کاشفی

محفلین
غزل
(اعجاز صدیقی، فرزند سیماب اکبر آبادی)
گہرے کچھ اور ہوکے رہے زندگی کے زخم
خود آدمی نے چھیل دیئے آدمی کے زخم

پھر بھی نہ مطمئن ہوئی تہذیبِ آستاں
ہم نے جبیں پہ ڈال دیئے بندگی کے زخم

پھر سے سجا رہے ہیں اندھیروں کی انجمن
وہ تیرہ بخت جن کو ملے روشنی کے زخم

قحطِ وفا میں کاش کبھی یوں بھی ہوسکے
اک اجنبی کا ہاتھ ہو اور اجنبی کے زخم

اک تم نے کیا دیا ہے! فریبِ تعلقات
اعجاز کھا چکا ہے بہت دوستی کے زخم
 
Top