اپنے ناقص ترجمے کے ساتھ پیشِ خدمت۔ گزارش ہے کہ غلطیاں حسبِ سابق واضح کیں جائے۔نیز پانچویں شعر کا ترجمہ کردیا جائے۔

نمے دانم کہ اُو تاکے پئے آزار خواہد شد
نگوید ایں ولے آخرازو بیزار خواہد شد
(میں نہیں جانتا کہ وہ (محبوب) کب تک ایذا دیتا رہے گا۔وہ یہ بالکل نہیں بولتا کہ تکلیف دینے سے آخر میں بھی بیزار ہوجاوں گا)
بدیں خو چند روزے گر بماند از جفائے اُو
تنم بیمار خواہد گشت و جاں افگار خواہد شد
تکلیف دینے کی اس عادت پر کب تک وہ رہے گا۔میرا جسم بیمار ہوجائے گا اور جان زخمی ہوجائے گی))
بخواب مرگ شد بخت من و گویند یارانم
کہ تو فریاد و افغاں کن او بیدار خواہد شد
(میری قسمت مرگئی ہے اور میرے دوست کہتے ہیں کہ تو فریاد کرتا رہ!تیری قسمت بیدار ہوجائے گی)
مکن بہر خدا عزم گلستاں باچنیں روئے
کہ دانم باغباں شرمندہ از گلزار خواہد شد
(خدارا گلستان جانے کا عزم اس چہرے کے ساتھ مت کر۔میں جانتا ہوں کہ باغباں گلزار سے شرمندہ چلاجئے گا)
میفشاں دست چندے در سماع اے نازنین من
کہ ہوش اے جانِ من از دست و دست افگار خواہد شد
چہ گویم شرح جورِ یار و دردِ خویش با مردم
پئے تسکین من گویند با تو یار خواہد شد
(میں محبوب کے ظلم اور اپنے درد کی وضاحت لوگوں کو کیا کروں۔وہ میرے اطمینان کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ تیرا محبوب تجھے مل جائے گا)
زاندوہِ دل و چاک جگر تا کَے بَرد محی
کہ ایں عشق ست و ایں ہا ہر زماں بسیار خواہد شد
(دل کا اندوہ اور جگر کا پھٹنا کب تک محی! کہ یہ عشق ہے اور یہ سب کچھ ہر وقت رہے گا)

(شیخ عبدالقادر جیلانی)
 

حسان خان

لائبریرین
لائقِ احترام اریب آغا صاحب، ایک درخواست ہے کہ ترجمے کی اصلاح کے لیے پوری غزل کے بجائے صرف ایک یا دو اشعار دیا کیجیے، تاکہ آپ کے لیے بھی سہولت رہے، اور ترجمہ کرنے والوں یا ترجمے کی اصلاح کرنے والوں کو بھی بار محسوس نہ ہو۔ بہر حال، جن اشعار کا ترجمہ ٹھیک نہیں تھا، انہیں بقدرِ فہم درست ترجمے کے ساتھ نیچے لکھ رہا ہوں۔

نمی‌دانم که او تا کی پیِ آزار خواهد شد
نگوید این ولی آخر از او بیزار خواهد شد

میں نہیں جانتا کہ وہ کب تک میرے آزار کے در پے رہے گا؛ وہ یہ نہیں کہتا لیکن انجامِ کار وہ اُس (شخص) سے بیزار ہو جائے گا۔
لفظی ترجمہ تو جیسا ہو سکا میں نے کر دیا، اب دوسرے مصرعے میں معنی تلاش کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ :)

بدین خو چند روزی گر بماند، از جفای او
تنم بیمار خواهد گشت و جان افگار خواهد شد

اگر وہ چند روز تک اسی عادت پر قائم رہا تو اُس کی جفا سے میرا تن بیمار پڑ جائے گا اور میری جان زخمی ہو جائے گی۔

