بارے نقشے کے کچھ معلومات درکار ہیں

جناب گمنام زندگی
اور شمال کی طرح جنوب سے بھی پانی کا بہاو زمین کے درمیان کی طرف کیوں ہے ، جبکہ بہاو تو کسی بھی ڈھلوان کی سمت ہو نا چاہیے۔​
اس کا تعلق شاید حرکت کے قوانین سے ہے۔ زمین کی اپنے محور پر گھومنے کی رفتار چکروں کی زبان میں تو ساری زمین پر ایک ہی ہے۔ سطح زمین پر موجود کوئی شے زمین کی ایک روٹیشن میں کتنی حرکت کرتی ہے، وہ ظاہر ہے خطِ استوا پر سب سے زیادہ ہے۔ مائعات کے خطِ استوا کی طرف بہاؤ میں مرکز مائل (سینٹری پیٹل) قوتوں اور مرکز گریز (سینٹری فیوگل) قوتوں کی کارفرمائی لگتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 
جنابِ گمنام زندگی

اور کیا سورج بھی اپنے آپ کے گرد گھوم رہا ہے اور اگر ہاں تو جو رخ ہم روز دیکھتے ہیں تو یقینا وہ روز بدل رہا ہے​

یہ میرے علم میں نہیں ہے۔ سیارے تو اپنے محور کے گرد گھومتے ہیں، ستاروں کا مجھے نہیں علم کہ ان کا اپنا بھی کوئی محور ہوتا ہے یا نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ
جو رخ ہم روز دیکھتے ہیں تو یقینا وہ روز بدل رہا ہے​
اس کا سبب زمین کا سورج کے گرد گھومنا بھی ہو سکتا ہے۔ میں ایک امکانی بات کر رہا ہوں، حتمی بات کیا ہے، وہ آپ بتا دیجئے۔
 
ڈھلوان کے حوالے سے ایک نکتہ ہے۔
زمین کے مرکزے (نیوکلیئس) سے فاصلہ مثال کے طور پر سمندر کی سطح کو لے لیجئے۔ پانی تو اپنی سطح ہموار رکھتا ہے، اور سمندر کی سطح کروی ہے یعنی پانی کی سطح کا مرکزے سے یکساں فاصلے پر ہونا، اس کو ’’ہموار‘‘ کہنے میں کوئی امر مانع نہیں۔
 
اصل میں یہ کچھ سوالات میرے ذہن میں کدبداتے رہتے تھے ، آپ کی پوسٹس پڑھی تو مزا آیا اس لئے اپنے سوالات کا ٹوکرا آپ پر انڈیل دیا ، :)
سچی بات یہ کہ مجھے تو سیارے اور ستارے کا فرق بھی یاد نہیں رہتا ۔ :LOL:
سطح زمین پر موجود کوئی شے زمین کی ایک روٹیشن میں کتنی حرکت کرتی ہے، وہ ظاہر ہے خطِ استوا پر سب سے زیادہ ہے
مائعات کے خطِ استوا کی طرف بہاؤ میں مرکز مائل (سینٹری پیٹل) قوتوں اور مرکز گریز (سینٹری فیوگل) قوتوں کی کارفرمائی ہے
حرکت میں تو خط استوا زیادہ ہے تو پانی وہاں سے کٹ کر قطبیں پر جمع ہونا چاہیئے جو کہ استوا کے مقابلے سست ہے ۔
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ زیادہ سورج کو فیس کرتا ہے اس وجہ سے پانی جم نہیں پاتا ۔
اب صرف ایک سوال ۔ زمین کس وجہ سے، اپنے قطبین پر نہیں گھوم جاتی یا گھومتی رہتی ؟؟؟ یعنی الٹ پلٹ نہیں ہوتی ۔
کوئی مناظرہ نہیں سمجھئے گا پلیز ، اپنی معلومات کی تسکین کی خاطر یہ سوالات کئے ہیں۔ شکریہ:)
 
جنابِ گمنام زندگی
اب صرف ایک سوال ۔ زمین کس وجہ سے، اپنے قطبین پر نہیں گھوم جاتی یا گھومتی رہتی ؟؟؟ یعنی الٹ پلٹ نہیں ہوتی ۔​

اس کا جواب تو قرآن شریف میں آ چکا۔ اللہ کریم نے بار بار اپنی قدرتِ کاملہ کا ذکر فرمایا ہے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ زمین آسمان سب کچھ کو الٹ پلٹ ہونا ہے! کب اور کیسے؟ یہ ٹائم ٹیبل اللہ تعالٰی کا ہے۔ جس کی حتمی تاریخ اللہ کریم نے نہیں بتائی اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی۔

آداب عرض ہے۔
 
قرآن شریف نے ’’اصولی علم‘‘ یعنی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ قاعدہ وہی ہے اور قانون بھی وہی ہے جو اللہ نے ہر شے کی ’’فطرت‘‘ میں رکھ دیا ہے۔ ’’فاطر‘‘ اللہ کریم کا ایک صفاتی نام ہے۔
رہیں ہر فیلڈ کی جزئیات، تو انسان اس میں لگا ہوا ہے۔ انسان کو بھی دعوت دی گئی ہے، غور و فکر اور تدبر کی!

