اقبال عظیم وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ ۔۔اقبال عظیم

حجاب

محفلین
وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
کفِ دست نازک حنائی حنائی ، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹونا ، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی
کبھی خوش مزاجی ، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری ، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی ، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ حرفِ تکلّم ، نہ سعیِ تخاطب ، سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی
ادھر چند آنسو سوالی سوالی ، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی
وہ سیلابِ خوشبو گلستاں گلستاں ، وہ سروِ خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی ، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی
نہ ہونٹوں پہ سرخی ، نہ آنکھوں میں کاجل ، نہ ہاتھوں میں کنگن ، نہ پیروں میں پائل
مگر ھُسنِ سادہ مثالی مثالی ، جوابِ شمائل فقط لاجوابی
وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے ، سرِ کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرفِ پُرسش ، نہ اِذنِ گزارش ، کبھی نامُرادی کبھی باریابی
یہ سب کچھ کبھی تھا ، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی ، نہ خارہ شگافی ، نہ آہیں ، نہ آنسو ، نہ خانہ خرابی
کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے ، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت ساپا ، شرافت تبسّم ، بہ عصمت مزاجی ، بہ عفّت مآبی
جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں ، جن آنکھوں میں جادو تھا ، اب باؤضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے ، یہ معصوم آنکھیں ، نہ وہ بے حجابی ، نہ وہ بے نقابی
وہ عشقِ مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدّس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حُسنِ نگاراں فریبِ نظر تھا ، فرشتوں کی صورت ہے گِردوں جنابی
وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے ، خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موجِ تبسّم ، نہ دستِ حنائی ، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
نہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی ، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی ۔( اقبال عظیم )
ِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ
 

محمد وارث

لائبریرین
واہ واہ، کیا مرصع کلام پیش کیا آپ نے بہت خوب۔ شکریہ حجاب صاحبہ شیئر کرنے کیلیئے۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے حجاب۔ شکریہ۔۔ میں سمجھا کہ اپنی شگفتہ نے پھر کوئ تیر مارا ہے اور یہ تہنیتی پیغام ہے!!
شکریہ وارث کہ درست معانی میں ’مرصع‘ کا استعمال کیا۔ ورنہ آج کل تو اچھے اچھے شعرا اور نقاد بھی ہر اچھی شاعری کو مرصع کلام کہہ دیا کرتے ہیں۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
اچھی غزل ہے حجاب۔ شکریہ۔۔ میں سمجھا کہ اپنی شگفتہ نے پھر کوئ تیر مارا ہے اور یہ تہنیتی پیغام ہے!!
شکریہ وارث کہ درست معانی میں ’مرصع‘ کا استعمال کیا۔ ورنہ آج کل تو اچھے اچھے شعرا اور نقاد بھی ہر اچھی شاعری کو مرصع کلام کہہ دیا کرتے ہیں۔

بہت خوب کہا اعجاز صاحب اب تو یار لوگ میری غزل کو بھی مرصع کہنے لگے ہیں - ظاہر ہے کہ وہ ہرگز مرصع نہیں ہے - :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
وہ موج تبسم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی​
وہ سنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی​
کف دست نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی​
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹونا، وہ دزدیدہ نظریں عقابی عقابی​
کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی​
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی​
نہ حرف تکلم، نہ سعی تخاطب، سر بزم لیکن بہم ہم کلامی​
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسم جوابی جوابی​
وہ سیلاب خوشبو گلستاں گلستاں، وہ سرو خراماں بہاراں بہاراں​
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی​
نہ ہونٹوں پہ سرخی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہاتھوں میں کنگن، نہ پیروں میں پائل​
مگر حسن سادہ مثالی مثالی، جواب شمائل فقط لاجوابی​
وہ شہر نگاراں کی گلیوں کے پھیرے، سر کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے​
مگر حرف پرسش نہ اذن گزارش، کبھی نامرادی کبھی باریابی​
یہ سب کچھ کبھی تھا، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے​
نہ تیشہ بدوشی، نہ خارہ شگافی، نہ آہیں نہ آنسو نہ خانہ خرابی​
کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے​
نجابت سراپا، شرافت تبسم، بہ عصمت مزاجی، بہ عفّت مآبی​
جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں​
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی​
وہ عشق مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدس کی راہوں پہ اب گامزن ہے​
جو حسن نگاراں فریب نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گردوں جنابی​
وہ صورت پرستی سے اکتا گیا ہے، خلوص نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے​
نہ موج تبسم، نہ دست حنائی، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی​
نہ دزدیدہ نظریں عقابی عقابی، نہ مخمور لہجہ شرابی شرابی​
نہ سنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، نہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی​
 

