یوں تو کوئی دوش نہیں تھا کشتی کا ، پتواروں کا (محمد احمد)

نیرنگ خیال

لائبریرین
غزل

یوں تو کوئی دوش نہیں تھا کشتی کا ، پتواروں کا
ہم نے خود ہی دیکھ لیا تھا ایک سراب کناروں کا

جھڑتی اینٹیں سُرخ بُرادہ کب تک اپنے ساتھ رکھیں
وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیوارں کا

تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا

سُرخ گلابوں کی رنگت بھی اچھی ہے پر سوچتا ہوں
قوس و قزح سی اُس کی آنکھیں ، رنگِ حیا رخساروں کا

کاش سروں کی بھی قیمت ہو دستاروں کے میلے میں
کاش وفا بھی جنسِ گراں ہو طور تِرے بازاروں کا

دھوکہ دینے والی آنکھیں ، دھوکہ کھا بھی لیتی ہیں
راکھ اُڑا کے دیکھ تو لیتے رنگ ہے کیا انگاروں کا

من میں غم کے پھول کھلیں تو لفظ مہکنے لگتے ہیں
دل آنگن بھی دیکھا ہوتا ، تم نے خوش گُفتاروں کا

بند گلی بھی خود میں جانے رستے کتنے رکھتی ہے
ہم دروازے کھوج نہ پائے ، دوش ہے کیا دیواروں کا

ایسا تھا کہ آنچل بن کے دھرتی کو سُکھ دینا تھا
ورنہ امبر بھی کیا کرتا ، سورج ، چاند ، ستاروں کا

بس یادوں کی کو مل رُت میں عمر تمام گزر جائے
ورنہ احمدؔ ہجر کا موسم ، موسم ہے آزاروں کا

محمداحمؔد
 
ایک اور خوبصورت غزل شریک کرنے پر شکریہ

کیا کہنے احمد بھائی
تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا

کاش سروں کی بھی قیمت ہو دستاروں کے میلے میں
کاش وفا بھی جنسِ گراں ہو طور تِرے بازاروں کا

دھوکہ دینے والی آنکھیں ، دھوکہ کھا بھی لیتی ہیں
راکھ اُڑا کے دیکھ تو لیتے رنگ ہے کیا انگاروں کا
 

جاسمن

لائبریرین
من میں غم کے پھول کھلیں تو لفظ مہکنے لگتے ہیں
دل آنگن بھی دیکھا ہوتا ، تم نے خوش گُفتاروں کا

تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا
آہ!
بہت خوبصورت بہت خوبصورت۔۔شاندار۔
بہت ہی پیاری غزل ہے۔
اللہ آپ کو آسانیوں سے نوازے اتنی زبردست شئیرنگ پہ۔
 

من

محفلین
غزل

یوں تو کوئی دوش نہیں تھا کشتی کا ، پتواروں کا
ہم نے خود ہی دیکھ لیا تھا ایک سراب کناروں کا

جھڑتی اینٹیں سُرخ بُرادہ کب تک اپنے ساتھ رکھیں
وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیوارں کا

تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا

سُرخ گلابوں کی رنگت بھی اچھی ہے پر سوچتا ہوں
قوس و قزح سی اُس کی آنکھیں ، رنگِ حیا رخساروں کا

کاش سروں کی بھی قیمت ہو دستاروں کے میلے میں
کاش وفا بھی جنسِ گراں ہو طور تِرے بازاروں کا

دھوکہ دینے والی آنکھیں ، دھوکہ کھا بھی لیتی ہیں
راکھ اُڑا کے دیکھ تو لیتے رنگ ہے کیا انگاروں کا

من میں غم کے پھول کھلیں تو لفظ مہکنے لگتے ہیں
دل آنگن بھی دیکھا ہوتا ، تم نے خوش گُفتاروں کا

بند گلی بھی خود میں جانے رستے کتنے رکھتی ہے
ہم دروازے کھوج نہ پائے ، دوش ہے کیا دیواروں کا

ایسا تھا کہ آنچل بن کے دھرتی کو سُکھ دینا تھا
ورنہ امبر بھی کیا کرتا ، سورج ، چاند ، ستاروں کا

بس یادوں کی کو مل رُت میں عمر تمام گزر جائے
ورنہ احمدؔ ہجر کا موسم ، موسم ہے آزاروں کا

محمداحمؔد
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ایک اور خوبصورت غزل شریک کرنے پر شکریہ

