کاشفی

محفلین
غزل
( حافظ محمد علی صاحب حفیظ جونہپوری)

کوئی تجھ سا حسیں نہیں ملتا
خوب ڈھونڈھا کہیں نہیں ملتا

مر کے بھی آسماں کے ہاتھوں سے
چین زیرِ زمیں نہیں ملتا

لیجئے مجھ سے دل کہ یہ سودا
ہر جگہ ہر کہیں نہیں ملتا

دیکھئے تو ہر اک جگہ ہے وہ
ڈھونڈھیئے تو کہیں نہیں ملتا

گفتگو اپنے دل سے کرتا ہوں
جب کوئی ہمنشیں نہیں ملتا

ہائے چوری چھپے بھی راتوں کو
اب وہ پردہ نشیں نہیں ملتا

میکدہ چھُٹ گیا ہے جب سے حفیظ
لطف صحبت کہیں نہیں ملتا
 
Top