آں راز کہ در سینہ نہانست نہ وعظ است
بر دار تواں گفت و بمنبر نتواں گفت

(غالب دہلوی)
وہ راز جو سینے میں پوشیدہ ہے ، راز نہیں ہے۔ وہ بر سرِ دار تو کہا جاسکتا ہے ،مگر بر سرِ منبر نہیں کہا جاسکتا۔
 
دل برد و حق آنست کہ دلبر نتواں گفت
بیداد تواں دید و ستمگر نتواں دید
(غالب دہلوی)
گو وہ میرا دل لے گیا لیکن حق یہ ہے کہ اسے دلبر نہیں کہا جاسکتا۔اس کا ظلم دیکھا جاسکتا ہے مگر اُس کو ستمگر نہیں کہا جاسکتا۔
 
مرزا غالب کی اسی غزل کے ذیل میں یہ اشعار ترجمہ فرمادیجیے۔

در رزمگہش ناچخ و خنجر نتواں برد
در بزمگہش بادہ و ساغر نتواں گفت
از حوصلہ یاری مطلب صاعقہ تیز است
پروانہ شو ایں جا ز سمندر نتواں گفت۔

شکریہ۔
 

حسان خان

لائبریرین
مرزا غالب کی اسی غزل کے ذیل میں یہ اشعار ترجمہ فرمادیجیے۔

در رزمگہش ناچخ و خنجر نتواں برد
در بزمگہش بادہ و ساغر نتواں گفت
از حوصلہ یاری مطلب صاعقہ تیز است
پروانہ شو ایں جا ز سمندر نتواں گفت۔

شکریہ۔

در رزم‌گهش ناچخ و خنجر نتوان برد
در بزم‌گهش باده و ساغر نتوان گفت

لغت: "ناچخ" = تبر، چھوٹی کہلاڑی، جسے تبر زین بھی کہتے تھے کیونکہ اسے گھوڑے کی زین کے ساتھ لٹکا کے رکھتے تھے۔ آلاتِ جنگ میں سے ایک۔
اُس کی رزم گاہ میں (جہاں حسن، عشق سے بر سرِ پیکار ہوتا ہے) تبر اور خنجر سے کام نہیں چلتا، کیونکہ وہاں تو غمزہ و عشوہ کے وار ہوتے ہیں۔ اُس کی بزم گہ میں (جہاں محبت کی گرم جوشیوں کا نشہ ہوتا ہے) شراب اور جام کا نام نہیں لیا جاتا (وہاں تو جام و مے کے بغیر ہی سرور طاری ہوتا ہے)۔

از حوصله یاری مطلب صاعقه تیز است
پروانه شو اینجا ز سمندر نتوان گفت

لغت: "سمندر" = ایک کیڑا جو آگ ہی میں پیدا ہوتا ہے اور وہیں نشو و نما حاصل کرتا ہے۔ اس کے برعکس پروانہ ہے جو شعلہ دیکھتے ہی اُس پر لپکتا ہے اور جان دے دیتا ہے۔
معشوق کا جلوۂ حسن برقِ تپاں کی طرح ہے جس سے بچنے کا کسی کو حوصلہ نہیں ہو سکتا ہے۔ چنانچہ کہتا ہے کہ برق بہت تیز ہے، حوصلے کا سہارا نہ ڈھونڈ۔ یہاں تو پروانہ بن کر جان قربان کی جا سکتی ہے، سمندر نہیں بنا جا سکتا۔

ماخذ: شرحِ غزلیاتِ غالب (فارسی)، جلد اول
مصنف: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
 

حسان خان

لائبریرین
نظاره کن در آینه خود را حبیبِ من
اما به شرطِ آن که نگردی رقیبِ من

(هلالی جغتایی)
اے میرے حبیب! آئینے میں اپنے آپ کا نظارہ کرو، لیکن اِس شرط پر کہ تم (بعد ازاں) میرے رقیب نہیں بن جاؤ گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تاراج کرد دین و دل از دستِ عاشقاں
سلطاں نگر کہ مایۂ مشتے گدا ببرد


