ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کردینے والا لطیفہ

انگلینڈ کے بادشاہ جارج پنجم کو بچوں سے بڑی محبت تھی۔ ایک مرتبہ اس کی سواری دریائے ٹیمز کے پاس سے گزر رہی تھی کہ اس نے ایک چھوٹے سے بچے کو کاپی پہ جھکے دیکھا۔ سواری کو رُکوا کر بادشاہ نیچے اترا اور بچے کے پاس جا کر پوچھا۔
’’کیا کر رہے ہو؟‘‘
بچے نے کہا: ’’سوال حل کر رہا ہوں۔‘‘
بادشاہ مسکرایا اور بچے کی کاپی لے کر سوال حل کر دیا اور پھر اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ہنستے ہوئے گزر گیا۔
چند ماہ بعد جارج پنجم کا دوبارہ ادھر سے گزر ہوا تو دیکھا کہ وہی بچہ کاپی پر سر جھکا کر سوال کر رہا تھا۔ بادشاہ سواری سے اتر کر اس کے پاس آیا اور پوچھا۔
’’ کیا سوال مشکل ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ بچے نے جواب دیا۔
’’لاؤ، میں حل کردوں۔‘‘
’’نہیں۔ ‘‘ بچے نے کاپی فوراً پشت کی جانب کرلی۔ پچھلی مرتبہ تم نے جو سوال حل کیا تھا وہ بالکل غلط تھا اور سزا میں مجھے ایک گھنٹے تک کونے میں کھڑا ہونا پڑا تھا۔‘‘
 
ایک عربی باتھ روم میں فون پر بات کر رہا تھا
پٹھان نے سُنا تو عربی کو بہت مارا
لوگوں نے مارنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا
یہ پاگل اندر تلاوت کر رہا تھا...
 

شمشاد

لائبریرین
بھولے بڑے بھائی نے اپنے نوجوان چھوٹے بھائی کو آواز دی:
’’چھوٹو! نیچے آجاؤ ! اتنی رات گئے تک چھت پر کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’بھائی جان! چاند دیکھ رہا ہوں۔‘‘ چھوٹے بھائی نے جواب دیا۔
’چھوٹو!بہت دیر ہوگئی ہے۔ تم بھی نیچے آجاؤ اور چاند سے بھی کہو اپنے گھر چلا جائے۔“
چاند سے بھی کہو اپنے گھر چلی جائے۔​
 
ننھے پپو نے اپنے ابا سے پوچھا " ابا ! انسان کہاں سے آئے ہیں؟"
ابا نے کہا " بیٹا ! اللہ نے آدم اور حوا کو پیدا کیا اور یوں ان سے انسان پیدا ہونے شروع ہوگئے"
ننھا پپو جواب سن کر دوسرے کمرے میں اپنی اماں کے پاس گیا اور یہی سوال دہرایا
" اماں ! انسان کہاں سے آئے ہیں ؟"#
پڑھی لکھی ماں نے جواب دیا " بیٹا ! ڈارون کی تھیوری کے مطابق بندر کی اولاد بگڑتے سنورتے انسان بن گئی "
ننھا پپو دو مختلف جوابات سے بہت پریشان ہوا ۔۔۔ واپس ابا کے پاس آیا اور ماں سے ملنے والا جواب بتایا اور اپنی کنفیوژن بھی بتائی ۔
ابا مسکرا کے بولا :#" بیٹا ! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم دونوں کو اپنے اپنے آباؤاجداد کی معلومات ہیں"
 
