کچھ اور ابھی ناز اٹھانے ہیں تمہارے ۔۔۔۔ ظفر اقبال

نوید صادق

محفلین
غزل

کچھ اور ابھی ناز اٹھانے ہیں تمہارے
دنیا یہ تمہاری ہے، زمانے ہیں تمہارے

باتیں ہیں تمہاری جو بہانے ہیں تمہارے
اسلوب تو یہ خاص پرانے ہیں تمہارے

ویرانہء دل سے تمہیں ڈر بھی نہیں لگتا
حیرت ہے کہ ایسے بھی ٹھکانے ہیں تمہارے

گھٹتی نہیں کیونکر یہ زر و مال کی خواہش
تم پاس ہو اور دور خزانے ہیں تمہارے

کرنی ہے اندھیرے میں ابھی ایک ملاقات
سارے یہ دییے ہم نے بجھانے ہیں تمہارے

لرزا نہیں جن میں کسی لمحے بھی کوئی عکس
ایسے بھی کئ آئنہ خانے ہیں تمہارے

آنا ہے بہت دور سے ہم نے تری جانب
اور، باغ یہیں چھوڑ کے جانے ہیں تمہارے

ہر وقت یہاں خاک ہی اڑتی ہے شب و روز
دریا انہی صحراؤں میں لانے ہیں تمہارے

ہوتا، ظفر، ان میں جو کوئی رنگِ حقیقت
ویسے تو سبھی خواب سہانے ہیں تمہارے

(ظفر اقبال)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ : ماہنامہ بیاض:فروری 2009ء
 

عین عین

لائبریرین
سارے یہ دییے ہم نے بجھانے ہیں تمہارے

آنا ہے بہت دور سے ہم نے تری جانب


ان دونوں‌مصرعوں میں‌ ہم کے ساتھ نے بہت عجیب ہے۔۔۔۔ ہمیں یا ہم کو ہی بہتر تھا بہرحال ظفر صاحب کا یہی حال ہے۔ شاید اسی لیے انھیں‌ڈفر بھی کہا گیا ہے
 

نوید صادق

محفلین
سارے یہ دییے ہم نے بجھانے ہیں تمہارے

آنا ہے بہت دور سے ہم نے تری جانب


ان دونوں‌مصرعوں میں‌ ہم کے ساتھ نے بہت عجیب ہے۔۔۔۔ ہمیں یا ہم کو ہی بہتر تھا بہرحال ظفر صاحب کا یہی حال ہے۔ شاید اسی لیے انھیں‌ڈفر بھی کہا گیا ہے
بھائی
اگر آپ تھوڑی روشنی ڈال دیں کہ ہم نے کیوں ٹھیک نہیں تو زیادہ اچھا ہو کہ ہمیں بھی کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔
زبان کا مسئلہ ہے کہ صرف و نحو کا
ذرا واضح کیجئے گا۔
 

مغزل

محفلین
سارے یہ دییے ہم نے بجھانے ہیں تمہارے
آنا ہے بہت دور سے ہم نے تری جانب
ان دونوں‌مصرعوں میں‌ ہم کے ساتھ نے بہت عجیب ہے۔۔۔۔

ہمیں یا ہم کو ہی بہتر تھا بہرحال ظفر صاحب کا یہی حال ہے۔ شاید اسی لیے انھیں‌ڈفر بھی کہا گیا ہے
---------------------------------------------------------------
عارف عزیز صاحب ، میر ا بھی یہی سوال ہے آپ سے ۔ :confused:
محض سنی سنائی پر ایمان لے آنا ۔ عرفیت (عارف سے) نہیں ۔ نام ہی کی لاج رکھ لیجیے۔ :noxxx:
یہ جو آپ نے ’’ نے ‘‘ اعتراض کیا ہے ، یہ زبان کا استعمال ہے ۔ :notlistening:

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

(غالب )
------------------------------------
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبّت کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی
(صوفی غلام مصطفےٰ تبسم)
--------------------------------
خون دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔
-----------------------------------------
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
(علامہ محمد اقبال) از :ابلیس کی مجلس شوری
-----------------------------------------------------
عزیز صاحب اب کیا کہتے ہیں آپ ؟؟
 

مغزل

محفلین
عارف صاحب۔ واضح کردوں کہ ’’ ہم ‘‘ جمع کا صیغہ بھی ہے اور فرد اپنی ذات کیلیے بھی ’’ ہم ‘‘ استعمال کرسکتا ہے ، یعنی یہ جمع متکلم بھی ہے اور واحد متکلم کیلیے بھی۔
میرو غالب سے انشاء اور پھر متاخرین تک سبھی نے ’’ ہم‘‘ کو اپنی ذات کیلیے بھی استعمال کیا ہے ۔ چاہے کلام ِ‌منظوم ہو یا نثر۔

ہَم [ہَم] (ہندی)
ہندی زبان سے اسم ضمیر ہے صیغہ جمع متکلم ہے۔
ضمیر شخصی ( واحد، جمع - متکلم )
حالت: فاعلی
مفعولی حالت: ہمیں [ہَمیں (ی مجہول)]
اضافی حالت: ہمارا [ہَما + را]
تخصیصی حالت: ہَمیں [ہَمیں]
1. وہ کلمہ جو بات کرنے والا، اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے بطور ضمیر استعمال کرے، نحن، ما
ہم نے کہا تھا۔
ہم خود گئے تھے
2. واحد متکلم کے لیے استعمال ہوتا ہے (تعظیماً) ایسا شخص اپنے لیے استعمال کرتا ہے جس کے اندر احساسِ تفاخر ہو اور وہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھے۔
ع ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے ( غالب )
ہم / میں:

وہ کلمہ جس سے اپنی ذات پر اطلاق کیا جاتا ہے، خود، من، آپ۔
"وہی ایک فالتو کمرہ جس میں میں مقیم تھا۔" ( 1989ء، سیاہ آنکھ میں تصویر، 12 )
--------------------------
مَیْں[1] [مَیْں (ی لین)] (ہندی)
ہندی زبان سے اسم ضمیر ہے۔ جو 'خود' کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ترکی زبان میں م مکسور، یائے غیر ملفوظ اور ن ساکن کے ساتھ مستعمل ہے (نوراللغات)
ضمیر شخصی ( واحد - متکلم )
حالت: فاعلی
جمع: ہَم [ہَم]
مفعولی حالت: مُجھ [مُجھ] مُجھے [مُجھے]
اضافی حالت: میرا [مے + را]
تخصیصی حالت: میں ہی [مَیْں + ہی]
1. خود، ایسی ضمیر جو کلام کرنے والا اپنی ذات کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ کلمہ جس سے اپنی ذات پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ مثلاً
 وہ چلا جب میرے گھر سے میں ہی کیا رونے لگا
چھید جو دیوار میں تھا چشم گریاں ہو گیا ( جلال )
--------------------------------------
 

مغزل

محفلین
شاید اسی لیے انھیں‌ڈفر بھی کہا گیا ہے

اب تو آپ پر واضح ہوگیا ہوگا کہ ظفر اور ڈفر میں فرق کیا ہے ۔
جن کے پلے ظفر اقبال کی شاعری نہیں پڑتی وہ ڈفر اقبا ل کہتے ہیں۔
ایک محاورہ ہے ’’ انگور کھٹے ہیں ‘‘ ۔۔ ظفر کو ڈفر کہنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
 

نوید صادق

محفلین
سارے یہ دییے ہم نے بجھانے ہیں تمہارے

آنا ہے بہت دور سے ہم نے تری جانب


ان دونوں‌مصرعوں میں‌ ہم کے ساتھ نے بہت عجیب ہے۔۔۔۔ ہمیں یا ہم کو ہی بہتر تھا بہرحال ظفر صاحب کا یہی حال ہے۔ شاید اسی لیے انھیں‌ڈفر بھی کہا گیا ہے
بھیا!
اب آ کر تسلیم تو کر لیں کہ آپ کا اٹھایا ہوا اعتراض غلط تھا۔ نہیں تو دلیل لائیں۔
 

