چند ادبی لطیفے

شمشاد

لائبریرین
عمدہ چیز

ایک مرتبہ اکبر الٰہ آبادی کے دوست نے انہیں ایک ٹوپی دکھائی جس پر قل ہو اللہ کڑھا ہوا تھا۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا “بھئی عمدہ چیز ہے۔ کسی دعوت میں کھانا ملنے مین دیر ہو تو یہ ٹوپی پہن لیا کرو، سب سمجھ جائیں گے کہ انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں۔“
 

شمشاد

لائبریرین
قبلہ

اکبر الٰہ آبادی کو کسی صاحب نے خط لکھا اور خط میں انہیں قبلہ کہہ کر مخاطب کیا۔ اکبر نے جواب دیا “آپ نے مجھے قبلہ لکھا ہے جو کہ مسلمانوں کے لیے قابل احترام جگہ سمجھی جاتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو کیا لکھوں۔ یہی لکھ سکتا ہوں کہ و علیکم السلام جامع مسجد۔“
 

شمشاد

لائبریرین
میں نہیں جانتا

سر سید احمد خان ایک دفعہ ریل مین سوار تھے۔ کسی اسٹیشن پر دو انگریز ان کے ڈبے میں آ بیٹھے۔ ان میں سے ایک پادری تھا۔ اسے کسی طرح معلوم ہو گیا سر سید احمد خان یہی شخص ہے۔ پادری ان سے یوں مخاطب ہوا “مدت سے آپ سے ملاقات کا اشتیاق تھا۔ آپ سے خدا کی باتیں کرنا چاہتا تھا۔“

سر سید احمد کان نے کہا “میں نہین سمجھا، آپ کس کی باتیں کرنا چاہتے ہیں؟“

پادری “خدا کی۔“

سر سید احمد خان “(کمال سنجیدگی سے) میری تو کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔“

پادری “(متعجب ہو کر) ہیں ۔۔۔ آپ خدا کو نہیں جانتے۔“

سر سید احمد خان “مجھ ہی پر کیا موقوف، جس سے ملاقات نہ ہوئی ہو، اسے کوئی بھی نہیں جانتا۔“ پھر کسی کا نام لیکر پوچھا “آپ اسے جانتے ہیں۔“

پادری “نہیں میں اس سے کبھی نہیں ملا۔“

سر سید احمد خان “پھر جس سے میں کبھی نہ ملا ہوں، نہ میں نے کبھی اسے اپنے ہاں کھانے پر بلایا ہو، نہ مجھے اس کے ہاں کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا ہو، اسے میں کیوں کر جان سکتا ہوں۔

پادری یہ سن کر خاموش رہا اور دوسرے انگریز سے انگریزی میں کہا “یہ تو سخت کافر ہے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
خامی

جگر مراد آبادی کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے ایک زندہ دل نے ان سے کہا “حضرت آپ کی غزل کے فلاں شعر کو لڑکیوں کی ایک محفل میں پڑھنے کے بعد بڑی مشکل سے میں پٹنے سے بچا ہوں۔“

جگر صاحب ہنس کر بولے “عزیزم، میرا خیال ہے کہ اس شعر میں کوئی خامی رہ گئی ہو گی، ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ آپ پٹنے سے بچ جاتے۔“
 

شمشاد

لائبریرین
ڈرانے کے لیے

لکھنؤ کے ایک مشاعرے میں جگر مراد آبادی غزل پڑھ رہے تھے۔ ان کے ایک قریبی دوست جب ان کی تصویر کھینچنے لگے، تو جگر صاحب بولے “میر تصویر ایسی نہیں آتی کہ تم گھر میں سجا سکو۔“ (جگر صاحب بہت کالے تھے)۔