ایک انگریز کو پنجابی سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ کسی نے اسے بتایا کہ 36 چک کے قدیم بزرگ پنجابی کی تعلیم دیتے ہیں۔
ایک دن انگریز نے بس پر سوار ہو کر 36 چک کی راہ لی۔ بس نے اسے جس جگہ اتارا 36 چک وہاں سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا۔ انگریز بس سے اتر کر 36 چک کی طرف چل پڑا۔
تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس نے ایک کسان کو فصل کاٹ کر اس کے گٹھے بناتے دیکھا۔
انگریز نے پوچھا: oh man تم یہ کیا کرتا؟
کسان نے جواب دیا: گورا صاب! ہم فصل وٹتا۔
انگریز بولا: oh man تم crop کرنا کو what بولتا
انگریز آگے چل دیا۔ آگے ایک شخص وان وٹ رہا تھا۔
انگریز نے پوچھا: oh man تم یہ کیا کرتا؟
اس آدمی نے جواب دیا: گورا صاب! ہم وان وٹتا۔
انگریز بولا: oh man تم twist کرنا کو what بولتا۔
انگریز اس شخص کو چھوڑ کر آگے چلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک دکاندار اداس بیٹھا ہے۔
انگریز نے پوچھا: oh man تم اداس کیوں بیٹھا؟
دکاندار بولا: گورا صاب! سویر دا کج وی نئیں وٹیا۔
انگریز بولا: oh man تم earning کو what بولتا۔
انگریز اسے چھوڑ کر کچھ اور آگے چلا تو ایک شخص کو دیکھا جو پریشانی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
انگریز نے پوچھا: oh man کیا ہوا؟
وہ شخص بولا: گورا صاب اج بڑا وٹ ہے۔
انگریز بولا: oh man تم humidity کو what بولتا۔
انگریز اسے چھوڑ کر آگے چلا۔ سامنے چودھری کا بیٹا کلف لگے کپڑے پہنے چلا آ رہا تھا۔ انگریز اس سے گلے ملنے کے لئے آگے بڑھا۔
وہ لڑکا بولا: گورا صاب! ذرا آرام نال، کپڑیاں نوں وٹ ناں پا دینا۔
انگریز بولا: oh man تم wrinkles کو what بولتا۔
کچھ آگے جا کر انگریز کو ایک شخص پریشانی کے عالم میں لوٹا پکڑے کھیتوں کی طرف بھاگتا ہوا نظر آیا۔
انگریز نے کہا: oh man ذرا بات تو سنو۔
وہ شخص بولا: گورا صاب واپس آ کر سنتا ہوں، بڑے زور کا وٹ پیا ہے۔
انگریز بولا: oh man تم loose motion کو what بولتا۔
تھوڑا آگے جانے پر انگریز کو ایک بزرگ حقہ پکڑے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔
قریب آنے پر انگریز نے پوچھا: oh man یہ 36 چک کتنی دور ہے؟
وہ بولا: وٹو وٹ ٹری جاؤ، زیادہ دور نئیں ہے۔
انگریز بولا: oh man تم path کو what بولتا۔
آگے چلا تو کیا دیکھا کہ دو آدمی آپس میں بری طرح لڑ رہے ہیں۔
گورا لڑائی چھڑانے کے لئے آگے بڑھا تو ان میں سے ایک بولا: گورا صاب تسی وچ نہ آؤ میں اج ایدھے سارے وٹ کڈ دیاں گا۔
انگریز بولا oh man تم immorality کو what بولتا۔
انگریز نے لڑائی بند کرانے کی غرض سے دوسرے آدمی کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بولا: او جان دیو بادشاؤ، مینوں تے آپ ایدھے تے بڑا وٹ اے۔
انگریز بولا: oh man تم mercilessness کو what بولتا۔
قریب ایک آدمی کھڑا لڑائی دیکھ رہا تھا۔
وہ بولا: گورا صاب! تسی اینوں لڑن دیو ایدھے نال پنگا لتا تے تہانوں وی وٹ کے چپیڑ کڈ مارے گا۔
انگریز بولا: oh man تم fighting کو what بولتا۔
لاچار انگریز آگے چل دیا۔ تھوڑی دور گیا تو کیا دیکھا کہ ایک شخص گم سم بیٹھا ہے۔
انگریز نے پوچھا: یہ آدمی کس سوچ میں ڈوبا ہے؟
جواب ملا: گورا صاب! یہ بڑا میسنا ہے، یہ دڑ وٹ کے بیٹھا ہے۔
انگریز بولا: oh man تم silent کو what بولتا۔
بالآخر انگریز نے یہ کہتے ہوئے واپسی کی راہ لی:
what a comprehensive language, I cant learn it
 