الشفاء

لائبریرین
واہ۔ بہت خوب انتخاب نیرنگ بھیا۔۔۔

اقبال عظیم صاحب نے مجاز سے حقیقت کی طرف کا سفر بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اور آخر میں حمدیہ و نعتیہ شاعری ہی ان کا حوالہ
بنی۔ اپنی ایک نعت میں خود ہی فرماتے ہیں کہ

وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
 
وہ موج تبسم شگفتہ شگفتہ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سنبل سے گیسو سنہرے سنہرے، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی

کف دست نازک حنائی حنائی، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹونا، وہ دزدیدہ نظریں عقابی عقابی

کبھی خوش مزاجی، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی

نہ حرف تکلم، نہ سعی تخاطب، سر بزم لیکن بہم ہم کلامی
اِدھر چند آنسو سوالی سوالی، اُدھر کچھ تبسم جوابی جوابی

وہ سیلاب خوشبو گلستاں گلستاں، وہ سرو خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی


خوبصورت کلام۔بہترین شئیرنگ
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ۔ بہت خوب انتخاب نیرنگ بھیا۔۔۔

اقبال عظیم صاحب نے مجاز سے حقیقت کی طرف کا سفر بہت خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اور آخر میں حمدیہ و نعتیہ شاعری ہی ان کا حوالہ
بنی۔ اپنی ایک نعت میں خود ہی فرماتے ہیں کہ

وہی اقبال جس کو ناز تھا کل خوش مزاجی پر
فراق طیبہ میں رہتا ہے اب رنجیدہ رنجیدہ
بالکل بجا فرمایا آپ نے :)
اور خوشی ہوئی کہ انتخاب آپ کو پسند آیا۔ :)

خوبصورت کلام۔بہترین شئیرنگ
بہت شکریہ محسن :)

بہت اعلیٰ۔۔۔ ۔!

عمدہ انتخاب ہے۔
شکریہ احمد بھائی۔ آپ کو بھی انتخاب پسند آگیا۔۔ :)
 

مہ جبین

محفلین
بہت عمدہ اور زبردست کلام کا انتخاب کیا ہے نیرنگ خیال
جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی
وہ عشق مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حسن نگاراں فریب نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گردوں جنابی
واہ واہ کیا بات ہے اقبال عظیم مرحوم کے کلام کی کہ عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر بہت عمدگی سے طے کیا ہے
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ بہت ہی خوبصورت غزل
ایک ایک شعر میرا پسندیدہ ہے۔
سدا بہار غزل
:)

بہت خوب کلام شریک محفل کیا محترم نیرنگ بھائی
بہت شکریہ نایاب بھائی :)

بہت عمدہ اور زبردست کلام کا انتخاب کیا ہے نیرنگ خیال
جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں، جن آنکھوں میں جادو تھا اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے یہ معصوم آنکھیں، نہ وہ بے حجابی نہ وہ بے نقابی
وہ عشق مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حسن نگاراں فریب نظر تھا، فرشتوں کی صورت ہے گردوں جنابی
واہ واہ کیا بات ہے اقبال عظیم مرحوم کے کلام کی کہ عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی کا سفر بہت عمدگی سے طے کیا ہے
بالکل اپیا۔۔۔ درست فرمایا آپ نے :)
اور انتخاب کی پسندیدگی پر مشکور ہوں :)
 
Top