الف عین

لائبریرین
لاحول ولا۔ ’نے‘ کا غلط استعمال تو مجھے ہمیشہ سے معلوم ہے کہ پنجاب میں کیا جاتا ہے، اور اگر اس پر میں اعتراض کر دوں تو سارے پاکستانی یہاں میرے پیچھے پڑ جائیں گے۔ بہر حال میں نے اس پر اعتراض کرنا چھوڑ دیا ہے۔
محمود تم نے محض ’نے‘ کی مثالیں دی ہیں، یہ سب درست مثالیں ہیں، غلط مثال ہوتی تو محض آج کل کے پنجابی شعرا کی ہوتی (جن کو سند کوئی مانتا بھی نہیں۔)
میں نے یہ کام کیا
درست استعمال ہے
میں نے یہ کام کرنا ہے
غلط ہے۔
عین عین نے درست اصلاح کی ہے۔ ظفر اقبال بھی ‘نے‘ کا اکثر پنجابی استعمال کرتے ہیں۔ زبان پرمقامی اثر ہونا اکثر دیکھا گیا ہے اور میں اس حد تک اس کی اجازت دیتا ہوں کہ مفہوم ہی نہ بدل جائے، یا کوئی سمجھ ہی نہ سکے۔ (میں بھی ’نے‘ کا یہ استعمال پہلے نہیں سمجھتا تھا، جب معلوم ہوا تو سمجھنے لگا ہوں)۔
 

الف عین

لائبریرین
مزید یہ کہ یہ پاکستان کے حوالے سے ہی نہیں کہا جا سکتا۔ ہندوستان کے پنجابی بلکہ دہلی میں بھی اسی طرح کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی دہلی کے غیر اردو داں۔
 

مغزل

محفلین
لاحول ولا۔ ’نے‘ کا غلط استعمال تو مجھے ہمیشہ سے معلوم ہے کہ پنجاب میں کیا جاتا ہے، اور اگر اس پر میں اعتراض کر دوں تو سارے پاکستانی یہاں میرے پیچھے پڑ جائیں گے۔ بہر حال میں نے اس پر اعتراض کرنا چھوڑ دیا ہے۔
محمود تم نے محض ’نے‘ کی مثالیں دی ہیں، یہ سب درست مثالیں ہیں، غلط مثال ہوتی تو محض آج کل کے پنجابی شعرا کی ہوتی (جن کو سند کوئی مانتا بھی نہیں۔)
میں نے یہ کام کیا
درست استعمال ہے
میں نے یہ کام کرنا ہے
غلط ہے۔
عین عین نے درست اصلاح کی ہے۔ ظفر اقبال بھی ‘نے‘ کا اکثر پنجابی استعمال کرتے ہیں۔ زبان پرمقامی اثر ہونا اکثر دیکھا گیا ہے اور میں اس حد تک اس کی اجازت دیتا ہوں کہ مفہوم ہی نہ بدل جائے، یا کوئی سمجھ ہی نہ سکے۔ (میں بھی ’نے‘ کا یہ استعمال پہلے نہیں سمجھتا تھا، جب معلوم ہوا تو سمجھنے لگا ہوں)۔


مزید یہ کہ یہ پاکستان کے حوالے سے ہی نہیں کہا جا سکتا۔ ہندوستان کے پنجابی بلکہ دہلی میں بھی اسی طرح کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی دہلی کے غیر اردو داں۔