تیسرے شعر کا ترجمہ درست ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ 'مر گئی ہے' کی جگہ پر 'موت کی نیند میں چلی گئی ہے' زیادہ مناسب رہے گا، تاکہ دوسرے مصرعے میں 'بیدار ہونے' کے ساتھ اس کا معنوی ربط زیادہ واضح ہو جائے۔ اس کے علاوہ دوسرے مصرعے کا وزن بھی بگڑ رہا ہے۔ یہاں 'کن' کے بعد 'کہ' آئے گا یعنی:
که تو فریاد و افغان کن که او بیدار خواهد شد

چوتھے شعر کا ترجمہ درست ہے۔

میفشان دست چندی در سماع ای نازنینِ من
که هوش ای جانِ من از دست و دست افگار خواهد شد

اے میرے نازنیں! سماع میں اتنا رقص مت کرو کہ تمہاری حرکات سے میرے ہوش و حواس مجروح ہو جائیں گے۔
'دست و دست' کی ترکیب میں پہلی بار دیکھ رہا ہوں، اس لیے اپنے ظن کے مطابق اس کا یہ ترجمہ کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ میرا ظن غلط ہو، یا پھر متن میں کچھ اور ہو۔ واللہ اعلم!

چھٹے شعر کا ترجمہ درست ہے۔

ز اندوهِ دل و چاکِ جگر تا کی برد محیی
که این عشق است و اینها هر زمان بسیار خواهد شد

محیی کب تک دل کے غم اور جگر کے چاک کو تحمل کرتا رہے؟۔۔۔ کہ یہ تو عشق ہے اور عشق میں یہ سب تکلیفیں ہر وقت زیادہ ہوتی رہیں گی۔

ویسے میری رائے یہ ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی سے منسوب جو فارسی کلام ملتا ہے وہ اُن کا اپنا کہا ہوا نہیں ہے۔
 
آخری تدوین:
لائقِ احترام اریب آغا صاحب، ایک درخواست ہے کہ ترجمے کی اصلاح کے لیے پوری غزل کے بجائے صرف ایک یا دو اشعار دیا کیجیے، تاکہ آپ کے لیے بھی سہولت رہے، اور ترجمہ کرنے والوں یا ترجمے کی اصلاح کرنے والوں کو بھی بار محسوس نہ ہو۔ بہر حال، جن اشعار کا ترجمہ ٹھیک نہیں تھا، انہیں بقدرِ فہم درست ترجمے کے ساتھ نیچے لکھ رہا ہوں۔

جی حسان بھائی۔ انشاءاللہ میں آپ کی نصیحت پر آئندہ عمل کروں گا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
بہت شکرگزار ہوں میں آپکا۔
 

حسان خان

لائبریرین
نبود نقشِ دو عالم که رنگِ الفت بود
زمانه طرحِ محبت نه این زمان انداخت
(حافظ شیرازی)

ہنوز دو جہاں کا نقش وجود میں نہ آیا تھا کہ الفت کا رنگ [اور عشق و محبت کا شیوہ] موجود تھا؛ زمانے نے رسمِ محبت کی بنیاد اِس عہد میں نہیں ڈالی ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
حرفِ وصلی که مُحال است مگویيد به من
آب چون نيست طلب‌کارِ سرابم مکنيد
(محتشَم کاشانی)

جو حرفِ وصل مُحال ہے، وہ مجھ سے مت کہیے؛ جب آب نہیں ہے تو مجھے سراب کا طلب گار مت کیجیے۔
 
راشہ بر چشمم نشیں اے شاہِ خوبانِ چگل
لمعہء خورشید را بر چشم باشد جائے تل
(خوشحال خان خٹک)

ترجمہ درکار ہے۔
پشتو میں راشہ کا مطلب ہے "آجاوْں" کو کہتے ہیں، جبکہ "تل" "پامال" کو کہتے ہیں۔
 