قیصرانی

لائبریرین
ڈاکٹر واٹسن اور شرلاک ہومز سیر پر گئے۔ جنگل میں خیمہ لگا کر سو گئے۔ آدھی رات کو شرلاک ہومز نے ڈاکٹر واٹسن کو جگایا اور کہا کہ اوپر دیکھو، کیا دکھائی دیتا ہے۔
ڈاکٹر واٹسن نے نیند بھری آواز میں کہا کہ آسمان ہے بھئی، ستارے دکھائی دے رہے ہیں۔
شرلاک ہومز: اچھا۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟
ڈاکٹر واٹسن (غنودگی میں): سنا ہے کہ یہ ہماری کہکشاں ہے جو پٹی کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے
شرلاک ہومز: پھر؟
ڈاکٹر واٹسن جو اب کچھ ہوشیار ہو چکا تھا، بولا: سنا ہے کہ ہماری کہکشاں میں سو سے چار سو ارب ستارے ہیں۔ ہر ستارے کے ساتھ کئی کئی سیارے ہونا بھی ممکن ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان میں سے بہت سارے سیاروں پر زندگی بھی موجود ہو۔ وہاں کے لوگ شاید دوربین لگائے اس وقت ہمیں دیکھ رہے ہوں۔ پتہ ہے کہ اس جیسی کل کتنی کائناتیں ہیں؟ شاید سو ارب
شرلاک ہومز: اچھا پھر؟
ڈاکٹر واٹسن دلچسپی سے بولا: ہو سکتا ہے کہ وہاں بھی ارتقاء کے مرحلے ایسے ہی ہوئے ہوں جیسا کہ زمین پر۔ عین ممکن ہے کہ وہاں بھی انسان بستے ہوں۔ کیا خیال ہے کہ دوسرے سیاروں پر بھی زندگی ممکن ہے؟
شرلاک ہومز: ممکن تو ہے۔ اچھا پھر؟
ڈاکٹر واٹسن: مجھے بھی فلکیات سے بہت شغف ہے۔ ستارہ شناسی بھی کر لیتا ہوں۔ اس کے علاوہ پورے 34 سپرنووا بھی میں نے اپنی آنکھوں سے پھٹتے دیکھے ہیں
شرلاک ہومز: پھر؟
ڈاکٹر واٹسن: پھر کیا؟
شرلاک ہومز: ابے گدھے پھر یہ کہ چور ہمارا خیمہ چرا کر لے گئے ہیں

اس لطیفے کو نیٹ پر دنیا کے دوسرے مزاحیہ ترین لطیفے کے طور پر دیکھا اور کچھ اپنی طرف سے اضافہ کیا
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
نئی تحقیق
سردار سائینٹسٹ (Scientist) نے ایک مکھی کے پر کاٹ دئیے اور کہا
اُڑ جا،،،،،،!
مکھی نہیں اُڑی!
سردار نے لکھا: کہ تجربہ سے ثابت ہوا کہ اگر مکھی کے پَر کاٹ دیئے جائیں تو
وہ سُن نہیں سکتی!:rollingonthefloor:
عینی ! میری بہن ! آپ نے شرط نمبر :1 کی پابندی نہیں کی۔
پتا نہیں آپ کے ملک میں سردار کسے کہتے ہیں۔
اِدھر اِنڈیا میں تو سِکھ مذہب کو ماننے والی پوری قوم سردار کہلاتی ہے۔
بس آئندہ خیال رکھیے گا۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
مولوی صاحب دِن بھر کی بھاگ دوڑ سے فرصت پا کر گھر لوٹے تو بیوی نے کہا،
آج میں نے بڑی حیرت انگیز بات دیکھی
مولوی صاحب : وہ کیا؟
بیوی: میں نے دیکھا ، ایک مولوی صاحب آسمان پر اُڑے چلے جا رہے تھے۔
مولوی صاحب : بیوی! ذرا پہچاننے کی کوشش تو کرو، وہ میں ہی تو تھا۔
بیوٰی: جبھی! اتنا ٹیڑھے ٹیڑھے اُڑ رہے تھے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
شوہر کو دفتر جانے کی دیری ہو رہی تھی۔ بڑی عجلت میں جیسے تیسے تیاری کر کے وہ گھر سے دفتر جانے کے لیے نکلا۔
دوسری منزل سے اُتر کر جب نیچے پہنچا تو اُسے یاد آیاکہ وہ اپنا دستی رومال اورعینک تو اوپر ہی بھول گیا ہے۔
چونکہ کافی دیر ہو چکی تھی لہٰذا اُس نے مناسب سمجھا کہ نیچے سے ہی بیوی کو پکار کر مانگ لے۔
لہذا اس نے چلا کر بیوی سے دونوں چیزیں طلب کیں۔ بیوی گھبرائی ہوئی دونوں چیزیں لے کر آئی۔
اس نے اِشارے سے کہا دے دو۔ بیوی نے جلدی میں عینک اُچھال دی،
شوہر سے کیچ مِس ہوگیا اور بیچارے کی عینک گری اور گر کر چکنا چور ہو گئی۔
اب بیوی جب رومال بھی دینے لگی، تو اس نے چلا کر کہا رہنے دے رہنے دے،میں اوپر آکر لے جاتا ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دفعہ کیا ہوا کہ فیکا اپنی گدھا گاڑی لیکر صبح صبح روزی کمانے نکلا۔ راستے میں بخشو مل گیا جسے گدھا گاڑی کی ضرورت تھی۔ دونوں میں سودا طے ہو گیا۔ فیکے نے شارٹ کٹ مارتے ہوئے اپنی گدھا گاڑی کو برساتی نالے والے راستے پر ڈال دیا۔ آگے ایک چھوٹی سے پُلیا تھی جس کے نیچے سے گزرنا تھا۔ فیکا جونہی پُلیا کے نیچے سے گدھا گاڑی گزارنے لگا، کہ گدھے کے کان پُلیا سے ٹکرائے۔ فیکے نے ادھر ہی گدھا گاڑی روکی اور اپنے تھلے سے ہتھوڑی اور چھینی نکال کر پُلیا کو اوپر سے چھیلنے لگا۔ بخشو بھی اس کام میں اس کی مدد کرنے لگا۔