کیا کہنے احمد بھائی
محمداحمد بھائی کی طرف سے شکرگزار ہوں۔ :)

آہ!
بہت خوبصورت بہت خوبصورت۔۔شاندار۔
بہت ہی پیاری غزل ہے۔
اللہ آپ کو آسانیوں سے نوازے اتنی زبردست شئیرنگ پہ۔
بہت شکریہ ۔۔۔آمین :)
 

من

محفلین
بہت خوبصورت غزل ماشاءاللہ معذرت چاہتی ہوں میرے فون میں اردو فورم ٹھیک سے نہیں چل تھا اس لیے شاید کچھ غلط پوسٹ کر دیا تھا میں اللہ کا شکر اب ٹھیک سے چل رہا ہے
 

طارق شاہ

محفلین
تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا

سُرخ گلابوں کی رنگت بھی اچھی ہے پر سوچتا ہوں
قوس و قزح سی اُس کی آنکھیں ، رنگِ حیا رخساروں کا

بہت خوب اشعار !
شکریہ شیئر کرنے پر
:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ماشاءاللہ معذرت چاہتی ہوں میرے فون میں اردو فورم ٹھیک سے نہیں چل تھا اس لیے شاید کچھ غلط پوسٹ کر دیا تھا میں اللہ کا شکر اب ٹھیک سے چل رہا ہے
کوئی بات نہیں۔۔۔ غلط تو کچھ نہیں لکھا آپ نے۔۔۔ :)

بہت عمدہ:)
ایک خوبصورت اشتراک:)
شکریہ ہادیہ۔۔۔ :)

واہ بہت خوب احمد بھائی کیا کہنا :)
احمد بھائی کی جگہ میں داد وصول کر لیتا ہوں۔ :)

تیز ہوا نے تنکا تنکا آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا

سُرخ گلابوں کی رنگت بھی اچھی ہے پر سوچتا ہوں
قوس و قزح سی اُس کی آنکھیں ، رنگِ حیا رخساروں کا

بہت خوب اشعار !
شکریہ شیئر کرنے پر
:)
شکریہ شاہ جی۔۔۔ :)

واہ

بند گلی بھی خود میں جانے رستے کتنے رکھتی ہے
ہم دروازے کھوج نہ پائے ، دوش ہے کیا دیواروں کا​
شکریہ صائمہ۔۔۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ذوالقرنین بھائی ! پہلے تو آپ کے اس انتخاب کو داد دینی چاہیئے اور پھر آپ کے توسط سے احمد بھائی کو ۔ بہت ہی خوبصورت غزل ہے !!! شاہکار!!!
پچھلے ہفتے میں دو تین بار دور ہی دور سے یہ غزل پڑھی اور سوچ رہا تھا کہ سکون سے بیٹھ کر اس پر لکھوں گا ۔ اس غزل کی ایک عجیب ہی فضا ہے جسے بیان کرنا کم از کم میرے بس سے باہر ہے۔ اتنے سارے اشعار میں ایک عمومی کیفیت اور لفظیات کی مجموعی فضا کو برقرار رکھنا بھی بڑا ہنر ہے اور شاعر کی قادرالکلامی کا ثبوت ۔اگرچہ غزل کی روایت کے عین مطابق ان اشعار میں بظاہر موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے لیکن مضامین کا یہ پھیلاؤ ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکلتا ۔ اکثر اشعار میں بین السطور ملال کی ایک ایسی رو چلتی نظر آتی ہے جو مڑ مڑ کر اپنے ماضی کو دیکھنے اور احساسِ زیاں کی ایک کیفیت سے کشید ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد پھیلے ماحول اور مظاہرِ فطرت کو بطور کینوس استعمال کرتے ہوئے علامات اور استعارات کی مدد سے سے کئی خوبصورت شعر بُنے ہیں احمد بھائی نے ۔