عبید زاکانی

(محبوب نے) عاشقوں کا دین و دل غارت کر دیا، بادشاہ تو دیکھو کہ فقیروں کا مُٹھی بھر سرمایہ بھی لے گیا۔
 
چونکہ صوفی تبسم کی مندرجہ بالا کتاب انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں، اس لئے غالب کی اس غزل کے چند دوسرے اشعار کو ہنوز سمجھ نہ سکا۔ ان اشعار کا بھی ترجمہ کردیں۔

ہنگامہ سر آمد، چہ زنی لافِ تظلم؟
گر خود ستمی رفت، بمحشر نتواں گفت
کارے عجب افتاد بدیں شیفتہ ما را
مومن نبود غالب و کافر نتواں گفت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علاوہ ازیں یہ پوچھنا تھا کیا اس شعر کا یہ ترجمہ درست ہے؟
در گرم رَوَی سایہ و سرچشمہ نجوئیم
با ما سخن از طوبیٰ و کوثر نتواں گفت
(ہم سفرِ مسلسل میں سایہ اور پانی نہیں ڈھونڈتے۔ ہم سے درختِ طوبیٰ اور آبِ کوثر کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔)
 

حسان خان

لائبریرین
چونکہ صوفی تبسم کی مندرجہ بالا کتاب انٹرنیٹ پر دستیاب نہیں، اس لئے غالب کی اس غزل کے چند دوسرے اشعار کو ہنوز سمجھ نہ سکا۔ ان اشعار کا بھی ترجمہ کردیں۔

ہنگامہ سر آمد، چہ زنی لافِ تظلم؟
گر خود ستمی رفت، بمحشر نتواں گفت
کارے عجب افتاد بدیں شیفتہ ما را
مومن نبود غالب و کافر نتواں گفت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علاوہ ازیں یہ پوچھنا تھا کیا اس شعر کا یہ ترجمہ درست ہے؟
در گرم رَوَی سایہ و سرچشمہ نجوئیم
با ما سخن از طوبیٰ و کوثر نتواں گفت
(ہم سفرِ مسلسل میں سایہ اور پانی نہیں ڈھونڈتے۔ ہم سے درختِ طوبیٰ اور آبِ کوثر کے بارے میں کچھ نہ پوچھو۔)

هنگامه سرآمد چه زنی دم ز تظلّم
گر خود ستمی رفت به محشر نتوان گفت

محبت ایک ہنگامہ ہے، بپا ہوا اور ختم ہو گیا۔ اب اُس کے جور و ستم کے ہاتھوں دادرَسی کے لیے فریاد کیسی؟ اگر واقعۃً کوئی ستم ہوا بھی ہے تو یہ وہ ستم ہے جسے محشر میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔

در گرم‌رَوی سایه و سرچشمه نجوییم
با ما سخن از طوبیٰ و کوثر نتوان گفت

مولانا حالی فرماتے ہیں۔
"ہم کو آگے جانے کی جلدی ہے۔ ہم سایہ اور سرچشمہ یعنی طوبیٰ اور کوثر پر آرام نہیں لے سکتے۔"
مسافر چلتے چلتے جب تھک جاتے ہیں تو کسی سایہ دار درخت یا چشمے کے کنارے دم لیتے ہیں اور پانی پی کر پیاس بجھاتے ہیں۔ مرزا غالب کہتے ہیں کہ ہم وہ تیز رفتار مسافر ہیں کہ طوبیٰ اور کوثر پہ نہیں ٹھہرتے۔ منزل پہ پہنچنے کا شوق ہمیں کشاں کشاں لے جا رہا ہے جو ان دونوں سے کہیں آگے ہے۔
منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے پرے ہوتا کاشکے مکاں اپنا