بابا جانی میں آپ کے مراسلات کے متن کی سمت نہ سمجھ پایا ۔ کچھ تفصیل سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آیا ’’ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب ۔۔۔۔۔ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا،پایا ‘‘ بھی غلط ہے ۔
میں ’’ اہلِ زباں ‘‘ کے ہاں بھی دیکھتا ہوں ۔ پھر ہی طے کیا جاسکتا ہے کہ اس قبول و رد کا معیار کیا بنتا ہے۔:confused:
 

نوید صادق

محفلین
لاحول ولا۔ ’نے‘ کا غلط استعمال تو مجھے ہمیشہ سے معلوم ہے کہ پنجاب میں کیا جاتا ہے، اور اگر اس پر میں اعتراض کر دوں تو سارے پاکستانی یہاں میرے پیچھے پڑ جائیں گے۔ بہر حال میں نے اس پر اعتراض کرنا چھوڑ دیا ہے۔
محمود تم نے محض ’نے‘ کی مثالیں دی ہیں، یہ سب درست مثالیں ہیں، غلط مثال ہوتی تو محض آج کل کے پنجابی شعرا کی ہوتی (جن کو سند کوئی مانتا بھی نہیں۔)
میں نے یہ کام کیا
درست استعمال ہے
میں نے یہ کام کرنا ہے
غلط ہے۔
عین عین نے درست اصلاح کی ہے۔ ظفر اقبال بھی ‘نے‘ کا اکثر پنجابی استعمال کرتے ہیں۔ زبان پرمقامی اثر ہونا اکثر دیکھا گیا ہے اور میں اس حد تک اس کی اجازت دیتا ہوں کہ مفہوم ہی نہ بدل جائے، یا کوئی سمجھ ہی نہ سکے۔ (میں بھی ’نے‘ کا یہ استعمال پہلے نہیں سمجھتا تھا، جب معلوم ہوا تو سمجھنے لگا ہوں)۔

اعجاز بھائی!
میرے مخاطب آپ نہیں تھے۔ اور آپ کو میرے مزاج کا بھی پتہ ہے۔ میں بڑا کول انسان ہوں۔ غلطی کی طرف اشارہ دینا اور بات ہے۔ میرا اعتراض تو عین عین صاحب والی بات پر تھا کہ " اسی لئے ظفر اقبال کو ڈفر اقبال بھی کہتے ہیں۔"

بہرحال اگر آپ نے محسوس کیا ہے تو میں معافی چاہتا ہوں۔
 

مغزل

محفلین
عین عین صاحب ،
آداب
آپ کا مفصل مراسلہ نظر نواز ہوا ، رسید حاضر ہے ،
بہت بہت شکریہ۔
متن پر میں‌کوئی بات نہ کروں گا۔
کہ میں اپنا نکتہ بیان کرچکا ۔
والسلام
 

عین عین

لائبریرین
آپ تمام لوگوں‌ سے شرمندہ ہوں کہ میں‌ دیکھ نہیں‌ سکا کہ یہاں ‌کیا کچھ میرے سیکھنے کے لیے ہے۔ سند کے طور پر اشعار۔۔۔۔۔۔۔ لغت سے ’’ہم‘‘ کا بیان اور بہت کچھ۔۔
بھائی میرے پاس اتنا وقت نہیں‌کہ میں صرف و نحو، زبان پر بحث‌کروں بلکہ مجھے آتا ہو کچھ تو میں‌ کروں‌ بھی۔۔۔۔۔ لغات یہاں‌ بھی ہیں مگر میں‌انھیں‌ لے کر بیٹھ جائوں‌اور پوری تفصیل یہاں‌ ٹائپ کروں‌ اس کا وقت نہیں‌ہے اور نہ ہی میرے پاس یہاں‌ اصناف سخن کی تفصیلات پر کوئی کتاب ہے جس میں‌ سے ایطائے خفی و جلی، سقم، تجنیس تام، وغیرہ وغیرہ جیسی شرائط نکال کر غزلوں‌ کا آپریشن کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت معذرت ۔ بات یہ ہے کہ

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خون دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔
-----------------------------------------
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

