یک قصہ بیش نیست غمِ عشق و ایں عجیب
از ہر کسے کہ می شُنوم نامکرر است

(حافظ شیرازی)

غمِ عشق ایک قصہ سے زیادہ نہیں ہے، اور تعجب کی یہ بات ہے کہ میں جس سے بھی سنتا ہوں، مکرر(دہرایا ہوا) معلوم نہیں ہوتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
آمد و در پیشِ من از ناز جولان کرد و رفت
خاطرم را همچو زلفِ خود پریشان کرد و رفت

(نقیب خان طغرل احراری)
وہ آیا، اور اُس نے میرے سامنے ناز سے گردش کی اور چلا گیا؛ اُس نے میرے ذہن کو اپنی زلف کی طرح پریشاں کیا اور چلا گیا۔

قامتِ شمشادِ زیبای تو را بیند اگر
بر سرِ نخلِ صنوبر باغبان سنگ آورد

(نقیب خان طغرل احراری)
اگر باغبان تمہاری شمشاد جیسی زیبا قامت دیکھ لے تو وہ درختِ صنوبر کے سر پر سنگ باری کرنے لگے۔

خیالِ قامتِ دل‌دار باشد
عصای قامتِ واژونِ طغرل

(نقیب خان طغرل احراری)
دلدار کی قامت کا خیال طغرل کی قامتِ خمیدہ کا عصا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اندک اندک ز حالِ ناصر پُرس
پرسشِ اندکِ تو بسیاریست


درویش ناصر بخاری

تھوڑا تھوڑا سا ناصر کا حال بھی پوچھ لے کہ تیرا تھوڑا پوچھنا بھی بہت ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
نه هر که یک دو سه مصرع به یکدگر بندد
رموزِ معنی و دردِ سخنوری داند

(حزین لاهیجی)
ہر وہ شخص جو دو تین مصرعے باہم باندھ لیتا ہو، لازم نہیں کہ وہ معنی کے رموز اور سخنوری کے درد سے بھی واقف ہو۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دو چیز طیرۂ عقل است، دَم فرو بستن
بوقتِ گفتن و گفتن بوقتِ خاموشی


شیخ سعدی شیرازی - (گُلستان)

دو چیزیں عقل کے لیے سبکی اور شرمساری کا باعث ہیں، چُپ رہنا بولنے کے وقت، اور بولنا چُپ رہنے کے وقت۔
 

حسان خان

لائبریرین
آوازِ تیشه امشب از بیستون نیامد
شاید به خوابِ شیرین فرهاد رفته باشد

(بِندرابن داس خوشگو)
آج شب بیستون سے تیشے کی آواز نہیں آئی؛ شاید فرہاد خوابِ شیریں میں چلا گیا ہو۔

خوابِ شیریں میں ایہام ہے، اس کا مطلب 'میٹھی نیند' بھی ہو سکتا ہے اور 'شیریں کا خواب' بھی۔ شعر کا سارا لطف اسی ذومعنی ترکیب سے ہے۔
بیستون = وہ کوہ جہاں پر فرہاد شیریں کے لیے جوئے شِیر کھودا کرتا تھا
تیشہ = سنگ تراشی اور چوب تراشی کا آلہ، کلہاڑا

==============

بلای عشق را جز عاشقِ شیدا نمی‌داند
به دریا رفته می‌داند مصیبت‌های طوفان را

(ابوالحسن ورزی)
عشق کی بلاؤں کو عاشقِ شیدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔۔۔ سمندر پر گیا ہوا شخص ہی طوفان کی مصیبتوں کو جانتا ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
چه فارغ‌بال می‌گشتم درین عالم اگر می‌شد
غمِ امروز چون اندیشهٔ فردا فراموشم

(صائب تبریزی)
میں اس دنیا میں کتنا فارغ البال گھومتا اگر آنے والے کل کی فکر کی طرح آج کا غم بھی مجھ سے فراموش ہو جایا کرتا۔
 

حسان خان

لائبریرین
حالِ سنگینیِ هجرانِ تو انشا کردم
سطر در صفحه فرو رفت چو زنجیر در آب
(میر محمد احسن ایجاد)

میں نے (جب) تمہارے ہجر کی گرانی کا حال تحریر کیا (تو) سطر صفحے کے اندر (یوں) چلی گئی جیسے پانی کے اندر زنجیر چلی جاتی ہے۔
 
نه هر که یک دو سه مصرع به یکدگر بندد
رموزِ معنی و دردِ سخنوری داند

(حزین لاهیجی)
ہر وہ شخص جو دو تین مصرعے باہم باندھ لیتا ہو، لازم نہیں کہ وہ معنی کے رموز اور سخنوری کے درد سے بھی واقف ہو۔

من نہ آنم دو صد مصرعِ رنگیں گویم
مثلِ فرہاد یکے گویم شیریں گویم
 

حسان خان

لائبریرین
من نہ آنم دو صد مصرعِ رنگیں گویم
مثلِ فرہاد یکے گویم شیریں گویم
عمدہ انتخاب!