اللہ کریم ہم سب کو مثبت رخ پر تفکر و تدبر کی توفیق سے نوازے۔ آمین!!۔
 
آپ کو اپنے مطالعے میں شریک کرتا ہوں ۔۔ اس کے مآخذ تو کئی ہو سکتے ہیں۔

یہ سیارہ جسے ’’الارض‘‘ کہا گیا، اور جس پر انسان کو بسایا گیا، اس زمین کے اندر اور باہر، اس کی فضا اور خلا میں ایک عجیب نوعیت کا بہت نازک لیکن بہت لچکدار توازن ہے۔ کچھ متفرق مثالیں دیکھئے:۔
اوزون گیس کی تہہ سورج سے آنے والی مضر شعاعوں کو زمین تک نہیں پہنچنے دیتی۔
مختلف گیسوں کے رنگ ہوں گے، جیسے کلورین کا سبزی مائل ہوتا ہے، مگر فضا بے رنگ ہے۔ اگر فضا میں رنگ ہوتے تو؟ ہے نا عجیب سا سوال؟
درخت اور پودے رات کو آکسیجن کھاتے ہیں اور دن میں بناتے ہیں۔
پانی کو اصلِ حیات کہا گیا، یہ شاید سب سے سادہ مرکب ہے۔ عام طور پر چیزیں سرد ہو کر سکڑتی ہیں اور ان کی کثافتِ اضافی بڑھ جاتی ہے، پانی 4 درجے سی سی کے بعد جمتا بھی ہے اور پھیلتا بھی ہے، یوں برف تیر کر پانی کے اوپر آ جاتی ہے۔ اگر برف پانی سے بھاری ہوتی اور نیچے بیٹھ جاتی تو کیسی صورتِ حال ہوتی؟
ہر زندہ وجود میں پانی نہ صرف جزوِ لازم ہے بلکہ اس کی فی صد مقدار باقی تمام عناصر و مرکبات سے زیادہ ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک طویل سلسلہ ہے۔ کہاں تک چلئے گا!
اللہ تبارک و تعالٰی کی صناعی کا مشاہدہ کیجئے اور اس کی کاری گری پر قربان جائیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت ہی معلوماتی دھاگہ ہے۔

آسی صاحب کی معلومات تو بیش بہا ہیں۔

اراکین سے بھی درخواست ہے کہ اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔

جہاں تک قطبین کا تعلق ہے تو سویڈن، ناروے اور ڈنمارک اسی طرف ہیں۔ جہاں دن 20 گھنٹے کا اور رات 4 گھنٹے کی یا رات 20 گھنٹے کی اور دن 4 گھنٹے کا۔
ان جگہوں پر جہاں تک رمضان کے روزے کا تعلق ہے تو ظاہر ہے اتنا لمبا روزہ نہیں رکھا جاتا، دوسری صورت میں نمازوں کی ادائیگی کے اوقات بھی کچھ عجیب سے ہوں گے۔

ہمارے ہاں ایک صاحب سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے کام کرتے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وہ مکہ المکرمہ کے اوقات پر عمل کرتے ہیں۔

اردو محفل میں اگر کوئی سویڈن سے ہوں تو ان کی رائے لی جائے۔
 

عزیزامین

محفلین
قطبِ جنوبی اور دائرہ قطب جنوبی کا سارا علاقہ ’’برف کی زمین‘‘ یعنی برِاعظم انٹارکٹیکا پر مشتمل ہے اور وہاں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ مزید یہ کہ اس کے گردا گرد دور تک سمندر پھیلا ہوا ہے۔
یہ نقشہ دیکھئے:
http://www.worldatlas.com/webimage/countrys/an.htm
وہاں طلوع آفتاب سبز ہوتا ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
یعنی آسٹریلیا سے امریکہ ایک گھنٹے کی فلائٹ کی دوری پر ہے ؟؟؟
میرا خیال ہے کہ یہ فاصلہ بارہ سے چودہ ہزار کلومیٹر تک بنے گا۔ یعنی تقریباً اٹھارہ سے بائیس گھنٹے کی فلائیٹ۔ تاہم یہ میرا اندازہ ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس میں کمی بیشی ہو
 