ان کے دوست نے کہا “تصویر سجانے کے لیے نہیں، بچوں کو ڈرانے کے لیے لے جا رہا ہوں۔“
 

مہتاب

محفلین
خامی

جگر مراد آبادی کے ایک شعر کی تعریف کرتے ہوئے ایک زندہ دل نے ان سے کہا “حضرت آپ کی غزل کے فلاں شعر کو لڑکیوں کی ایک محفل میں پڑھنے کے بعد بڑی مشکل سے میں پٹنے سے بچا ہوں۔“

جگر صاحب ہنس کر بولے “عزیزم، میرا خیال ہے کہ اس شعر میں کوئی خامی رہ گئی ہو گی، ورنہ یہ کس طرح ممکن تھا کہ آپ پٹنے سے بچ جاتے۔“
بہت خوب مزہ آگیا
اچھی شئیرنگ ہے
 

مہتاب

محفلین
عمدہ چیز

ایک مرتبہ اکبر الٰہ آبادی کے دوست نے انہیں ایک ٹوپی دکھائی جس پر قل ہو اللہ کڑھا ہوا تھا۔ آپ نے دیکھتے ہی فرمایا “بھئی عمدہ چیز ہے۔ کسی دعوت میں کھانا ملنے مین دیر ہو تو یہ ٹوپی پہن لیا کرو، سب سمجھ جائیں گے کہ انتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں۔“
بہت خوب ۔۔۔۔۔۔۔ عمدہ شئیرنگ ہے
 

مہتاب

محفلین
میں نہیں جانتا

سر سید احمد خان ایک دفعہ ریل مین سوار تھے۔ کسی اسٹیشن پر دو انگریز ان کے ڈبے میں آ بیٹھے۔ ان میں سے ایک پادری تھا۔ اسے کسی طرح معلوم ہو گیا سر سید احمد خان یہی شخص ہے۔ پادری ان سے یوں مخاطب ہوا “مدت سے آپ سے ملاقات کا اشتیاق تھا۔ آپ سے خدا کی باتیں کرنا چاہتا تھا۔“

سر سید احمد کان نے کہا “میں نہین سمجھا، آپ کس کی باتیں کرنا چاہتے ہیں؟“

پادری “خدا کی۔“

سر سید احمد خان “(کمال سنجیدگی سے) میری تو کبھی ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔“

پادری “(متعجب ہو کر) ہیں ۔۔۔ آپ خدا کو نہیں جانتے۔“

سر سید احمد خان “مجھ ہی پر کیا موقوف، جس سے ملاقات نہ ہوئی ہو، اسے کوئی بھی نہیں جانتا۔“ پھر کسی کا نام لیکر پوچھا “آپ اسے جانتے ہیں۔“

پادری “نہیں میں اس سے کبھی نہیں ملا۔“

سر سید احمد خان “پھر جس سے میں کبھی نہ ملا ہوں، نہ میں نے کبھی اسے اپنے ہاں کھانے پر بلایا ہو، نہ مجھے اس کے ہاں کھانے پر جانے کا اتفاق ہوا ہو، اسے میں کیوں کر جان سکتا ہوں۔

پادری یہ سن کر خاموش رہا اور دوسرے انگریز سے انگریزی میں کہا “یہ تو سخت کافر ہے۔“

دلچسپ مکالمہ ہے انہوں نے اپنے اندازہ سے صحیح کہا
 

مہتاب

محفلین
قبلہ

اکبر الٰہ آبادی کو کسی صاحب نے خط لکھا اور خط میں انہیں قبلہ کہہ کر مخاطب کیا۔ اکبر نے جواب دیا “آپ نے مجھے قبلہ لکھا ہے جو کہ مسلمانوں کے لیے قابل احترام جگہ سمجھی جاتی ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو کیا لکھوں۔ یہی لکھ سکتا ہوں کہ و علیکم السلام جامع مسجد۔“
اچھا لطیفہ ہے گُڈ
 