من نه آنم که دو صد مصرعِ رنگین گویم

مثلِ فرهاد یکی گویم و شیرین گویم

میں وہ نہیں ہوں کہ سینکڑوں رنگین مصرعے کہتا پھروں؛ میں فرہاد کی طرح ایک ہی کہتا ہوں لیکن 'شیریں' کہتا ہوں۔

اِس بلاگ کے مطابق یہ شعر کسی کہفی پیشاوری کا ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
نیست گوش اہل عالم محرم اسرار عشق
زین سبب با خویشتن دیوانہ می گوید سخن

استاد صائب
دنیا والوں کے کان عشق کےراز سے آگاہ نہیں ہیں۔
اسی لیے تو دیوانہ خود اپنے آپ سے باتیں کرتا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سلطانِ مال خواہ گدائے رعیّت است
درویشِ بے سوال بہ از پادشاہ شناس


نظیری نیشاپوری

مال و دولت مانگنے والا بادشاہ تو اپنی رعیت کا فقیر ہوتا ہے لہذا سوال نہ کرنے والے درویش کو بادشاہ سے بہتر جان۔
 

حسان خان

لائبریرین
هر که را دیدیم از مجنون و عشقش قصه گفت
کاش می‌گفتند در این ره چه بر لیلیٰ گذشت

(حامد تبریزی)
ہم نے جس کو بھی دیکھا اُس نے مجنوں اور اُس کے عشق کا قصہ کہا۔۔۔۔ کاش لوگ (یہ بھی) بیاں کرتے کہ اِس راہ میں لیلیٰ پر کیا گذری۔
 

حسان خان

لائبریرین
تو چنان زی که بمیری برهی
نه چنان چون تو بمیری برهند

(سنایی غزنوی)
تم اس طرح زندگی بسر کرو کہ جب مر جاؤ تو نجات پا جاؤ۔۔۔ یوں زندگی بسر مت کرو کہ جب تم مر جاؤ تو دیگر لوگ نجات پا جائیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
بر روی ما عبث در میخانہ بستہ اند،،،،
فردا جواب ساقی کوثر چہ می دہند؟
صائب

ہم پر میخانے کا دروازہ خواہ مخواہ بند کیا ہے،
کل کے دن ساقی کوثر کو کیا جواب دیں گے؟
 
اے شمعِ سحر گریہ بحالِ من و خود کن
کیں سوزِ نہانی کہ مرا ہست ترا نیست

اے صبح کی شمع! اپنے اور میرے حال پر رو، کہ میرے ساتھ جو چھپا ہوا سوز ہے، وہ تیرے پاس نہیں۔

دی مے شد و گفتم صنما عہد بجا آر
گفتا غلط اے خواجہ دریں عہد وفا نیست

کل جب وہ(محبوب) چلا گیا تو میں نے اسے کہا کہ صنما! وعدہ پورا کرو۔اس نے کہا کہ اے خواجہ یہ غلط ، اس زمانے میں وفا نہیں ہے۔

گفتن برِ خورشید کہ من چشمہء نورم
دانند بزرگاں کہ سزاوارِ سُہا نیست

سورج کو یہ کہنا کہ میں نور کا سرچشمہ ہوں، بزرگ جانتے ہیں کہ ایسا کہنا سہا ستارے کو زیب نہیں دیتا(کجا آفتاب اور کجا سہا جیسا چھوٹا ستارہ)۔

(حافظ شیرازی)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
عقل حیراں کہ چہ عشقست و چہ حال
کہ فراق او عجب تر یا وصال


(مولانا رومی)

عقل حیران تھی کہ عجب عشق ہے، اور عجب حال ہے کہ اس میں ہجر زیادہ تعجب خیز ہے یا وصل۔
 

غدیر زھرا

لائبریرین
دو دہاں داریم گویا ہمچو نے
یک دہاں پنہان ست در لبہائے وے
یک دہاں نالاں شدہ سوئے شما
ہائے و ہوئے در فگندہ در سما


(مولانا رومی)

بانسری کی طرح گویا ہم دو منہ رکھتے ہیں ایک منہ اس کے لبوں میں چھپا ہوا ہے ایک منہ روتا ہوا تمہاری جانب آسمان میں شوروغل مچائے ہوئے ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
یک ذرّہ وفا را بہ دو عالم نہ فروشیم
ہرچند در ایں عہد خریدار ندارد


صائب تبریزی

ہم اپنی مہر و وفا کا ایک ذرّہ بھی دو عالم کے بدلے میں نہ بیچیں، ہرچند کہ آج کل کے زمانے میں اُس کا کوئی خریدار نہیں ہے۔
 
Top