قیصرانی

لائبریرین
پچھلے دنوں ایک سوال پر بہت گرما گرم بحث رہی کہ قطبین کے علاقوں میں نماز اور روزے کے اوقات کا حساب کیسے ہو؟
اوسلو (ناروے) میں مقیم ایک پاکستانی دانشور نے بتایا:
’’ہمارے یہاں گرما میں سب سے لمبا دن 21 گھنٹے کا ہوتا ہے اور رات 3 گھنٹے کی، اور سرما میں رات 21 گھنٹے کی اور دن 3 گھنٹے کا۔ نمازوں اور سحری افطاری کے اوقات میں ہم سورج کے حساب پر چلتے ہیں۔ طویل ترین روزہ 22، 23 گھنٹے کا اور مختصر ترین روزہ 4، 5 گھنٹے کا ہوتا ہے‘‘۔
مجھے سے کسی نے بہت چبھتے ہوئے انداز میں پوچھا کہ اگر آپ عین قطب شمالی پر ہوں تو آپ کا روزہ کتنا لمبا ہو گا؟ میں نے تو کہہ دیا کہ: ’’بھائی، وہاں جا کر رہیں گے تو روزے کا حساب بھی کر لیں گے‘‘۔

۔۔۔ ۔۔۔ ۔
فن لینڈ کے شمال میں، نصف سے ذرا اوپر ایسے مقامات ہیں جہاں گرمیوں میں سورج کئی روز سے کئی ہفتوں تک غروب نہیں ہوتا اور اسی طرح کئی روز سے کئی ہفتوں تک سردیوں میں طلوع نہیں ہوتا۔ اس لئے وہاں نماز کے اور روزے کے اوقات کافی مشکل ہو جاتے ہیں۔ کچھ لوگ جنوبی فن لینڈ، کچھ لوگ سعودی عرب اور کچھ لوگ اپنے آبائی ملک کے اوقات کو دیکھ لیتے ہیں۔ کچھ لوگ یہ کرتے ہیں کہ اس روز جس جس ملک میں چاند دکھائی دیا ہو، ان میں سے اپنی سہولت کے مطابق کوئی سا چن لیتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت خوب معلومات ۔
اچھا یہ بتائیں کہ دنیا کے سیدھا الٹے کا تعین کس نے کیا یعنی شمال کو ہمیشہ اوپر اور جنوب کو نیچے کیوں دکھایا جاتا ہے ؟
اور شمال کی طرح جنوب سے بھی پانی کا بہاو زمین کے درمیان کی طرف کیوں ہے ، جبکہ بہاو تو کسی بھی ڈھلوان کی سمت ہو نا چاہیے۔
اور کیا سورج بھی اپنے آپ کے گرد گھوم رہا ہے اور اگر ہاں تو جو رخ ہم روز دیکھتے ہیں تو یقینا وہ روز بدل رہا ہے
ایک اور عجیب سا سوال بھی ہے ، پر بعد میں پوچھوں گا ۔ شکریہ
دنیا کے سیدھا اور الٹا ہونے کا تعین بس ایک ہی بار کر دیا گیا تھا کہ کوئی نہ کوئی سرا تو جنوب ہونا تھا اور کوئی نہ کوئی شمال۔ اس طرح یہ بنے
پانی کا رخ ہمیشہ بلندی سے پستی کی طرف ہوتا ہے۔ قطبین پچکے ہونے کی وجہ سے پانی کو زیادہ کھینچتے ہیں لیکن عام حالات میں محض بلندی اور پستی ہی Rule of thumb ہے۔ تاہم زمین کی گردش کو دیکھا جائے تو زمین درمیان میں زیادہ تیز جبکہ قطبین پر کم حرکت کرتی ہے۔ اس سے بھی فرق پڑتا ہے
سورج کے اپنے محور کے گرد گھومنے کا سلسلہ کچھ عجیب ہے۔ بائنری سسٹم یعنی ثنائی ستارے کے نظام میں اکثر ایک ستارہ دوسرے کے گرد گھومتا ہے اور دوسرا اپنی جگہ سے ہلکا سا حرکت کرتا ہے۔ ذیل کی شکل اس کی کچھ وضاحت کرتی ہے
kepler16-system-v-inner-solar-system-br.jpg
 

قیصرانی

لائبریرین
ڈھلوان کے حوالے سے ایک نکتہ ہے۔
زمین کے مرکزے (نیوکلیئس) سے فاصلہ مثال کے طور پر سمندر کی سطح کو لے لیجئے۔ پانی تو اپنی سطح ہموار رکھتا ہے، اور سمندر کی سطح کروی ہے یعنی پانی کی سطح کا مرکزے سے یکساں فاصلے پر ہونا، اس کو ’’ہموار‘‘ کہنے میں کوئی امر مانع نہیں۔
پانی اپنی سطح ہموار رکھتا ہے لیکن بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے مشرقی اور مغربی کناروں پر پانی کی سطح میں اچھا خاصا فرق ہے۔ اب یہ تو یاد نہیں کہ وہ فرق ایک میٹر جتنا ہے یا کتنا، لیکن زمین کی حرکت کی وجہ سے یہ فرق پیدا ہوا ہے
 