حسان خان

لائبریرین
راشہ بر چشمم نشیں اے شاہِ خوبانِ چگل
لمعہء خورشید را بر چشم باشد جائے تل
(خوشحال خان خٹک)

ترجمہ درکار ہے۔
پشتو میں راشہ کا مطلب ہے "آجاوْں" کو کہتے ہیں، جبکہ "تل" "پامال" کو کہتے ہیں۔
راشه بر چشمم نشین ای شاه خوبان چگل
لمعهٔ خورشید را بر چشم باشد جای تل

ایک پشتو انگریزی لغت میں 'تَل' کا مطلب 'ہمیشہ' بھی نظر آیا ہے۔ اسی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مجھے اس شعر کا یہ مفہوم بہتر لگ رہا ہے:
اے تُرکستان کے حسینوں کے شاہ! آؤ اور میری آنکھوں پر بیٹھ جاؤ کہ خورشید کے پرتو کا مقام ہمیشہ آنکھ ہوا کرتی ہے۔
لیکن اس شعر میں قافیہ عیب دار ہے کیونکہ چگل کا تلفظ چِ گِ لْ ہے۔
 
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
مرا در گریهٔ امروز نقدِ اشک شد آخر
نمی‌دانم چه سازم گر رسد یارم نثار امشب؟
(محمد فضولی بغدادی)

آج کے گریے میں میرا نقدِ اشک ختم ہو گیا ہے؛ میں نہیں جانتا کہ اگر اِس شب میرا یار پہنچ جائے تو میں کیا نثار کروں گا؟

ای دل! ار عاشقی، از طعنه میندیش که ذوق
نتوان یافت ز عشقی که به رسوایی نیست
(محمد فضولی بغدادی)

اے دل! اگر تم عاشق ہو تو طعنے کی فکر مت کرو کیونکہ اُس عشق سے لذت حاصل نہیں کی جا سکتی جو رسوائی کے ہمراہ نہ ہو۔
 
آخری تدوین:
ز ہر چمن کہ گذشتم، بہ ہر گلے کہ رسیدم
بہ آبِ دیدہ نوشتم کہ یار جائے تو خالیست

میں جس چمن سے بھی گزرا، جس پھول کے پاس پہنچا، میں نے اپنے آنسووں پر لکھا کہ اے دوست تیری جگہ خالی ہے(تیری کمی محسوس ہوتی ہے)۔
 

حسان خان

لائبریرین
ز ہر چمن کہ گذشتم، بہ ہر گلے کہ رسیدم
بہ آبِ دیدہ نوشتم کہ یار جائے تو خالیست

میں جس چمن سے بھی گزرا، جس پھول کے پاس پہنچا، میں نے اپنے آنسووں پر لکھا کہ اے دوست تیری جگہ خالی ہے(تیری کمی محسوس ہوتی ہے)۔
ایک خفیف تصحیح: اپنے آنسوؤں سے لکھا
 

محمد وارث

لائبریرین
با صبا در چمنِ لالہ سحر می گفتم
کہ شہیدانِ کہ اند ایں ہمہ خونی کفناں


حافظ شیرازی

لالہ کے چمن میں، صبح کے وقت میں نے بادِ صبا سے پوچھا کہ یہ سارے خونی کفن والے کس کے شہید ہیں؟
 

حسان خان

لائبریرین
کمندِ مهر چنان پاره کن که گر روزی
شوی ز کرده پشیمان، به هم توانی بست

(محتشَم کاشانی)
محبت کی کمند کو اِس انداز سے کاٹو کہ اگر کسی روز اپنے کیے پر پشیمان ہو جاؤ، تو (دوبارہ) باہم باندھ سکو۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
بانگِ نے می بُرَد ز ہوش مرا
می دہد مے ز راہِ گوش مرا


