محمد وارث

لائبریرین
یقینِ عشق کُن و از سَرِ گُماں برخیز
بہ آشتی بَنشیں یا بہ امتحاں برخیز


مرزا غالب دہلوی

(ہمارے) عشق کا یقین کر لے اور ہر قسم کا شک و شبہ چھوڑ دے، (اور یہ مان کر) محبت سے ہمارے پاس بیٹھ یا (ہمارے عشق کا) امتحان لینے کیلیے اٹھ کھڑا ہو۔
 
سعدی شیرازی کے ان دو شعروں کا ترجمہ کردیں۔
آں نہ خالست و زنخدان و سر زلف پریشاں
کہ دل اہلِ نظر برد، کہ سریست جدائی
روز صحرا و سماعست و لب جوئے و تماشا
در ہمہ شہر دلے ہست کہ دیگر بربائی؟
 

حسان خان

لائبریرین
سعدی شیرازی کے ان دو شعروں کا ترجمہ کردیں۔
آں نہ خالست و زنخدان و سر زلف پریشاں
کہ دل اہلِ نظر برد، کہ سریست جدائی
روز صحرا و سماعست و لب جوئے و تماشا
در ہمہ شہر دلے ہست کہ دیگر بربائی؟
میری فہم کے مطابق ان اشعار کا یہ مفہوم ہے:

آن نه خال است و زنخدان و سرِ زلفِ پریشان
که دلِ اهلِ نظر بُرد، که سرّی‌ست خدایی
(سعدی شیرازی)

جن چیزوں نے اہلِ نظر کا دل ہتھیایا ہے وہ خال، ذقن، اور زلفِ پریشاں کا کنارہ نہیں ہیں، بلکہ وہ تو (در حقیقت) خدائی راز ہیں۔ (یعنی شاعر نے محبوب کے جمال میں الٰہی راز کے پوشیدہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔)

روزِ صحرا و سماع است و لبِ جوی و تماشا
در همه شهر دلی نیست که دیگر بربایی

(سعدی شیرازی)
(آج) صحرا میں رقص اور نہر کے کنارے تماشے کا دن ہے؛ (لیکن) پورے شہر میں ایسا کوئی دل نہیں (رہا) ہے جسے تم اب مزید چرا سکو۔ (یعنی تم پہلے ہی تمام دل چرا چکے ہو۔)
[اس شعر کے مصرعِ ثانی کے متن میں اختلاف ہے۔ میں نے اُس متن کو ترجیح دی ہے جس میں 'ہست' کی جگہ پر 'نیست' ہے۔]
 
ہزار سال پس از مرگِ من چو باز آئی
ز خاک نعرہ بر آرم کہ مرحبا اے دوست
(شیخ سعدی شیرازی)
میری موت سے ہزار سال بعد بھی اگر تم واپس آؤ تو میں مٹی(قبر) سے یہ نعرہ لگاؤں گا کہ اے میرے دوست خوش آمدید۔


در پیشِ دوست تحفہء جاں بس محقر است
در خاکِ پائے یار سر از خاک کم تر است
(نجمی اصفہانی)
دوست کے لئے تحفہء جاں بھی نہایت حقیر ہے۔دوست کے خاکِ پا پر سر رکھنا بھی خاک سے کم تر ہے۔
 

حسان خان

لائبریرین
گر همین سوز رود با منِ مسکین در گور
خاک اگر باز کنی سوخته یابی کفنم
(سعدی شیرازی)

اگر یہی سوز مجھ مسکین کے ہمراہ (میری) قبر میں جائے گا تو اگر (میری) تُربت کھولو گے تو میرا کفن جلا ہوا پاؤ گے۔

شرطِ عقل است که مردم بگریزند از تیر
من گر از دستِ تو باشد مژه برهم نزنم
(سعدی شیرازی)

شرطِ عقل ہے کہ لوگ تیر سے بھاگیں؛ (لیکن) اگر (تیر) تمہارے ہاتھ سے ہو، تو میں پلک بھی نہ جھپکوں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
آں مئے کو ز فرنگست نداریم بجام
بادۂ خُم کدۂ صدق و صفا خواہی، ہست


علامہ شبلی نعمانی

وہ مے کہ جو افرنگ سے آتی ہے ہمارے جام میں نہیں ہے، ہاں تُو اگر صدق و صفا کے میخانے کی مے چاہتا ہے تو وہ موجود ہے۔
 