جھڑتی اینٹیں سُرخ بُرادہ کب تک اپنے ساتھ رکھیں
وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیوارں کا
ہائے ہائے ہائے ! وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیواروں کا ! کیا حقیقت نگاری ہے۔ ایک غیر مذکور عمارت کے پس منظر میں جھڑتی اینٹیں اور سرخ برادہ کے استعارات بہت گہرائی رکھتے ہیں ۔ اب اس لمحہ بہ لمحہ ڈھیتی ہوئی عمارت کو ایک فرد کی سطح پر عمارتِ ہستی بھی سمجھا جاسکتا ہے اور وجود و عدم کے حوالے سے دوسرے مصرع کا ظاہری اور سطحی مطلب بھی لیا جاسکتا ہے ۔ لیکن اگر اسے اجتماعی حوالے سے دیکھا جائے تو اس گرتی عمارت سے مراد کہنہ معاشرتی اقدار بھی ہوسکتے ہیں ۔ بلکہ ’’کب تک اپنے ساتھ رکھیں‘‘ کا سوال اس دوسرےمفہوم کو زیادہ واضح کرتا ہے اور اس کشمکش کی طرف بھی اشارہ کرتا ہےجو ان زوال پذیر اقدار و روایات کے درمیان رہتے ہوئے شاعر کے احساسات میں جاری ہے ۔ یعنی یہ شعر ایک انتہائی درجہ کا خوبصورت علامتی شعر ہے جس کی تہیں قاری کے اپنے تجربات اور احساسات کے ہاتھوں کھلتی ہیں ۔ اور مندرجہ ذیل شعر کو بھی میں اسی علامتی شعر کی ایک خاص سمت میں توسیع سمجھتا ہوں ۔​
تیز ہوا نے تنکا تنکا ، آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا​
اس شعر کی بنیاد بھی شکست و ریخت کا وہی احساس ہے جو پہلے شعر میں کارفرما ہے۔ وہی اپنی آنکھوں کے سامنے آشیانہ اجڑنے کا سانحہ اور اپنی بے بسی کا گہرا احساس! تیز ہوا کے مقابل چڑیا کا استعارہ کمزوری ، بے بسی اور بے حیثیتی کا استعارہ ہے۔ چڑیا کب تک اپنے پیاروں کا سوچتی رہے گی؟! کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ بس تند ہوا کے مقابل اس کی اپنی ذاتی بقا کا سوال بھی اٹھنے والا ہے ۔ ایسے میں یہ دوسرا مصرع ’’ گم صم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا‘‘ کس کرب کی منظرکشی کررہا ہے !!! کیا یہ ننھا مظلوم پرندہ شاعر کےاندر بسنے والا وہ پنکھی ہے جو نہ صرف مجبور و مقید ہے بلکہ اپنے حفاظتی حصار کو تنکا تنکا بکھرتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہے؟! یا پھر یہ وہی معاشرتی شکست و ریخت کا نوحہ ہے ؟!! خاندان اور رشتوں کے تانے بانے بکھرتے جارہے ہیں ، گھر ٹوٹ رہے ہیں اور ہر چڑیا اپنے پیاروں کے لئے فکرمند ہے؟!! اس شعر کی تفہیم بھی ذاتی مشاہدات اور واردات کی رو سے ہوگی ۔

اور آخر میں شاعر کا یہ تجزیہ کہ :​
بند گلی بھی خود میں جانے رستے کتنے رکھتی ہے
ہم دروازے کھوج نہ پائے ، دوش ہے کیا دیواروں کا
کیا یہ تجزیہ بھی اُسی کشمکش اور جہد کا مظہر نہیں جو اس بدلتے ماحول اور سماجی اقدار کی شکست و ریخت میں گھرے ایک حساس دل و دماغ میں پیہم جاری ہے۔ کیا کسی رستے کو بند گلی کہہ دینے سے واقعی رستہ بند ہوجاتا ہے ؟! کیا واقعی اب کوئی راہِ نجات نہیں؟! یہ بند گلی باہر سطحِ زمین پر واقع ہے یا خود ہمارے اپنے ذہن کے اندر موجود ہے؟! یہ شعر نہ صرف ہارتے دل و دماغ کو دعوتِ فکر دے رہا ہے بلکہ ایک امید بھی بندھا رہا ہے ۔ اس پیہم رواں شکست و ریخت سےنبٹنے کا ایک حل بتا رہا ہے ۔ وہ شکست و ریخت اور زوال جو ذاتی سطح پر بھی واقع ہورہا ہے اور سماجی سطح پر بھی ۔ درازے ڈھونڈنا بہت ضروری ہیں ! فرد کی زندگی ہو یا معاشرے کی ، کوئی بھی صورتحال بند گلی نہیں ہوتی ۔ کیا امید افزا بات ہے!!

