوں۔
 
Top