فروغ فرخزاد کی ایک نظم "رمیدہ" بمع ناقص اردو ترجمہ پیشِ خدمت۔

نمے دانم چہ مے جویم خدایاِ
بہ دنبالِ چہ مے گردم شب و روز
چہ مے جوید نگاہِ خستہء من
چرا افسردہ است ایں قلب پُرسوز
(خدایا میں نہیں جانتا کہ کیا تلاش کررہا ہوں۔میں کس کے پیچھ شب و روز گھومتا رہتا ہوں۔میری خستہ نگاہ کیا ڈھونڈتی ہے۔یہریزیم دلِ پر سوز کیوں افسردہ ہے؟)

ز جمعِ آشنایاں مے گریزم
بہ کنجے مے خزم آرام و خاموش
نگاہم غوطہ ور در تیرگی ہا
بہ بیمار دلِ خود مے دہم گوش
(میں آشناؤوں کے اجتماع سے بھاگتا ہوں۔کسی کونے میں بآرام و خاموشی رینگتا ہوں۔میری نگاہ تاریکیوں میں غوطہ زن ہوتی ہے۔اپنے بیمار دل کی پکار کو سنتا ہوں۔)

گریزانم از ایں مردم کہ با من
بہ ظاہر ہمدم و یک رنگ ہستند
ولے در باطن از فرطِ حقارت
بہ دامانم دو صد پیرایہ بستند
(میں ان لوگوں سے گریزاں ہوں جو بظاہر ہمدم اور یک رنگ ہوتے ہیں لیکن بباطن میرے دامن کو فرطِ حقارت سے آراستہ کیا ہوا ہے۔)

از ایں مردم، کہ تا شعرم شنیدند
بہ رویم چوں گلے خوشبو شکفتند
ولے آں دم کہ در خلوت نشستند
مرا دیوانہء، بدنام گفتند
(میں ان لوگوں سے بھاگتا ہوں جو میرے شعر سن کر میرے سامنے تو کسی خوشبودار پھول کی طرح کِھل اُٹھتے ہیں، لیکن جب گوشہء تنہائی میں بیٹھتے ہیں تو مجھے دیوانہ اور بدنام پکارتے ہیں۔)

دلِ من، اے دلِ دیوانہء من!
کہ مے سوزی از ایں بیگانگی ہا
مکن دیگر ز دستِ غیر فریاد
خدارا، بس کن ایں دیونگی ہا
(میرے دل!اے میرے دیوانہ دل! اس اجنبییت سے تم جلتے ہو۔کسی دوسرے کے ہاتھوںمزید فریاد مت کر!خدارا اس دیوانگی کو ختم کردو۔)
 
آخری تدوین:
سعدی کے ان دو اشعار سے متعلق میرے کچھ استفسارات ہیں:۔
خلق گویند برو دل بہ ہوائے دگرے دہ
نکنم خاصہ در ایام اتابک دو ہوائی
اس میں دوسرے مصرع کا کیا مطلب ہے؟

اے کہ گفتی مرو اندر پے خوبانِ زمانہ
ما کجائیم دریں بحرِ تفکر تو کجائی؟
آخری مصرع میں بحرِ تفکر سے کیا مراد ہے؟کیا اس کا مطلب غور و فکر کا سمندرہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
خلق گویند برو دل بہ ہوائے دگرے دہ
نکنم خاصہ در ایام اتابک دو ہوائی
اس میں دوسرے مصرع کا کیا مطلب ہے؟
لوگ کہتے ہیں کہ جاؤ کسی اور کی خواہش میں دل باختہ ہو جاؤ؛ (لیکن) میں بالخصوص اتابکوں کے ایام میں تو دو مختلف یا متضاد آرزوئیں نہیں رکھوں گا۔
('اتابک' سعدی شیرازی کے زمانے میں فارس کے سلغُری حکمرانوں کا لقب تھا۔)

اے کہ گفتی مرو اندر پے خوبانِ زمانہ
ما کجائیم دریں بحرِ تفکر تو کجائی؟
آخری مصرع میں بحرِ تفکر سے کیا مراد ہے؟کیا اس کا مطلب غور و فکر کا سمندرہے؟
جی، اس ترکیبِ اضافی کا یہی مفہوم ہے۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گر همین سوز رود با منِ مسکین در گور
خاک اگر باز کنی سوخته یابی کفنم
(سعدی شیرازی)

اگر یہی سوز مجھ مسکین کے ہمراہ (میری) قبر میں جائے گا تو اگر (میری) تُربت کھولو گے تو میرا کفن جلا ہوا پاؤ گے۔

شرطِ عقل است که مردم بگریزند از تیر
من گر از دستِ تو باشد مژه برهم نزنم
(سعدی شیرازی)