 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ذوالقرنین بھائی ! پہلے تو آپ کے اس انتخاب کو داد دینی چاہیئے اور پھر آپ کے توسط سے احمد بھائی کو ۔ بہت ہی خوبصورت غزل ہے !!! شاہکار!!!
پچھلے ہفتے میں دو تین بار دور ہی دور سے یہ غزل پڑھی اور سوچ رہا تھا کہ سکون سے بیٹھ کر اس پر لکھوں گا ۔ اس غزل کی ایک عجیب ہی فضا ہے جسے بیان کرنا کم از کم میرے بس سے باہر ہے۔ اتنے سارے اشعار میں ایک عمومی کیفیت اور لفظیات کی مجموعی فضا کو برقرار رکھنا بھی بڑا ہنر ہے اور شاعر کی قادرالکلامی کا ثبوت ۔اگرچہ غزل کی روایت کے عین مطابق ان اشعار میں بظاہر موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے لیکن مضامین کا یہ پھیلاؤ ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکلتا ۔ اکثر اشعار میں بین السطور ملال کی ایک ایسی رو چلتی نظر آتی ہے جو مڑ مڑ کر اپنے ماضی کو دیکھنے اور احساسِ زیاں کی ایک کیفیت سے کشید ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد پھیلے ماحول اور مظاہرِ فطرت کو بطور کینوس استعمال کرتے ہوئے علامات اور استعارات کی مدد سے سے کئی خوبصورت شعر بُنے ہیں احمد بھائی نے ۔

جھڑتی اینٹیں سُرخ بُرادہ کب تک اپنے ساتھ رکھیں
وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیوارں کا
ہائے ہائے ہائے ! وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیواروں کا ! کیا حقیقت نگاری ہے۔ ایک غیر مذکور عمارت کے پس منظر میں جھڑتی اینٹیں اور سرخ برادہ کے استعارات بہت گہرائی رکھتے ہیں ۔ اب اس لمحہ بہ لمحہ ڈھیتی ہوئی عمارت کو ایک فرد کی سطح پر عمارتِ ہستی بھی سمجھا جاسکتا ہے اور وجود و عدم کے حوالے سے دوسرے مصرع کا ظاہری اور سطحی مطلب بھی لیا جاسکتا ہے ۔ لیکن اگر اسے اجتماعی حوالے سے دیکھا جائے تو اس گرتی عمارت سے مراد کہنہ معاشرتی اقدار بھی ہوسکتے ہیں ۔ بلکہ ’’کب تک اپنے ساتھ رکھیں‘‘ کا سوال اس دوسرےمفہوم کو زیادہ واضح کرتا ہے اور اس کشمکش کی طرف بھی اشارہ کرتا ہےجو ان زوال پذیر اقدار و روایات کے درمیان رہتے ہوئے شاعر کے احساسات میں جاری ہے ۔ یعنی یہ شعر ایک انتہائی درجہ کا خوبصورت علامتی شعر ہے جس کی تہیں قاری کے اپنے تجربات اور احساسات کے ہاتھوں کھلتی ہیں ۔ اور مندرجہ ذیل شعر کو بھی میں اسی علامتی شعر کی ایک خاص سمت میں توسیع سمجھتا ہوں ۔​
تیز ہوا نے تنکا تنکا ، آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا​
اس شعر کی بنیاد بھی شکست و ریخت کا وہی احساس ہے جو پہلے شعر میں کارفرما ہے۔ وہی اپنی آنکھوں کے سامنے آشیانہ اجڑنے کا سانحہ اور اپنی بے بسی کا گہرا احساس! تیز ہوا کے مقابل چڑیا کا استعارہ کمزوری ، بے بسی اور بے حیثیتی کا استعارہ ہے۔ چڑیا کب تک اپنے پیاروں کا سوچتی رہے گی؟! کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ بس تند ہوا کے مقابل اس کی اپنی ذاتی بقا کا سوال بھی اٹھنے والا ہے ۔ ایسے میں یہ دوسرا مصرع ’’ گم صم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا‘‘ کس کرب کی منظرکشی کررہا ہے !!! کیا یہ ننھا مظلوم پرندہ شاعر کےاندر بسنے والا وہ پنکھی ہے جو نہ صرف مجبور و مقید ہے بلکہ اپنے حفاظتی حصار کو تنکا تنکا بکھرتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہے؟! یا پھر یہ وہی معاشرتی شکست و ریخت کا نوحہ ہے ؟!! خاندان اور رشتوں کے تانے بانے بکھرتے جارہے ہیں ، گھر ٹوٹ رہے ہیں اور ہر چڑیا اپنے پیاروں کے لئے فکرمند ہے؟!! اس شعر کی تفہیم بھی ذاتی مشاہدات اور واردات کی رو سے ہوگی ۔