ان اشعار میں‌جو ’ہم نے ‘ استعمال ہوا ہے اس پر غور کریں۔۔۔۔۔۔ اور ان جملوں‌پر بھی

ہم نے کھانا ہے، ہم نے جانا ہے، ہم نے اسے قتل کر دینا ہے

دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں‌کھانا ہے، ہمیں‌جانا ہے/ ہم کو جانا ہے، ہمیں‌اسے قتل کرنا ہے/ ہم کو اسے قتل کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ بھائی سیدھا سا زبان کا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔ یہاں‌ اور بات ہے ۔ جب کہ اشعار میں‌ جو ’ ہم یا ہم نے ‘ استعمال ہوا ہے وہ ’’ہم بڑے ہیں‘ ہم بادشاہ ہیں‘ ہم نے سمجھ لیا ہے، ہم نے بھی یہی سوچا تھا جیسے معنوں‌میں‌ہے۔
اب یہ کہا جائے : ہم نے بادشاہ بننا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آپ سوچ لیں‌کہ کیا صورت ہو گی
ہم نے بھی یہی سوچنا تھا، ہم نے بڑا بن کر دکھانا ہے۔۔۔۔۔۔
میں جانتا کچھ نہیں‌ہوں بس غلطی ہوئی مجھ سے جو یہ بحث‌کر ڈالی مجھے اپنی جہالت کا اندازہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
جون صاحب کے شعر کا مصرعہ ہے ’ ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا‘ یہ بھی درست ہے۔ یہاں‌جو استعمال ہوا ہے ’‌ہم نے ‘ کا وہ اور ہے بھائی۔ جب کہ جناب ظفر اقبال کی غزل میں‌ کچھ اور ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زبان کے طور ہیں کچھ۔ ۔ میں‌مانتا ہوں مگر ایسا نہیں‌کہ آپ غلط کو درست کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مخصوص‌ علاقے کی بولی ہے۔۔۔۔۔ بولنے کا انداز ہے۔ جو درست ہرگز نہیں‌ہے۔۔۔۔۔۔ اور شاعری تو اسے بالکل بھی پسند نہیں‌کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔ شعر تو بہت ہی مرصع اور ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں اگر اس میں‌بھی ایسا انداز اپنایا جائے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔۔۔۔۔کرتے رہیں‌ شاعری۔ اچھا دیکھیے، جیسے ’ جانے کون لوگ‘ ’ نہ جانے کون لوگ‘ یہ بات ہے کہ طور مختلف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے انداز ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں‌ زبان کا استعمال، یعنی علاقائی زبان۔۔۔۔۔مختلف بولیاں۔۔۔۔ مختلف علاقوں‌کے رہنے والوں کا انداز۔۔۔۔ یہ قابل قبول ہے مگر ظفر صاحب والا جسے پسند ہے بھائی اس کی پسند اس کے ساتھ ۔ یہ تو ہے ہی غلط، کہاں‌کی زبان ہے؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ بولا جاتا ہے مگر شاعری کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔۔۔۔۔ ڈھنگ جسے کہہ لیں۔ سلیقہ کہہ لیں۔۔۔۔۔۔ زبردستی خیال باندھیں۔۔۔۔ اور جو بھی لفظ‌ ملے جیسی بھی زبان ہو بس غزل مکمل کرنا ہے۔ واہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان نے، ون نے، کر کے غزلیں‌کہنا شروع کر دیں‌ تو ہو گیا کام، تجھ نے کہنا شروع کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’تجھ نے کرنا تھا یوں‌ اگر دھوکا‘ تو نے یا تم نے نہیں‌ کہتے ۔۔۔۔ کیا خیال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ انداز اپناتے ہیں‌۔ میں‌نے سنا ہے کچھ لوگ ایسے بھی بولتے ہیں۔ کر لیں‌ اسے بھی شامل اپنی لغات میں‌۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی زبان میں‌برتیں شعر میں‌خاص طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں‌نے ناں‌یہ کھانا ہے۔۔۔۔ ’میں‌نے‘ جانا تھا پر ’میں‌ نے‘ سوچا کہ ’میں‌نے‘ وہاں‌ جا کر کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ درست ہے؟ ہے تو پھر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کریں ‌استعمال؟
ان نے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے یہ کیا۔۔۔۔۔۔ ان نے بھی استعمال کر لیا کریں‌ہم اب۔


