غزل ۔ الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے ۔ محمد احمدؔ

محمداحمد

لائبریرین
کیا ہی اچھی غزل ہے احمد صاحب، سبھی اشعار پسند آئے لیکن یہ شعر تو گویا دل نکال کے لے گیا

طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے

واہ واہ واہ

بہت بہت شکریہ وارث بھائی ۔۔۔!

ہمیشہ کی طرح کہوں گا کہ آپ کی رائے میرے لئے بے حد اہم ہے۔
 
بہت خوبصورت غزل
الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے

طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے

چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احمد بھائی ! کیا خوبصورت غزل ہے !! دل جھوم اٹھا پڑھ کر! بہت ہی اعلیٰ ۔
سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے

کیا بات ہے اس شعر کی !! سلامت رہیئے ۔ شاد آباد رہیئے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اس قدر خوبصورت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دِل میں اترتی۔۔۔۔۔۔گلی گلی کے ہو گئے۔۔۔۔۔
واہ واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت خوبصورت ۔بہت خوبصورت۔۔۔۔بہت حساس غزل۔۔۔۔ایک ایک شعر دل کو چھوتا ہے۔ بہت خوب! بہت ہی خوب!
جھوم رہے ہیں،سر دھن رہے ہیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
الگ تھلگ رہے کبھی، کبھی سبھی کے ہو گئے
جنوں کا ہاتھ چُھٹ گیا تو بے حسی کے ہو گئے

طلب کی آنچ کیا بجھی، بدن ہی راکھ ہو گیا
ہوا کے ہاتھ کیا لگے، گلی گلی کے ہو گئے

بہت دنوں بسی رہی تری مہک خیال میں
بہت دنوں تلک ترے خیال ہی کے ہوگئے

چراغِ شام بجھ گیا تو دل کے داغ جل اُٹھے
پھر ایسی روشنی ہوئی کہ روشنی کے ہو گئے

سخن پری نے ہجر کو بھی شامِ وصل کر دیا
تری طلب سِوا ہوئی تو شاعری کے ہوگئے
واہ بھئی واہ!
 
Top