ابھی وہ اس کام مصروف تھے کہ کپٹن قیصرانی اپنی پھٹ پھٹی پر راستے کو مختصر کرتے ہوئے ادھر سے گزرے۔ انہوں نے دو بندوں کو پُلیا کو نقصان پہنچاتے دیکھا تو اپنی پھٹ پھٹی روک کر ان کے پاس آئے اور ڈانٹ کر پوچھا کہ وہ پُلیا کو کیوں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

فیکا بولا، وہ جی کیا ہے کہ میرا گدھا اس پُلیا کے نیچے سے گزر نہیں سکتا، اس لیے ہم اس کو بڑا کر رہے ہیں۔

کپٹن قیصرانی نے کہا، بیوقوفو، اوپر سے پُلیا توڑنے کی بجائے نیچے سے زمین کھودو۔

فیکا بولا، مائی باپ گدھے کے پاؤں تھوڑا ہی ناں پھنس رہے ہیں جو ہم زمین کھودیں، وہ تو گدھے کے کان پھنس رہے ہیں، اس لیے اوپر سے توڑ رہے ہیں۔
 

عاطف بٹ

محفلین
فوج میں مشہور ہے کہ اگر آپ کا افسر کوئی لطیفہ سنائے تو آپ سمجھیں یا نہ سمجھیں، ہنسنا آپ پر فرض ہے۔ ایک دفعہ ایک جرنیل صاحب نے ایک میٹنگ میں لطیفہ سنایا۔ ایک سوا تمام حاضرین نے فرمائشی قہقہہ لگایا۔ جو صاحب نہیں ہنسے تھے جب ان کی ایکسپلینیشن کال کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ چونکہ وہ ان جنرل صاحب کی یونٹ سے نہیں، اس لئے نہیں ہنسے۔ ;)
بشکریہ فرحت کیانی
 

عمراعظم

محفلین
ایک خاتون کا اعلان۔
کمسن ہوں ابھی عمر بھی پچاس نہیں ہے
روکے نہ رکوں کوئی وسواس نہیں ہے
سچ کہتی ہوں عادات بدلنا بہت دشوار
شوہر سے جھگڑ لیتی ہو ں گھر ساس نہیں ہے
 

منصور مکرم

محفلین
نئی تحقیق

سردار سائینٹسٹ (Scientist) نے ایک مکھی کے پر کاٹ دئیے اور کہا
اُڑ جا،،،،،،!
مکھی نہیں اُڑی!
سردار نے لکھا: کہ تجربہ سے ثابت ہوا کہ اگر مکھی کے پَر کاٹ دیئے جائیں تو
وہ سُن نہیں سکتی!:rollingonthefloor:
اعتراض
قانون یہ بنایا گیا تھا کہ کسی قوم کا مذاق نہیں اڑایا جائے گا ۔
لیکن یہاں تو صاف سکھ قوم کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
 