اشعار پر غور فرمائیں‌۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں‌ ’ ہم نے ‘ کا استعمال مختلف پائیں‌گےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے۔ اگر غور کریں‌تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ان معنوں‌ میں ’ہم نے‘ جو ظفر کے پاس استعمال ہوا ہے، مل جائے تو مجھے بھی بتائیں۔۔۔ ‌ دو چار اشعار سند کے طور پر پیش کیے جائیں‌ ایسے ’ظفری ہم نے ‘ ( اس ہم نے کو میں‌ ظفری ہم نے کہہ رہا ہوں۔ یہ ہم نے ان کا ہوا۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے پاس ہی رکھیں‌تو بہتر ہے) کے تو مہربانی ہو گی۔۔۔ میں‌ انتظار کروں‌؟ یا ضرورت نہیں‌ہے؟ بتا دیجیے۔

آپ سب کا بہت شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفر اقبال زندہ باد

اچھا بھائی ہم ’نے تو‘ جانا ہے۔ آپ ’لوگوں‌نے‘ جانا ہے یا نہیں‌جانا یہ تو آپ ہی جانیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ایک اور جگہ بھی اعتراض‌کیا تھا۔۔۔۔۔۔ ظفر کے ایک مصرعے پر۔۔۔۔۔۔۔ درست یاد نہیں‌رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمممممممممممممممممم
بس یہ تھا کہ ’’ اس کو باز کرنے کے لیے‘ کچھ ایسا تھا۔۔۔۔۔ جب کہ باز رکھنا محاورہ ہے اور محاورے میں‌تبدیلی نہیں‌ہوتی۔۔۔۔۔۔ وہ بھی کسی پوسٹ‌ میں‌ہو گا تلاش کر لیں جس نے غزل پوسٹ‌کی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسے یاد ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ جو خیالَ‌یار میں‌آئے وہ شعر ہو جائے‘‘ واہ کیا کہنے۔ ایسا نہیں‌ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفر کے دیوانو۔۔۔۔ اسے پہچانو۔۔۔۔۔
اور وہ لوگ جو واہ واہ کرتے ہیں،‌ نہیں‌کیجیے گا میرے جواب پر صرف ’واہ وا ‘
ہی کافی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
آپ تمام لوگوں‌ سے شرمندہ ہوں کہ میں‌ دیکھ نہیں‌ سکا کہ یہاں ‌کیا کچھ میرے سیکھنے کے لیے ہے۔ سند کے طور پر اشعار۔۔۔۔۔۔۔ لغت سے ’’ہم‘‘ کا بیان اور بہت کچھ۔۔
بھائی میرے پاس اتنا وقت نہیں‌کہ میں صرف و نحو، زبان پر بحث‌کروں بلکہ مجھے آتا ہو کچھ تو میں‌ کروں‌ بھی۔۔۔۔۔ لغات یہاں‌ بھی ہیں مگر میں‌انھیں‌ لے کر بیٹھ جائوں‌اور پوری تفصیل یہاں‌ ٹائپ کروں‌ اس کا وقت نہیں‌ہے اور نہ ہی میرے پاس یہاں‌ اصناف سخن کی تفصیلات پر کوئی کتاب ہے جس میں‌ سے ایطائے خفی و جلی، سقم، تجنیس تام، وغیرہ وغیرہ جیسی شرائط نکال کر غزلوں‌ کا آپریشن کروں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت معذرت ۔ بات یہ ہے کہ