نظیری نیشاپوری

بانسری کی آواز میرے ہوش و حواس لے جاتی ہے گویا یہ مجھے کانوں کے راستے سے مے دیتی ہے۔
نغمۂ نے سن کے یارو مست ہو جاتا ہوں میں
گویا کانوں سے شراب ناب پی جاتا ہوں میں
(شاکرالقادری)
 
من ندانستم از اول کہ تو بے مہر و وفائی
عہد نہ بستن ازاں بہ کہ ببندی و نپائی
(میں پہلے سے نہیں جانتا تھا کہ تو بے مہر اور بے وفا ہے۔ تمہارا وعدہ نہ کرنا اس سے بہتر تھا کہ تم نے وعدہ کیا مگر پورا نہ کیا)

دوستاں عیب کنندم کہ چرا دل بہ تو دادم
باید اول بہ تو گفتن کہ چنیں خوب چرائی
(میرے دوست مجھے برا بھلا کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں دل کیوں دیا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ تمہیں پہلے کہا جائے کہ اتنے اچھے کیوں ہو)

پردہ بردار، کہ بیگانہ خود ایں روئے نبیند
تو بزرگی و در آئینہء کوچک ننمائی
(اپنے چہرے پر سے پردہ اُٹھاو کیونکہ اجنبی خود سے تمہارا چہرہ نہیں دیکھ سکتا۔ تو بہت بڑا ہے (خوبصورتی کے لحاظ سے) اور چھوٹے سے شیشے میں نہیں سما سکتا)

گفتہ بودم چو بیائی غمِ دل با تو بگویم
چہ بگویم کہ غم از دل بِرَوَد چو تو بیائی
(میں نے کہا کہ جب توآئے تو اپنا غمِ دل تجھ سے بیان کروں۔کیا کہوں کہ جب تو آتا ہے تو غم خود دل سے چلا جاتا ہے)

کشتنِ شمع چہ حاجت بود از بیمِ رقیباں؟
پرتوِ روئے تو گوید کہ تو در خانہء مائی
(رقیبوں کے خوف سے شمع بجھانے کی کیا حاجت، جب تمہارے چہرے کا پرتو خود پکار اُٹھتا ہے کہ تو ہمارے گھر میں ہے)

(شیخ سعدی شیرازی)
 

محمد وارث

لائبریرین
رُباعی از حکیم عمر خیام

اے مفتیِ شہر از تو پُرکار تریم
با ایں ہمہ مستی ز تو ہشیار تریم
تو خونِ کساں خوری و ما خونِ رزی
انصاف بدہ، کدام خونخوار تریم


اے مفتیِ شہر ہم تجھ سے زیادہ کار آمد ہیں، اور اس تمام تر مستی کے باوجود تجھ سے زیادہ ہوش مند ہیں۔ تُو لوگوں کا خون پیتا ہے اور ہم انگور کا، خود ہی انصاف کر کہ زیادہ خونخوار کون ہے؟
 

حسان خان

لائبریرین
همدمی چون غمِ او نیست دمِ تنهایی
هر که را هست غمِ او، غمِ تنهایی نیست
(محمد فضولی بغدادی)

تنہائی کے وقت اُس کے غم جیسا کوئی ہمدم نہیں ہے؛ جس کو بھی اُس کا غم لاحق ہے، اُسے غمِ تنہائی نہیں ہوتا۔

عشق و درویشی و انگشت‌نمایی و ملامت
همه سهل است، تحمل نکنم بارِ جدایی
(سعدی شیرازی)

عشق و درویشی و بدنامی و ملامت۔۔۔ یہ تمام چیزیں آسان ہیں، (لیکن) میں جدائی کے بار کو تحمل نہیں کر پاتا۔
 
آخری تدوین:
گر مطربِ حریفاں ایں پارسی بخواند
در رقص حالت آرد پیرانِ پارسا را
(حافظ شیرازی)

اگر دوستوں کا گوّیا یہ فارسی غزل گائے گا
پاک باز بوڑھوں کو رقص میں لے آئے گا۔
 
Top