چند ادبی لطیفے

شمشاد

لائبریرین
اپنے لڑکپن کے زمانے میں ایک بار جب برق دہلوی کے آنکھیں دکھنے آئیں اور ان کے کسی دوست نے حال دریافت کیا تو برق صاحب نے فی الفور جواب میں یہ شعر سُنا دیا۔

دل تو آتا تھا مگر اب آنکھ بھی آنے لگی
پختہ کاری عشق کی یہ رنگ دکھلانے لگی​
 

شمشاد

لائبریرین
امتیاز علی تاج کے متعلق شوکت تھانوی نے لکھا :

"اگر یہ تخلص امتیاز صاحب نہ رکھ چکے ہوتے تو علامہ تاجور نجیب آبادی کو غالباً اپنے تخلص میں خوامخواہ "ور" لگانے کی ضرورت نہ ہوتی۔"
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ سبحان اللہ !

یہ لڑی تو کشتِ زعفران سے کم نہیں ہے۔ :grin: بہت لطف آیا ۔ خوشی ہوتی ہے کہ اس محفل میں ایسے ایسے باذوق دوست موجود ہیں کہ جن کی موجودگی کسی بھی ادبی محفل کے لئے باعثِ افتخار ہو سکتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
امراؤ سنگھ جو ہرگوپال تفتہ کے عزیز دوست تھے، ان کی دوسری بیوی کے انتقال کا حال تفتہ نے میرزا صاحب کو بھی لکھا تو انہوں نے جواباً لکھا۔ "امراؤ سنگھ کے حال پر اس کے واسطے مجھ کو رحم اور اپنے واسطے رشک آتا ہے۔ اللہ اللہ ایک وہ ہیں کہ دو بار ان کی بیڑیاں کٹ چکی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ پچاس برس سے اوپر جو پھانسی کا پھندا گلے میں پڑا ہے، تو نہ پھندا ہی ٹوٹتا ہے نہ دم ہی نکلتا ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
میرزا غالب ایک بار اپنا مکان بدلنا چاہتے تھے۔ چناں چہ اس سلسلے میں کئی مکانات دیکھے۔ جن میں ایک کا دیوان خانہ میرزا صاحب کو پسند آیا، مگر محل سرا دیکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ گھر آ کر بیگم صاحبہ کو محل سرا دیکھنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ دیکھ کر واپس آئیں، میرزا صاحب نے پوچھا، تو بیگم صاحبہ نہ بتایا کہ "اس مکان میں لوگ بلا بتاتے ہیں۔"

میرزا صاحب یہ سن کر بہت ہنسے اور ہنس کر کہا "کیا آپ سے بڑھ کر بھی کوئی اور بلا ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
اعجاز صدیقی مرحوم (مدیر شاعر) حیدر آباد تشریف لے گئے تو بہت سے ادیب اور شاعر ان سے ملنے کے لیے آنے لگے۔ رشید الدین صاحب بھی ملاقات کے لیے آئے۔ اکرم جاوید نے اعجاز کو بتایا کہ یہ رشید الدین صاحب ہیں۔ اعجاز صاحب ان کی تحریروں کی وجہ سے انہیں پہچانتے تھے لیکن تعارف پہلی دفعہ ہو رہا تھا۔ مصافحہ کرنے کے بعد بولے "آپ تو اچھے خاصے موٹے ہیں پھر اتنا باریک کیوں لکھتے ہیں۔" یہ سن کر سب لوگ ہنسنے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
مولانا ظفر علی خان اور مولانا مرتضٰے احمد خان میکش ایک مشاعرہ میں اکٹھے تھے۔ میکش نے پانی مانگا، تو ایک سفید ریش بزرگ پانی لے کر آئے۔ اس پر میکش نے مصرع کہا :

لے کے خود پیرِ مغاں ساغر و مینا آیا​

ظفر علی خان نے فوراً گرہ لگائی :

