چند ادبی لطیفے

شمشاد

لائبریرین
ایک بار عبد المجید بھٹی احمد ندیم قاسمی کے مکان پر انہیں اپنے نئے ناول کا مسودہ سنا رہے تھے کہ اتنے میں وہاں منٹو صاحب آ گئے، آتے ہی انہوں نے بلند آواز کے ساتھ قاسمی صاحب سے کچھ پیسے مانگے۔ بھٹی صاحب نے منٹو کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے نہایت انکسار سے کہا۔ "منٹو صاحب، میں نے ایک ناول لکھا ہے، قاسمی صاحب کو سنا رہا ہوں۔ بیٹھیے آپ بھی سنیے۔

"لاحول ولا۔" ،منٹو نے کہا، " میں اور تمہارا ناول سنوں، تم بھی عجیب ہونق انسان ہو، کیا مجھے بھی قاسمی کی طرح کوئی بزدل اور شریف آدمی سمجھ لیا ہے۔"
 

محمد امین

لائبریرین
کل کے جنگ سنڈے میگزین میں شایع ہونے والے مضمون سے اقتباس:

ایک نشست میں تابش دہلوی نے فانی بدایونی سے متعلق ایک قصہ بیان کیا۔ یہ جامعہ عثمانیہ کے یومِ تاسیس پر ہونےوالے کل ہند مشاعرے کے حوالے سے تھا۔ مشاعرے میں سیماب اکبر آبادی اور حفیظ جالندھری پہلی ہرتبہ حیدرآباد دکن آئے تھے۔ اس مشاعرے میں فانی صاحب اور تابش صاحب ایک ساتھ پہنچے۔ اسٹیج پر حفیظ ان دونوں کے قریب ہی تشریف فرما ہوئے۔ مشاعرہ ختم ہوا تو حفیظ صاحب اور فانی بدایونی کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ غالباً یہ دونوں کی پہلی ملاقات تھی۔ حفیظ نے کہا، میں نے بچوں کے نصاب کے لیے ایک نظم لکھی ہے اور اس کے مجھے اتنے روپے ملے ہیں۔ تابش نے فرمایا کہ مجھے اس نظم کی ٹیپ یاد رہ گئی ہے جو اس طرح تھی "چل رے چرغ چرغ چوں"۔

حفیظ صاحب نے فانی سے کہا کہ آپ بھی بچوں کے لیے لکھا کریں کیوں کہ جو شاعری آپ کرتے ہیں اس کی زیادہ سے زیادہ قدر یہی ہوگی کہ لوگ آپ کا دیوان خرید کر لائبریری میں رکھ لیں گے۔

اس پر فانی بدایونی نے متانت کے ساتھ جواب دیا "جی ہاں! میری شاعری کا مجموعہ لائبریری میں ہوگا اور آپکا کلام بچے پڑھیں گے"
 

محمد امین

لائبریرین
اس مضمون میں ایک اور واقعہ لکھا ہے مگر مجھے اس میں شبہ ہے کیوں کہ اس میں جگر صاحب کا ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے مشاعرے میں شرکت کرنا بتایا جا رہا ہے، اور ایک اور واقعے میں جگر صاحب کا ملیر میں ساتھی شعراء کے ساتھ پکنک پر جانا بیان کیا جا رہا ہے، جبکہ میرے ناقص خیال میں جگر کراچی میں تو نہیں رہے۔۔۔؟ کوئی تصحیح کرے تو میں وہ اقتباسات یہاں پوسٹ کروں۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ ملنے ملانے آئے ہوں، ضروری تو نہیں کہ کراچی میں انہوں نے رہائش ہی رکھی ہو۔
 

مغزل

محفلین
مرحوم مشفق خواجہ سے ایک شاعر موصوف نے اپنے بے ربط و بے بہرہ
شعری مسودے پر رائے حاصل کرنے کے لیے اخلاقی سماجی دبائو برتا تو
مشفق خواجہ نے بادل نخواستہ مسودہ پر تحریر کیا کہ:
"" جو لوگ کتاب نہیں پڑھتے یہ کتاب ان کے لیے مفید ہے ""
 