جناب شمشاد کی دعوت کا کتنا اچھا رد عمل مل رہا ہے!۔ دیگر احباب بھی شاملِ گفتگو ہوئے۔ خاص طور پر جناب قیصرانی کی فراہم کردہ اطلاعات کا انداز بالکل سائنسی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ہمارے دوست جناب الف عین بھی علمِ ارضیات سے مستفیض ہونے کا موقع دیں گے۔

آخر کو زمین ہمارا گھر ہے، اس کے معاملات میں دل چسپی عین فطری بات ہے۔
 
زمین اور اس کے ماحول کے عجائبات کی بات چلی ہے تو سنئے۔
مکہ مکرمہ اور بیت اللہ شریف کا علاقہ کسی قدر نیچا ہے۔ بدین وجہ اس کو ’’نافِ زمین‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس کا ہندی ترجمہ ہے ’’پرتھوی نابھہ‘‘ (پرتھوی: زمین، نابھہ: ناف)۔ میں اس کو یوں بھی دیکھتا ہوں:
کتنی عجیب بات ہے کہ آسمان سے زمین پر اترنے کے بعد ابوالبشر اور ام البشر اس علاقے میں آ کر ملتے ہیں۔ بعد ازاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اسی جگہ چھوڑا جاتا ہے اور یہاں سے زم زم پھوٹتا ہے۔ اور صدیوں بعد اسی مقام سے رحمت للعالمین کا وہ زم زم پھوٹتا ہے جس کی برکات قیامت تک رواں ہیں۔
پرتھوی نابھہ، بھارت میں واقع شہر نابھہ اور ایک ہندو پنڈت کی معروف کتاب ’’کالکی اوتار‘‘ ۔۔ یہ ایک دوسرا سلسلہ ہے۔ کبھی دیکھئے گا۔
 
ارضیاتی حوالے سے ہم ’’جوار بھاٹا‘‘ یا ’’مد و جزر‘‘ سے بخوبی واقف ہیں۔ پورن ماشی یعنی پورے چاند کی راتوں میں سطح سمندر سے پانی کی بہت بڑی مقدار چاند کی کششِ ثقل کے زیرِ اثر زمین سے اوپر کو اٹھتی ہیں، زمین اُن کو پھر کھینچ لیتی ہے، وہ پھر اٹھتی ہیں اور یوں سمندر میں ایک ہلچل بپا ہو جاتی ہے جس کے اثرات ساحلوں تک جاتے ہیں۔ سمندری موجیں ساحلوں تک پہنچتی ہیں اور سمندر کے اس علاقے سے چاروں طرف ہوائیں چلتی ہیں، وغیرہ۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
برِاعظم انٹارکٹیکا کے بارے میں سنا گیا ہے کہ وہاں چھ مہینے رات اور چھ مہینے دن ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت ہے یا پھر فرضی کہانیاں ہیں۔ یا پھر جو گرمیوں میں 20 یا 21 گھنٹے کا دن اور 3 یا چار گھنٹے کی رات ہوتی ہے اسی طرح سردیوں میں رات اور دن میں فرق آتا ہے۔ تو او وجہ کو سامنے رکھ کر کہا جاتا ہے کہ چھ ماہ رات اور چھ ماہ دن رہتا ہے؟؟؟​
 
یہ بات صرف چاند تک نہیں رہتی۔ چاند اور پھر سورج سے کہیں دور، اسی نظامِ شمسی کا ایک رکن ہے پلوٹو۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سیارہ بعد میں دریافت ہوا اس کے وجود کا جواز یا دلیل پہلے دریافت ہوئی۔ فلکیات کے ماہرین نے مشاہدات اور حسابات کے بعد کہا کہ نیپچون سے پرے کم از کم ایک سیارہ ہونا چاہئے جو اسی نظامِ شمسی کا رکن ہو۔ اس سیارے کا حجم اور مقدارِ مادہ یہ یہ یہ ہونی چاہئے اور اس کا مدار فلاں ہونا چاہئے۔ اس تحقیق کے سامنے آنے اور پلوٹو کی دوربینی دریافت کے درمیان برسوں کا فاصلہ ہے (سیارہ بعد میں دیکھا گیا)۔

مقصد میری گزارشات کا یہ ہے کہ بہ ظاہر بہت دور بہت دور واقع سیاروں اور سیارچوں کا ہماری زمین سے بہت گہرا تعلق ہے، جس کو حسابات میں بھی سمجھا جانے کے امکانات بہر حال موجود ہیں۔ یہ ہمارے لئے بھی اور پوری انسانیت کے لئے بھی اللہ کریم کی کھلی نشانیاں ہیں۔
 
Top