میکشو!شرم، تمہیں پھر بھی نہ پینا آیا​
 

شمشاد

لائبریرین
علی گڑھ کے ایک مشاعرے میں جب گلزار دہلوی پڑھنے آئے، تو مشاعرے کی ہوٹنگ کا ماحول دیکھ کر کہا : حضرات، آج میرے پاس غزل نہیں ہے، میں نعت پیش کروں گا۔ نعت کا سن کر ہوٹنگ کرنے والوں نے باآواز بلند درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ڈی۔ سی۔ ایم کے مشاعرے میں کیفی اعظمی پڑھنے کے لیے آئے، تو سامعین سے کہا "حضرات! میں نے زندگی بھر زبانی مشاعرے پڑھے مگر آج غزل لکھ کر لایا ہوں، تاکہ آپ کو یقین ہو جائے کہ میں بھی پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ اتنے میں قتیل شفائی نے آوازہ کسا، حضرات کیف صاحب کے ہاتھ میں جو کاغذ ہے، وہ کورا ہے۔ اس پر کیفی صاحب نے کہا "یہ قتیل بھی ان پڑھ ہے۔ لکھے ہوئے کو کورا کہہ رہا ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
احمد ندیم قاسمی کی ایک عزیزہ نے اردو ایم اے کا امتحان دیا تو پتا چلا کہ اس کے پرچے صوفی غلام مصطفٰے تبسم کے پاس چیک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ قاسمی صاحب سفارش کے لیے اس عزیزہ کو ساتھ لے کر صوفی صاحب کے گھر پہنچے۔ صوفی صاحب دعا سلام کے بعد فوراً ہی اٹھ کر کمرے کے اندر چلے گئے، جب وہ کافی دیر تک باہر تشریف نہ لائے، تو قاسمی صاحب کو صوفی صاحب کے برتاؤ پر بہت افسوس ہوا کہ چائے پوچھی نہ آنے کا مقصد سُنا اور اٹھ کر چلے گئے۔ اتنے میں صوفی صاحب ایک پرچہ ہاتھ میں لیے باہر آئے اور اسے قاسمی کو دیتے ہوئے پوچھا کہ فرمائیے، اس میں کتنے نمبر دے دوں؟ قاسمی صاحب اس پر بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں اس کام کے سلسلے میں آیا ہوں۔ اس پر صوفی صاحب بولے "بھئی کل ۳۲ پرچے میرے پاس آئے تھے، اور ۳۱ اصحاب اس سے پہلے میرے پاس سفارش کے لیے آ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ اس آخری پرچے کے سلسلے میں آئے ہوں گے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
لندن کے سفر میں ف۔ س۔ اعجاز نے جگن ناتھ آزاد کو بالوں میں تیل لگائے ہوئے دیکھ کر کہا "بالوں میں تیل نہ لگانے کی وجہ سے میرا بھی سر بھاری رہتا ہے۔ اگر ہو سکے تو تھوڑا تیل مجھے بھی عنایت کر دیجیے۔ ہاں سرسوں کا تیل ہو تو بہتر ہے کیوں کہ ان کے بالوں میں جو تیل لگا ہے اس سے خوش بُو آ رہی ہے۔" اس پر آزاد نے چہک کر کہا "بھئی کوئی ایسا ویسا تیل نہیں ہے، خالص چنبیلی کا تیل ہے۔" اور ساتھ ہی بیٹھے بیٹھے اپنا سر ف۔ س۔ اعجاز کی طرف جھکاتے ہوئے بولے "میرا سر سونگھ کر دیکھو کہ واقعی چنبیلی کے تیل کی خوش بُو ہے نا؟" ف۔ س۔ اعجاز نے فوراً جواب دیا معاف کیجیے میں چھچھوندروں کے اتنا قریب ہونا پسند نہیں کرتا۔ اس پر ساتھ بیٹھے ہوئے شمشیر سنگھ اور دوسرے سب ساتھی کھلکھلا کر ہنسنے لگے اور ف۔ س۔ اعجاز کو محاورے کو برموقع استعمال کرنے کی داد دینے لگے۔
 