اور آخر میں شاعر کا یہ تجزیہ کہ :​
بند گلی بھی خود میں جانے رستے کتنے رکھتی ہے
ہم دروازے کھوج نہ پائے ، دوش ہے کیا دیواروں کا
کیا یہ تجزیہ بھی اُسی کشمکش اور جہد کا مظہر نہیں جو اس بدلتے ماحول اور سماجی اقدار کی شکست و ریخت میں گھرے ایک حساس دل و دماغ میں پیہم جاری ہے۔ کیا کسی رستے کو بند گلی کہہ دینے سے واقعی رستہ بند ہوجاتا ہے ؟! کیا واقعی اب کوئی راہِ نجات نہیں؟! یہ بند گلی باہر سطحِ زمین پر واقع ہے یا خود ہمارے اپنے ذہن کے اندر موجود ہے؟! یہ شعر نہ صرف ہارتے دل و دماغ کو دعوتِ فکر دے رہا ہے بلکہ ایک امید بھی بندھا رہا ہے ۔ اس پیہم رواں شکست و ریخت سےنبٹنے کا ایک حل بتا رہا ہے ۔ وہ شکست و ریخت اور زوال جو ذاتی سطح پر بھی واقع ہورہا ہے اور سماجی سطح پر بھی ۔ درازے ڈھونڈنا بہت ضروری ہیں ! فرد کی زندگی ہو یا معاشرے کی ، کوئی بھی صورتحال بند گلی نہیں ہوتی ۔ کیا امید افزا بات ہے!!

کیا ہی زبردست تجزیہ کیا ہے۔۔۔ اعلیٰ ۔۔۔ اشعار کا لطف دوبالا ہوگیا ہے۔
 
کاش سروں کی بھی قیمت ہو دستاروں کے میلے میں
کاش وفا بھی جنسِ گراں ہو طور تِرے بازاروں کا
واہ واہ بہت اعلی لاجواب غزل ہے احمد میاں کی .
جیتے رہیں :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ذوالقرنین بھائی ! پہلے تو آپ کے اس انتخاب کو داد دینی چاہیئے اور پھر آپ کے توسط سے احمد بھائی کو ۔ بہت ہی خوبصورت غزل ہے !!! شاہکار!!!
پچھلے ہفتے میں دو تین بار دور ہی دور سے یہ غزل پڑھی اور سوچ رہا تھا کہ سکون سے بیٹھ کر اس پر لکھوں گا ۔ اس غزل کی ایک عجیب ہی فضا ہے جسے بیان کرنا کم از کم میرے بس سے باہر ہے۔ اتنے سارے اشعار میں ایک عمومی کیفیت اور لفظیات کی مجموعی فضا کو برقرار رکھنا بھی بڑا ہنر ہے اور شاعر کی قادرالکلامی کا ثبوت ۔اگرچہ غزل کی روایت کے عین مطابق ان اشعار میں بظاہر موضوعات کا تنوع نظر آتا ہے لیکن مضامین کا یہ پھیلاؤ ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکلتا ۔ اکثر اشعار میں بین السطور ملال کی ایک ایسی رو چلتی نظر آتی ہے جو مڑ مڑ کر اپنے ماضی کو دیکھنے اور احساسِ زیاں کی ایک کیفیت سے کشید ہوتی ہے۔ اپنے ارد گرد پھیلے ماحول اور مظاہرِ فطرت کو بطور کینوس استعمال کرتے ہوئے علامات اور استعارات کی مدد سے سے کئی خوبصورت شعر بُنے ہیں احمد بھائی نے ۔