شمشاد

لائبریرین
ہاہاہا ۔۔۔ ۔ میں نے تصحیح کرلی ہے مگر مجھے کچھ کہنے کا موقع بھی دیا جائے ۔ :)
" غمے جان " کا مجھے واقعی علم نہیں تھا ۔ دوسری یہ غلطی ہوئی کہ میں نے" پری کی شان" لکھا ۔ حالانکہ مجھے معلوم تھا کہ اس کا مطلب کیا ہے ۔ تیسری بات یہ وہ اپنا تخلص لکھتے ۔۔۔ بے شک " پریشان " ہی ہونگے ۔ مگر لوگ اس کا تلفظ " پری شان " کے بجائے " پریشان " ہی کرتے تھے ۔ اس پر انہوں نے شکایت کی تھی کہ انہیں " پریشان " کے بجائے " پری شان " سے پکارا جائے ۔ چونکہ بات محفل میں دوبدو ہو رہی تھی ۔ اس لیئے میں نے ساری گفتگو کو "زبانی تلفظ " کے تناظر میں لکھا ۔ جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ۔ اور اگر یہ " پری شان " اسی طرح " پریشان " لکھا جائے گا تو شاید ان کی شکایت کا کبھی ازالہ نہ ہوسکے ۔

آخری بات یہ کہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ چونکہ بچپن میں ہم بھی خوبصورت ہوا کرتے تھے تو میری پرنانی جنہیں ہم " آبئی " کہتے تھے ۔ وہ مجھے " خکلے باچا " کہا کرتیں تھیں ۔ :cool:

اب یہ "خکلے باچا" کا ترجمہ کون کرے گا؟
 

شمشاد

لائبریرین
شاعر ناصر کاظمی جوتا خریدنے بازار تشریف لے گئے۔ دکاندار ناصر صاحب کا دوست اور پرمزاح طبیعت کا مالک تھا۔ناصر صاحب نے کئی جوتے پہلے اور کہنے لگے، "پہلے تو مجھے چھوٹا نمبر پورا آ جاتا تھا لیکن اب وہ نمبر پاؤں میں چھوٹا پڑ رہا ہے۔"

دکاندار نے کہا، "جناب! اس کی وجہ یہ ہے کہ اب آپ کا پاؤں بھاری ہو گیا ہے۔"
 
یک بار دلی میں رات گئے کسی مشاعرے یا دعوت سے مرزا غالب مولانا فیض الحسن فیض سہارنپوری کے ہمراہ واپس آ رہے تھے۔راستے میں ایک تنگ و تاریک گلی سے گزررہے تھے کہ آگے وہیں ایک گدھا کھڑا تھا۔مولانا نے یہ دیکھ کر کہا: مرزا صاحب! دلی میں گدھے بہت ہیں۔
‎مرزا نے کہا: نہیں حضرت، باہر سے آ جاتے ہیں۔مولانا جھینپ کر چپ ہو رہے۔
 
جب مرزا غالب قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آ کر رہے تھے۔ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ مرزا نے کہا: کون کمبخت قید سے چھوٹا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا۔اب کالے کی قید میں ہوں۔
 
غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہو گئے۔ ان کو جب وہاں کے کمانڈنگ آفیسر کرنل براؤن کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا کی وضع قطع دیکھ کر پوچھا۔
‎ویل، ٹم مسلمان ہے۔
‎مرزا نے کہا، جناب، آدھا مسلمان ہوں۔
‎کرنل بولا۔ کیا مطلب؟
‎مرزا نے کہا، جناب شراب پیتا ہوں، سؤر نہیں کھاتا۔
 