کاری عجب افتاد بدین شیفته ما را
مومن نبوَد غالب و کافر نتوان گفت

ایک عجیب مجنوں سے ہمارا واسطہ آ پڑا ہے۔ غالب مومن نہیں مگر اُسے کافر بھی نہیں کہا جا سکتا۔
غالب کی ظاہری زندگی، مومن کی سی نہیں تھی لیکن اس کے اشعار سے جو بالخصوص خدا کو خطاب کر کے کہے گئے ہیں، اُس کے ایمان اور خلوص کا پتا چلتا ہے اور یوں بھی کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔
دیکھا اسد کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں

ماخذ: شرحِ غزلیاتِ غالب (فارسی)، جلد اول
مصنف: صوفی غلام مصطفیٰ تبسم
 

حسان خان

لائبریرین
گفتم از دل برود چون ز مقابل برود
غافل از اینکه چو رفت از پیِ او دل برود

(امید اصفهانی)
میں نے کہا کہ جب وہ سامنے سے جائے گا تو دل سے چلا جائے گا، لیکن میں اس بات سے غافل تھا کہ جیسے ہی وہ گیا تو اُس کے پیچھے دل بھی چلا جائے گا۔
 

حسان خان

لائبریرین
یہ خود ستمی کا کیا مطلب ہے؟ اور کیا یہ خود ستمے ہے یعنے یائے معکوس ہے؟
یہاں 'خود' تخصیص اور تاکید کے لیے استعمال ہوا ہے یعنی 'اگر کوئی ستم ہی واقع ہو گیا'۔
ستم کے آخر میں یائے تنکیر ہے یعنی 'کوئی ستم'۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
نگردد مانعِ جولانِ عاشق زیر و بم هرگز
که فرقی نیست اندر سازِ مجنون کوه و صحرا را

(نقیب خان طغرل احراری)
زیر و بم ہرگز (کسی) عاشق کی تیز رفتاری میں مزاحم نہیں ہوا کرتا، کیونکہ مجنوں کے ساز میں کوہ اور صحرا کے مابین کوئی فرق نہیں ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
بلبلِ عرشم، فضولی! منزلم گلزارِ قُدس
من در این محنت‌سرا بی‌اختیار افتاده‌ام

(محمد فضولی بغدادی)

اے فضولی! میں عرش کا بلبل ہوں اور میری منزل گلزارِ بہشت ہے؛ میں اس محنت سرا (یعنی دنیا) میں بے اختیار گرا ہوں۔

دل را به ترکِ عشق نصیحت نمی‌دهم
کس را ز کارِ خیر پشیمان نمی‌کنم

(محمد فضولی بغدادی)

میں دل کو ترکِ عشق کی نصیحت نہیں دیتا؛ میں کسی کو کارِ خیر سے پشیمان نہیں کرتا۔
 
آخری تدوین:
ہر کرا خوابگہ آخر بہ دو مشتے خاک ست
گوچہ حاجت کہ بر افلاک کشی ایواں را؟
(حافظ شیرازی)

ہر کسی کی آخری خواب گاہ دو مشت مٹی(قبر) ہے۔کہہ دو کہ سر بفلک محلات بنانے کی پھر کیا حاجت؟
 

حسان خان

لائبریرین
پیش از آن افتد تو را، ای گل، به جمعیت خلل
یا گلابِ شیشه شو، یا زینتِ دستار باش

(نقیب خان طغرل احراری)
اے گُل! اِس سے قبل کہ (تمہاری پتّیوں کی جمعیت میں اور) تمہاری آسودہ خاطری میں کوئی خلل واقع ہو جائے، یا تو شیشے میں عرقِ گُل بن جاؤ یا پھر زینتِ دستار بن جاؤ۔
 
اے ہدہدِ صبا! بسبا مے فرستمت
بنگر کہ از کجا بکجا مے فرستمت

اے بادِ صبا کے ہدہد! میں تجھے سبا میں بھیجتا ہوں۔دیکھ لو! میں تجھے کہاں سے کہاں بھیج رہا ہوں
ہر صبح و شام قافلہء از دعائے خیر
در صحبتِ شمال و صبا مے فرستمت