بندہ مومن

محفلین
شکریہ محمود



یہ تو آپ عجیب کہہ رہے ہیں۔ ہم نے اس کے الٹ سنا ہے۔ مومن دہلوی کا نام اس ذیل میں لیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے تخلص کا با معنی استعمال کیا ہے۔ پشتو میں اباسین یوسفزئ بھی اس وجہ سے مشہور ہے


بجا فرمایا۔۔۔ اگر تخلص مصرع میں با معنی بھی ہو تو مصرعہ کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک سے بڑھ کر ایک

ہری چند اختر جوش صاحب سے ملنے گئے، جاتے ہی پوچھا، “جناب! آپ کے مزاج کیسے ہیں؟“

جوش صاحب نے فرمایا، “آپ تو غلط اردو بولتے ہیں، یہ آپ نے کیسے کہا کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں، جب کہ میرا تو ایک مزاج ہے نا کہ بہت سے مزاج۔“

کچھ دن بعد اختر کی پھر جوش سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے فرمایا، “ابھی ابھی جگن ناتھ آزاد صاحب کے والد تشریف لائے تھے۔“

اس پر اختر صاحب نے فرمایا، “کتنے؟“
 

شمشاد

لائبریرین
بلڈانہ کے آل انڈیا مشاعرے میں مالی گاؤں کے مترنم شاعر، ارشد مینا نگری غزل سنا رہے تھے۔ غزل ختم ہونے کے بعد کچھ اور پڑھنے کی فرمائش ہوئی۔ ارشد صاحب دوسری غزل سنانے لگے۔ پھر فرمائش ہوئی کہ انہوں نے پھر غزل شروع کر دی۔ اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا اور ڈائس پر بیٹھے ہوئے دوسرے شعرا اور اناؤنسر بہت پریشان ہوئے کہ کسی طرح یہ مائک چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ اتنے میں مختار یوسفی کو شرارت سوجھی، انہوں نے ایک پرچی لکھ کر ارشد مینا نگری کو تھما دی۔ ارشد مینا نگری غزل ادھوری چھوڑ کر مائک سے ہٹ گئے اور اپنی جگہ پر آ کر بیٹھ گئے۔

دیگر شعرا نے مختار یوسفی سے استفسار کیا کہ آخر آپ نے پرچی میں کیا لکھ دیا تھا۔ مختار یوسفی نے بڑی سنجیدگی سے کہا کہ "میں نے صرف اتنا ہی لکھا تھا کہ "ارشد صاحب آپ کی پتلون پھٹی ہوئی ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کے سالانہ جلسے میں مولوی رضی الدین بسمل نے ایک بڑی درد انگیز قومی نظم حاضرین جلسہ کو سنائی۔ جسے سن کر ہر آنکھ پُرنم ہو گئی۔ نظم کے خاتمے پر نواب محسن الملک نے اٹھ کر کہا "مولوی رضی الدین انے اپنا تخلص تو بسمل رکھا ہے مگر نظم ایسی سنائی کہ دوسروں کو بسمل کر دیا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
مولانا ظفر علی خان ایڈیٹر زمیندار نے ایک مرتبہ لالہ نانک چند ناز کی ہنگامی اور بمعنی تُک بندی پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں مخلصانہ مشورہ دیا۔

توڑتا ہے شاعری کی ٹانگ کیوں، اے بے ہُنر!
شعر کہنے کا سلیقہ سیکھ میلا رام سے​

مولانا ظفر علی خان، پنڈت میلا رام وفا کو استاد شاعر تسلیم کرتے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنے حریف کو یہ نیک مشورہ دیا تھا۔ جب ناز صاحب نے اپنا پہلا مجموعہ کلام تبصرے کے لیے پنڈت میلا رام وفا کی خدمت میں پیش کیا تو وفا صاحب نے اس پر مندرجہ ذیل تبصرہ کیا۔