مراز غالب رمضان کے مہینے میں دہلی کے محلے قاسم جان کی ایک کوٹھری میں بیٹھے پچسی کھیل رہے تھے. میرٹھ سے ان کے شاگرد مفتی شیفتہ دہلی آئے، تو مرزا صاحب سے ملنے گلی قاسم جان آئے۔ انہوں نے دیکھا کہ رمضان کے متبرک مہینے میں مرزا پچسی کھیل رہے تھے۔ انہوں نے اعتراض کیا : “مرزا صاحب ہم نے سنا ہے کہ رمضان میں شیطان بند کر دیا جاتا ہے۔“ مرزا غالب نے جواب دیا “مفتی
‎صاحب آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ شیطان جہاں قید کیا جاتا ہے، وہ کوٹھری یہی ہے۔
 
مرزا کے تنگ دستی کے دنوں میں جب پنشن وغیرہ بند تھی اور پینے پلانے کا سامان مہیا نہیں تھا، اپنے ایک خط میں اپنی حالت کو یوں بیان کرتے ہیں۔

"میر مہدی، صبح کا وقت ہے، جاڑا خوب پڑ رہا ہے، انگھیٹی سامنے رکھی ہوئی ہے، دو حرف لکھتا ہوں، ہاتھ تاپتا جاتا ہوں، آگ میں گرمی سہی مگر وہ آتشِ مے کہاں کہ جب دو جرعے پی لئے فوراً رگ و پے میں دوڑ گئی، دل توانا ہوگیا، دماغ روشن ہوگیا۔ نفسِ ناطقہ کو تواجد بہم پہنچایا، ساقیٔ کوثر کا بندہ اور تشنۂ لب؟ ہائے غضب، ہائے غضب۔" "
 
راجندر سنگھ بیدی کی باتیں بہت دلجسپ اور بے ساختہ ہوتی تھیں۔ ایک بار دہلی کی ایک محفل میں بشیر بدر کو کلام سنانے کے لیے بلایا گیا تو بیدی صاحب نے جو میرے برابر بیٹھے تھے ۔ اچانک میرے کان میں کہا ۔

یار ! ہم نے دربدر ، ملک بدر اور شہر بدر تو سنا تھا یہ بشیر بدر کیا ہوتا ہے
 

aamir zulfiqar

محفلین
ادبی لطیفے مسکراہٹ تک محدود رہتے ہیں۔ قہقہوں کے لیے بہرحال جاندار تحریریں ہی کام دکھاتی ہیں۔
 

مخلص انسان

محفلین
شوکت تھانوی ایک مرتبہ شدید بیماری میں مبتلا ہو گئے۔
مرض میں سر کے سارے بال جھڑ گئے۔
دوست احباب عیادت کو آتے تو گنجے سر کو دیکھ کر پوچھتے کہ یہ کیا ہوا۔
شوکت تھانوی اپنے مخصوص انداز میں کہتے: ’’ملک الموت آئے تھے، صورت دیکھ کر ترس کھا گئے
لیکن جاتے ہوئے سر پر ایک چپت رسید کر کے چلے گئے۔‘‘
 

عباد اللہ

محفلین
ایک روز منٹو صاحب بڑی تیزی سے ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے کہ وہاں برآمدے میں مڈگارڈوں کے بغیر ایک سائیکل دیکھ کر لمحہ بھر کے لئے رک گئے ، اور پھر دوسرے ہی لمحے ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں مسکراہٹ کی ایک چمکیلی سی لہر دوڑ گئی اور وہ چیخ چیخ کر کہنے لگے۔ "راشد صاحب، راشد صاحب، ذرا جلدی سے باہر تشریف لائیے۔" شور سن کر ن۔ م۔ راشد کے علاوہ کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور ریڈیو اسٹیشن کے دوسرے کارکن بھی ان کے گرد آ جمع ہوئے۔

"راشد صاحب، آپ دیکھ رہے ہیں اسے!!" منٹو نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل! خدا کی قسم سائیکل نہیں، بلکہ حقیقت میں آپ کی کوئی نظم ہے۔"
ن م کی شاعری کیا ایسی ہی بے سر و پا ہے؟؟؟
مجھے تو ان کی آزاد شاعری بہت بھلی معلوم ہوتی ہے
 
Top