ہر صبح اور شام کو دعائے خیر کا قافلہ تیرے لئے شمال اور مشرق کے ساتھ بھیج رہا ہوں۔
ساقی بیا کہ ہاتفِ غیبم بمژدہ گفت
با درد صبر کن کہ دوا مے فرستمت

ساقی! آ کہ ہاتفِ غیبی نے خوشخبری میں مجھ سے کہا ہے کہ درد پر صبر کر کہ میں تیرے پاس دوا بھیج رہا ہوں۔
(حافظ شیرازی)
ماخذ:دیوانِ حافظ از قاضی سجاد حسین
 

حسان خان

لائبریرین
سخن تا در جھان باقی‌ست از معدومی آزادم
زبانِ گفتگوها بالِ پرواز است عنقا را

(بیدل دهلوی)
جب تک دنیا میں سخن باقی ہے میں معدومی سے آزاد و محفوظ ہوں۔۔۔ گفتگوؤں کی زبان عنقا کے لیے بالِ پرواز ہے۔

تشریح: عنقا اگرچہ ایک فرضی پرندہ ہے، لیکن جب کوئی اُس کا ذکر کرتا ہے تو ایسا ہی ہے کہ گویا وہ اپنی گفتگو سے عنقا کو پرواز کے لیے بال و پر عطا کر رہا ہو، کیونکہ اگر ہمیں اپنے پردۂ خیال پر عنقا پرواز کرتا ہوا نظر آتا ہے تو اُس کا سبب یہی ہے کہ مردُم اُس کی گفتگو کرتے ہیں۔ اِسی وجہ سے شاعر کو یقین ہے کہ جب تک جہاں میں سخن باقی ہے وہ نابودی اور معدومی سے محفوظ ہے کیونکہ لوگ اُس کے اشعار کی قرائت سے اُسے موجود رکھیں گے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
شود باغ از خزان تا حشر ایمِن
اگر بر جانبِ گلشن خرامد

(نقیب خان طغرل احراری)
اگر وہ گلشن کی جانب خراماں ہو جائے تو باغ روزِ حشر تک خزاں سے محفوظ ہو جائے۔

چشمِ من افتد به رخش در نماز
دست به رو بهرِ دعا می‌کند

(نقیب خان طغرل احراری)
اگر نماز کے دوران میری نظر اُس کے چہرے پر پڑ جائے تو وہ (فوراً) دعا کے لیے چہرے کے سامنے ہاتھ کر لیتا ہے۔

عقده‌های مشکلِ رمز و کنایاتِ مرا
فهمد آن دانا، که حلِّ بوالمعانی می‌کند

(نقیب خان طغرل احراری)
میرے رمز و کنایات کے مشکل عقدوں کو وہ دانا سمجھ پاتا ہے جو ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل (کے اشعار کی گرہوں) کو کھولتا ہو۔

در سخن نمی‌باشد دیگری نظیرِ من
غیرِ حضرتِ بیدل من کجا بدل دارم؟

(نقیب خان طغرل احراری)
سخن میں کوئی بھی دوسرا شخص میرا مثل و مانند نہیں ہے؛ حضرتِ بیدل کے سوا میرا کوئی بدل کہاں ہے؟

چه نسبت است به بیدل کمینه شاهین را
که قطره را نتوان هم‌عنانِ قلزم کرد

(شمس‌الدین شاهین)
حقیر شاہین کو بیدل سے کیا نسبت ہے؟۔۔۔ کہ قطرے کو قلزم کا ہم عناں نہیں کیا جا سکتا۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
ہر گُل کہ ز باغِ کوئے اُو نیست
در ہر برگش ہزار خار است


ظہوری ترشیزی

ہر وہ پھُول کہ جو اُس کے کوچے کے باغ کا نہیں ہے، اُس پھُول کی ہر ایک پتی میں ہزاروں کانٹے ہیں۔
 
Top