"ناز صاحب کی کتاب برائے تبصرہ ملی۔ کتابت اچھی نہیں، لیکن کلام سے بدرجہا بہتر ہے، جس کے پڑھنے کے بعد یہ پتا آسانی سے لگ سکتا ہے کہ تعزیرات ہند میں شعر کہنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
خواجہ حسن نظامی بعض اوقات بڑی دُور کی کوڑی لاتے تھے۔ سر تیج بہادر سپرو کے متعلق الٰہ آباد کے ایک ادبی اجتماع میں آپ نے فرمایا کہ "آپ یوں تو سرتیج ہیں، مگر اردو کے سرتاج ہیں، اور اردو آپ کو سپرو نہیں اپنا سپر سمجھتی ہے۔" خواجہ صاحب کی تشریح صرف صناعی نہیں، واقعہ بھی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک دفعہ محمد دین تاثیر نے ہری چند اختر سے پوچھا۔

"یار پنڈت، سُنا ہے تُو حفیظ کا شاگرد ہے۔"

اختر صاحب نے کہا "ہاں یہ بات تو صحیح ہے۔" تاثیر نے برجستہ کہا۔ "میں تو تیری بڑی عزت کرتا تھا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
ایک بار مولانا ظرا علی خاں کو دھن سمائی کہ اگر ہند بھر کے مسلمان ایک ایک روپیہ بھی چندے کے طور پر جمع کریں تو کروڑوں روپے جمع ہو سکتے ہیں۔ اس خطیر رقم سے خانہ خدا کی تعمیر ہونا ممکن ہے۔ اپنے ہمراہیوں کو لے کر جب وہ ایک میراثی کے درِ دولت پر گئے تو میراثی اور میراثن دروازے کی دہلیز پر کھڑے ہو گئے۔ مولانا نے عجز و انکساری کے ساتھ مقصد بیان کیا تو میراثی نے بڑے فخر سے کہا "مولانا! لکھ لیجیے پانچ روپے ۔۔۔" ابھی مولانا قلم کو حرکت میں لانا ہی چاہتے تھے کہ میراثن بول اٹھی۔ "واہ میاں وا، خانہ خدا کی تعمیر اور صرف پانچ روپے چندہ، میاں یہ تو ہم سے نہ ہو گا، ذرا زیادہ رقم دو۔"

میراثی نے منہ پھلا کر کہا۔ "مولانا دس روپے لکھ دو۔" پیش تر اس کے کہ مولانا قلم کو جنبش دیتے میراثن پکار اٹھی۔ "نا میاں! دس روپے کوئی عطیہ ہوتا ہے؟" میراثی نے جھٹ سے کہا "مولانا پندرہ روپے لکھ لیں۔"

میراثن تڑپ کر بولی۔ "میاں! کیوں شرمندہ کرتے ہو، پندرہ روپے، بھلا کیا ہوتے ہیں؟"

میراثی بیس سے تیس اور پھر چھلانگ لگا کر پچاس پر پہنچا۔

زچ ہو کر مولانا نے کہا "دادا جتنی رقم دینا چاہتے ہو، اتنی ہی لکھوا دو۔"

میراثی نے نہایت سادگی سے جواب دیا "مولانا غریبوں کے ہاں نمک، نہ آٹا، بھلا ہم کیا چندہ دیں گے، البتہ ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ گنتی ہم لوگوں کو بھی آتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
چوہدری شہاب الدین لاہور کے میئر تھے۔ ایک دن لاہور کے خاکروبوں نے ہڑتال کر دی۔ اس پر چوہدری صاحب نے ان سب کو ٹاؤں ہال کے میدان میں جمع ہونے کا حکم دیا۔ جب سب جمع ہو گئے تو چوہدری صاھب ان سے مخاطب ہوئے۔

"بہنو اور بھائیو!"

ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ ایک بھنگن کا بچہ رونے لگا۔ اس پر بھنگن نے اپنے بچے سے کہا۔ "ارے چپ، ورنہ ماموں ماریں گے۔"
 
Top