منصور مکرم

محفلین
ایک بندہ گھر کے لیے ایک جدید روبوٹ لاتا ہے جو اور بہت سے کام کرنے کے علاوہ جھوٹ بولنے والے کو پٹاخ سے ایک تھپڑ بھی مارتا ہے۔
صبح کا وقت
بیٹا: ڈیڈی آج میں سکول نہیں جاؤں گا میرے پیٹ میں درد ہے ۔
پٹاخ خ خ خ
باپ : ہاہاہا دیکھا بیٹا تم نے جھوٹ بولا تو تمہیں روبوٹ نے تھپڑ لگایا آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولنا۔ میں جب بچہ تھا تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا۔
پٹاخ خ خ خ خ خ خ
ماں: ہاہاہاہا دیکھا منے کے ابا! آپ کا ہی بیٹا ہے جھوٹ کیسے نہ بولے۔!!!!
پٹاخ خ خ خ خ خ خ خ خ خ خ خ

اعتراض ۔۔۔
اخلاقی گراوٹ والا لطیفہ
 

منصور مکرم

محفلین
ایک شہر میں 6 منزلہ “شوہر شاپنگ مال“ کا افتتاح ہوا۔
پورے شہر میں دھوم مچ گئی۔ ایک عورت شوہر خریدنے جا پہنچی۔ استقبالیہ پر درج تھا: ”ہر منزل پر مختلف خصوصیات کے شوہر دستیاب ہیں، لیکن ایک منزل سے اگلی منزل پر جانے کے بعد واپس کسی منزل پر آنا ممکن نہیں۔ صرف باہر جانے کا راستہ مل سکتا ہے۔“
عورت پہلی منزل پر پہنچی۔ شوہر کی مندرجہ ذیل خصوصیات درج تھیں:
”یہ حضرات کام (جاب) کرتے ہیں اور خدا سے ڈرتے ہیں۔“
عورت دوسری منزل پر پہنچی تو درج تھا:
”یہ حضرات جاب کرتے ہیں۔ خدا سے ڈرتے ہیں اور بچوں سے محبت کرتے ہیں۔“
عورت تجسس میں ڈوبتی تیسری منزل پر چلی گئی جہاں لکھا تھا:
”یہ حضرات جاب کرتے، خدا سے ڈرتے، بچوں سے محبت کرتے اور بہت خوش شکل ہیں۔“
عورت بہتر سے بہترین کی تلاش میں چوتھی منزل پر گئی جہاں لکھا تھا:
”یہ حضرات جاب کرتے، خدا سے ڈرتے، بچوں سے محبت کرتے، بہت خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں عورت کا ہاتھ بٹانے والے ہیں۔“
عورت نے ایک لمحے کے لیے یہاں سے شوہر خریدنے کا سوچا، لیکن اگلے لمحے مزید کی خواہش لے کر پانچویں منزل پر گئی جہاں درج تھا:
”یہ حضرات جاب کرتے، خدا سے ڈرتے، بچوں سے محبت کرتے، بہت خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج میں عورت کا ہاتھ بٹانے والے اور اپنی بیوی سے دیانتداری سے محبت کرتے ہیں۔“
عورت کو محسوس ہوا کہ ایسا شوہر ہی اسکی مراد ہے، لیکن دل نہ مانا، چنانچہ اس نے آخری یعنی چھٹی منزل پر جانے کا فیصلہ کیا ۔وہاں پہنچ کر یہ تحریر پڑھنے کو ملی:
”افسوس آپ یہاں پہنچنے والی خاتون نمبر 63،3420 ہیں۔ اس منزل پر کوئی شوہر دستیاب نہیں اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ عورت کو خوش اور مطمئن کرنا نا ممکن ہے۔ یہاں سے صرف واپس جانے کا راستہ ہے۔ براہِ مہربانی قدم سنبھال کر اٹھائیے گا۔ آپکی آمد کا بہت شکریہ!!“
اعتراض

اس میں خاص کر عورت ذات کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ کدھر ہیں حقوق نسواں والے۔
آسانی سے مان جائیں نہیں تو عاصمہ جھانگیر کو بلاتا ہوں۔
 

منصور مکرم

محفلین
پٹھان: شرٹ کے لیے کپڑا دکھاؤ
سیلزمین: پلین میں دکھاؤں سر.؟
پٹھان: نہیں ہیلی کاپٹر میں دکھاؤ.خبیث کا بچہ جدھر پٹھان دیکھا مزاق شروع.......
ہاہاہاہاہہاہاہاہاہہاہااہہا:laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh::laugh:

ویسے ہے قابل اعتراض
پشتون قوم کا مذاق اڑایا گیا ہے۔
 
Top