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خون دل دے کے نکھاریں گے رخِ برگ گلاب
ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔
-----------------------------------------
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر

ان اشعار میں‌جو ’ہم نے ‘ استعمال ہوا ہے اس پر غور کریں۔۔۔۔۔۔ اور ان جملوں‌پر بھی

ہم نے کھانا ہے، ہم نے جانا ہے، ہم نے اسے قتل کر دینا ہے

دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں‌کھانا ہے، ہمیں‌جانا ہے/ ہم کو جانا ہے، ہمیں‌اسے قتل کرنا ہے/ ہم کو اسے قتل کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ بھائی سیدھا سا زبان کا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔ یہاں‌ اور بات ہے ۔ جب کہ اشعار میں‌ جو ’ ہم یا ہم نے ‘ استعمال ہوا ہے وہ ’’ہم بڑے ہیں‘ ہم بادشاہ ہیں‘ ہم نے سمجھ لیا ہے، ہم نے بھی یہی سوچا تھا جیسے معنوں‌میں‌ہے۔
اب یہ کہا جائے : ہم نے بادشاہ بننا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو آپ سوچ لیں‌کہ کیا صورت ہو گی
ہم نے بھی یہی سوچنا تھا، ہم نے بڑا بن کر دکھانا ہے۔۔۔۔۔۔
میں جانتا کچھ نہیں‌ہوں بس غلطی ہوئی مجھ سے جو یہ بحث‌کر ڈالی مجھے اپنی جہالت کا اندازہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
جون صاحب کے شعر کا مصرعہ ہے ’ ہم نے جانا تو ہم نے یہ جانا‘ یہ بھی درست ہے۔ یہاں‌جو استعمال ہوا ہے ’‌ہم نے ‘ کا وہ اور ہے بھائی۔ جب کہ جناب ظفر اقبال کی غزل میں‌ کچھ اور ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زبان کے طور ہیں کچھ۔ ۔ میں‌مانتا ہوں مگر ایسا نہیں‌کہ آپ غلط کو درست کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مخصوص‌ علاقے کی بولی ہے۔۔۔۔۔ بولنے کا انداز ہے۔ جو درست ہرگز نہیں‌ہے۔۔۔۔۔۔ اور شاعری تو اسے بالکل بھی پسند نہیں‌کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔ شعر تو بہت ہی مرصع اور ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں اگر اس میں‌بھی ایسا انداز اپنایا جائے تو پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہنے۔۔۔۔۔۔۔کرتے رہیں‌ شاعری۔ اچھا دیکھیے، جیسے ’ جانے کون لوگ‘ ’ نہ جانے کون لوگ‘ یہ بات ہے کہ طور مختلف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ہے انداز ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے کہتے ہیں‌ زبان کا استعمال، یعنی علاقائی زبان۔۔۔۔۔مختلف بولیاں۔۔۔۔ مختلف علاقوں‌کے رہنے والوں کا انداز۔۔۔۔ یہ قابل قبول ہے مگر ظفر صاحب والا جسے پسند ہے بھائی اس کی پسند اس کے ساتھ ۔ یہ تو ہے ہی غلط، کہاں‌کی زبان ہے؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ بولا جاتا ہے مگر شاعری کے بھی کچھ تقاضے ہیں۔۔۔۔۔ ڈھنگ جسے کہہ لیں۔ سلیقہ کہہ لیں۔۔۔۔۔۔ زبردستی خیال باندھیں۔۔۔۔ اور جو بھی لفظ‌ ملے جیسی بھی زبان ہو بس غزل مکمل کرنا ہے۔ واہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان نے، ون نے، کر کے غزلیں‌کہنا شروع کر دیں‌ تو ہو گیا کام، تجھ نے کہنا شروع کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ’تجھ نے کرنا تھا یوں‌ اگر دھوکا‘ تو نے یا تم نے نہیں‌ کہتے ۔۔۔۔ کیا خیال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ انداز اپناتے ہیں‌۔ میں‌نے سنا ہے کچھ لوگ ایسے بھی بولتے ہیں۔ کر لیں‌ اسے بھی شامل اپنی لغات میں‌۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی زبان میں‌برتیں شعر میں‌خاص طور پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں‌نے ناں‌یہ کھانا ہے۔۔۔۔ ’میں‌نے‘ جانا تھا پر ’میں‌ نے‘ سوچا کہ ’میں‌نے‘ وہاں‌ جا کر کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ درست ہے؟ ہے تو پھر ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کریں ‌استعمال؟
ان نے یہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے یہ کیا۔۔۔۔۔۔ ان نے بھی استعمال کر لیا کریں‌ہم اب۔