شرطِ عقل ہے کہ لوگ تیر سے بھاگیں؛ (لیکن) اگر (تیر) تمہارے ہاتھ سے ہو، تو میں پلک بھی نہ جھپکوں۔
واہ واہ ..۔دونوں زبردست! کمال انتخاب
 

حسان خان

لائبریرین
(تضمین)
هر شبِ هجر بر آنم که اگر وصل بجویم
همه چون نَی به فغان آیم و چون چنگ بمویم
لیک مدهوش شوم چون سرِ زلفِ تو ببویم

"گفته بودم چو بیایی غمِ دل با تو بگویم
چه بگویم که غم از دل برود چون تو بیایی"

(سید محمد حسین بهجت تبریزی 'شهریار')

ہر شبِ ہجر میرا قصد ہوتا ہے کہ اگر وصل پا جاؤں تو میں سر تا پا نَے کی طرح فغاں اور چنگ کی طرح نالہ کروں گا، لیکن میں جب تمہاری زلفوں کو بو کرتا ہوں تو مدہوش ہو جاتا ہوں۔ "میں نے کہا تھا کہ جب تم آؤ گے تو تم سے غمِ دل کہوں گا۔۔۔ لیکن کیا کہوں کہ تم جب آتے ہو تو دل سے سارے غم ہی دور ہو جاتے ہیں۔"
 
آخری تدوین:
لوگ کہتے ہیں کہ جاؤ کسی اور کی خواہش میں دل باختہ ہو جاؤ؛ (لیکن) میں بالخصوص اتابکوں کے ایام میں تو دو مختلف یا متضاد آرزوئیں نہیں رکھوں گا۔
('اتابک' سعدی شیرازی کے زمانے میں فارس کے سلغُری حکمرانوں کا لقب تھا۔)


جی، اس ترکیبِ اضافی کا یہی مفہوم ہے۔
حسان بھائی میں آپ کا انتہائی مشکور ہوں کہ سعدی شیرازی کے اس غزل کے وہ اشعار جو میں سمجھ نہ سکا، ان کا ترجمہ کیا۔یہ ناچیز شاگرد فارسی آموزی سے متعلق آپ کے گراں بار احسان کا تا دمِ مرگ ممنون رہے گا۔
تشکر در کلامِ من نگنجد
سپاس بےکرانی داری اے دوست
 
گر همین سوز رود با منِ مسکین در گور
خاک اگر باز کنی سوخته یابی کفنم
(سعدی شیرازی)

اگر یہی سوز مجھ مسکین کے ہمراہ (میری) قبر میں جائے گا تو اگر (میری) تُربت کھولو گے تو میرا کفن جلا ہوا پاؤ گے۔
شیخ سعدی کے مندرجہ بالا شعر پر حافظ کا یہ شعر یاد آگیا۔
بکشائے تربتم را بعد از وفات و بنگر
کز آتشِ درونم دود از کفن برآید
(حافظ شیرازی)
میری وفات کے بعد میری تربت کو اُٹھا کر دیکھو کہ میری اندرونی آگ کی بدولت کفن سے دھواں نکلتا ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
مے بے غش است دریاب، وقتے خوش است بشتاب
سالِ دگر کہ دارد، امّیدِ نو بہارے


حافظ شیرازی

بغیر ملاوٹ کے (خالص) مے ہے، حاصل کر لے، اچھا وقت ہے، جلدی کر لے، اگلے سال نو بہار کی امید کون رکھے (کہ اگلا سال کس نے دیکھا ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
ای گل، چو آمدی ز زمین گو چگونه‌اند؟
آن روی‌ها که در تهِ گردِ فنا شدند
(امیر خسرو دهلوی)

اے گُل، جب زمین سے آئے ہو تو بتاؤ وہ چہرے کس حال میں ہیں جو گَردِ فنا کی تہ میں جا چکے ہیں؟

آن سروران که تاجِ سرِ خلق بوده‌اند
اکنون نظاره کن که همه خاکِ پا شدند
(امیر خسرو دهلوی)

وہ رئیس جو لوگوں کے سر کا تاج رہے تھے، اب نظارہ کرو کہ سب خاکِ پا ہو چکے ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یا منِ ناصبور را سوئے خود از وفا طلب
یا تو کہ پاکدامنے، صبرِ من از خدا طلب


اہلی شیرازی

یا مجھ بے تاب و بے قرار و بے صبر کو اپنی طرف پیار محبت اور وفا سے بُلا، یا، تو کہ پاکدامن ہے (اور تیری دعا قبول ہوگی)، خدا سے میرے لیے صبر و قرار مانگ۔
 
Top