جھڑتی اینٹیں سُرخ بُرادہ کب تک اپنے ساتھ رکھیں
وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیوارں کا
ہائے ہائے ہائے ! وقت چھتوں کو چاٹ رہا ہے ، دشمن ہے دیواروں کا ! کیا حقیقت نگاری ہے۔ ایک غیر مذکور عمارت کے پس منظر میں جھڑتی اینٹیں اور سرخ برادہ کے استعارات بہت گہرائی رکھتے ہیں ۔ اب اس لمحہ بہ لمحہ ڈھیتی ہوئی عمارت کو ایک فرد کی سطح پر عمارتِ ہستی بھی سمجھا جاسکتا ہے اور وجود و عدم کے حوالے سے دوسرے مصرع کا ظاہری اور سطحی مطلب بھی لیا جاسکتا ہے ۔ لیکن اگر اسے اجتماعی حوالے سے دیکھا جائے تو اس گرتی عمارت سے مراد کہنہ معاشرتی اقدار بھی ہوسکتے ہیں ۔ بلکہ ’’کب تک اپنے ساتھ رکھیں‘‘ کا سوال اس دوسرےمفہوم کو زیادہ واضح کرتا ہے اور اس کشمکش کی طرف بھی اشارہ کرتا ہےجو ان زوال پذیر اقدار و روایات کے درمیان رہتے ہوئے شاعر کے احساسات میں جاری ہے ۔ یعنی یہ شعر ایک انتہائی درجہ کا خوبصورت علامتی شعر ہے جس کی تہیں قاری کے اپنے تجربات اور احساسات کے ہاتھوں کھلتی ہیں ۔ اور مندرجہ ذیل شعر کو بھی میں اسی علامتی شعر کی ایک خاص سمت میں توسیع سمجھتا ہوں ۔​
تیز ہوا نے تنکا تنکا ، آنگن آنگن دان کیا
گم صُم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا​
اس شعر کی بنیاد بھی شکست و ریخت کا وہی احساس ہے جو پہلے شعر میں کارفرما ہے۔ وہی اپنی آنکھوں کے سامنے آشیانہ اجڑنے کا سانحہ اور اپنی بے بسی کا گہرا احساس! تیز ہوا کے مقابل چڑیا کا استعارہ کمزوری ، بے بسی اور بے حیثیتی کا استعارہ ہے۔ چڑیا کب تک اپنے پیاروں کا سوچتی رہے گی؟! کچھ ہی دیر کی بات ہے کہ بس تند ہوا کے مقابل اس کی اپنی ذاتی بقا کا سوال بھی اٹھنے والا ہے ۔ ایسے میں یہ دوسرا مصرع ’’ گم صم چڑیا طاق میں بیٹھی سوچ رہی ہے پیاروں کا‘‘ کس کرب کی منظرکشی کررہا ہے !!! کیا یہ ننھا مظلوم پرندہ شاعر کےاندر بسنے والا وہ پنکھی ہے جو نہ صرف مجبور و مقید ہے بلکہ اپنے حفاظتی حصار کو تنکا تنکا بکھرتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہے؟! یا پھر یہ وہی معاشرتی شکست و ریخت کا نوحہ ہے ؟!! خاندان اور رشتوں کے تانے بانے بکھرتے جارہے ہیں ، گھر ٹوٹ رہے ہیں اور ہر چڑیا اپنے پیاروں کے لئے فکرمند ہے؟!! اس شعر کی تفہیم بھی ذاتی مشاہدات اور واردات کی رو سے ہوگی ۔

اور آخر میں شاعر کا یہ تجزیہ کہ :​
بند گلی بھی خود میں جانے رستے کتنے رکھتی ہے
ہم دروازے کھوج نہ پائے ، دوش ہے کیا دیواروں کا
کیا یہ تجزیہ بھی اُسی کشمکش اور جہد کا مظہر نہیں جو اس بدلتے ماحول اور سماجی اقدار کی شکست و ریخت میں گھرے ایک حساس دل و دماغ میں پیہم جاری ہے۔ کیا کسی رستے کو بند گلی کہہ دینے سے واقعی رستہ بند ہوجاتا ہے ؟! کیا واقعی اب کوئی راہِ نجات نہیں؟! یہ بند گلی باہر سطحِ زمین پر واقع ہے یا خود ہمارے اپنے ذہن کے اندر موجود ہے؟! یہ شعر نہ صرف ہارتے دل و دماغ کو دعوتِ فکر دے رہا ہے بلکہ ایک امید بھی بندھا رہا ہے ۔ اس پیہم رواں شکست و ریخت سےنبٹنے کا ایک حل بتا رہا ہے ۔ وہ شکست و ریخت اور زوال جو ذاتی سطح پر بھی واقع ہورہا ہے اور سماجی سطح پر بھی ۔ درازے ڈھونڈنا بہت ضروری ہیں ! فرد کی زندگی ہو یا معاشرے کی ، کوئی بھی صورتحال بند گلی نہیں ہوتی ۔ کیا امید افزا بات ہے!!

خوبصورت تبصرہ!

ممنون و متشکرم!
 
Top