اشعار پر غور فرمائیں‌۔۔۔۔۔۔۔۔ وہاں‌ ’ ہم نے ‘ کا استعمال مختلف پائیں‌گےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےےے۔ اگر غور کریں‌تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ان معنوں‌ میں ’ہم نے‘ جو ظفر کے پاس استعمال ہوا ہے، مل جائے تو مجھے بھی بتائیں۔۔۔ ‌ دو چار اشعار سند کے طور پر پیش کیے جائیں‌ ایسے ’ظفری ہم نے ‘ ( اس ہم نے کو میں‌ ظفری ہم نے کہہ رہا ہوں۔ یہ ہم نے ان کا ہوا۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے پاس ہی رکھیں‌تو بہتر ہے) کے تو مہربانی ہو گی۔۔۔ میں‌ انتظار کروں‌؟ یا ضرورت نہیں‌ہے؟ بتا دیجیے۔

آپ سب کا بہت شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفر اقبال زندہ باد

اچھا بھائی ہم ’نے تو‘ جانا ہے۔ آپ ’لوگوں‌نے‘ جانا ہے یا نہیں‌جانا یہ تو آپ ہی جانیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے ایک اور جگہ بھی اعتراض‌کیا تھا۔۔۔۔۔۔ ظفر کے ایک مصرعے پر۔۔۔۔۔۔۔ درست یاد نہیں‌رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمممممممممممممممممم
بس یہ تھا کہ ’’ اس کو باز کرنے کے لیے‘ کچھ ایسا تھا۔۔۔۔۔ جب کہ باز رکھنا محاورہ ہے اور محاورے میں‌تبدیلی نہیں‌ہوتی۔۔۔۔۔۔ وہ بھی کسی پوسٹ‌ میں‌ہو گا تلاش کر لیں جس نے غزل پوسٹ‌کی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اسے یاد ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ جو خیالَ‌یار میں‌آئے وہ شعر ہو جائے‘‘ واہ کیا کہنے۔ ایسا نہیں‌ہے بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ ظفر کے دیوانو۔۔۔۔ اسے پہچانو۔۔۔۔۔
اور وہ لوگ جو واہ واہ کرتے ہیں،‌ نہیں‌کیجیے گا میرے جواب پر صرف ’واہ وا ‘
ہی کافی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکریہ عین عین صاحب۔
 

عین عین

لائبریرین
مغل بھائی ! میں‌نے تو جواب دے دیا ہے۔۔۔۔۔ آپ لوگ بتائیں‌کہ آپ نے اسے تسلیم کیا یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔ بتانا تو چاہیے۔۔۔۔۔ مجھے دعوت دی گئی تھی کافی لوگوں‌کا انداز یہ تھا کہ میاں‌کہاں‌کھسک لیے۔۔۔۔۔۔۔۔ آئو تو سہی۔۔۔۔۔۔۔ اور آ کر وضاحت بھی دو اور مان لو کہ کافی غلط ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو بھائی اب ان تمام لوگوں‌کو بھی اسی طرح‌آ کر تسلیم کرنا چاہیے یا پھر مزید میرا آپریشن کر ڈالیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو آپ ہی سے سیکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید سیکھیں‌گے۔
 
Top