شمشاد

لائبریرین
غالباً ۱۹۰۹ یا ۱۹۱۰ عیسوی کی بات ہے کہ مولوی محمد یحیٰی تنہا، بی۔ اے۔ وکیل میرٹھ نے مولانا حالی کو اپنی شادی میں پانی پت سے بلایا۔ شادی کے بعد مولانا حالی اور مولوی محمد اسماعیل میرٹھی اور بعض دوسرے بزرگ بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ مولانا محمد اسماعیل میرٹھی نے مسکراتے ہوئے مولوی محمد یحیٰی تنہا سے کہا "اب آپ اپنا تخلص بدل دیں، کیونکہ اب آپ تنہا نہیں رہے۔" اس پر مولانا نے فرمایا کہ "نہین مولوی صاحب یہ بات نہیں، تن ہا تو یہ ابھی ہوئے ہیں۔" اس پر تمام مجلس مولانا حالی کی جودت طبع پر حیران رہ گئی۔
 

حماد

محفلین
احمد ندیم قاسمی کی ایک عزیزہ نے اردو ایم اے کا امتحان دیا تو پتا چلا کہ اس کے پرچے صوفی غلام مصطفٰے تبسم کے پاس چیک کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ قاسمی صاحب سفارش کے لیے اس عزیزہ کو ساتھ لے کر صوفی صاحب کے گھر پہنچے۔ صوفی صاحب دعا سلام کے بعد فوراً ہی اٹھ کر کمرے کے اندر چلے گئے، جب وہ کافی دیر تک باہر تشریف نہ لائے، تو قاسمی صاحب کو صوفی صاحب کے برتاؤ پر بہت افسوس ہوا کہ چائے پوچھی نہ آنے کا مقصد سُنا اور اٹھ کر چلے گئے۔ اتنے میں صوفی صاحب ایک پرچہ ہاتھ میں لیے باہر آئے اور اسے قاسمی کو دیتے ہوئے پوچھا کہ فرمائیے، اس میں کتنے نمبر دے دوں؟ قاسمی صاحب اس پر بہت حیران ہوئے اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ میں اس کام کے سلسلے میں آیا ہوں۔ اس پر صوفی صاحب بولے "بھئی کل ۳۲ پرچے میرے پاس آئے تھے، اور ۳۱ اصحاب اس سے پہلے میرے پاس سفارش کے لیے آ چکے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ اس آخری پرچے کے سلسلے میں آئے ہوں گے۔"
اگر یہ واقعہ سچا ہے تو بہت شرم کی بات ہے . ایسی قوم کو بھلا کون سدھار سکتا ہے جسکے ادیب اور دانشور بھی بد دیانتی اور سفارش جیسی برائیوں میں مبتلا ہوں؟
 

عثمان

محفلین
احمد ندیم قاسمی والا "لطیفہ" بجائے لطیفے کے ایک المناک واقعہ معلوم ہورہا ہے۔
شمشاد بھائی یہ واقعہ کہاں سے لیا گیا ہے ؟
 

تانیہ

محفلین
ایک سے بڑھ کر ایک

ہری چند اختر جوش صاحب سے ملنے گئے، جاتے ہی پوچھا، “جناب! آپ کے مزاج کیسے ہیں؟“

جوش صاحب نے فرمایا، “آپ تو غلط اردو بولتے ہیں، یہ آپ نے کیسے کہا کہ آپ کے مزاج کیسے ہیں، جب کہ میرا تو ایک مزاج ہے نا کہ بہت سے مزاج۔“

کچھ دن بعد اختر کی پھر جوش سے ملاقات ہوئی۔ جوش نے فرمایا، “ابھی ابھی جگن ناتھ آزاد صاحب کے والد تشریف لائے تھے۔“

اس پر اختر صاحب نے فرمایا، “کتنے؟“

:laughing:
 

شمشاد

لائبریرین
اگر یہ واقعہ سچا ہے تو بہت شرم کی بات ہے . ایسی قوم کو بھلا کون سدھار سکتا ہے جسکے ادیب اور دانشور بھی بد دیانتی اور سفارش جیسی برائیوں میں مبتلا ہوں؟

احمد ندیم قاسمی والا "لطیفہ" بجائے لطیفے کے ایک المناک واقعہ معلوم ہورہا ہے۔
شمشاد بھائی یہ واقعہ کہاں سے لیا گیا ہے ؟

روزنامہ جنگ کا ہر بدھ وار کو “مڈویک میگزین“ شائع ہوتا ہے۔ یہ مورخہ 4 مئی 2011 کے مڈویک میگزین میں شائع ہوا تھا۔

http://76.12.127.225/jang_mag/arc_detail_article.asp?id=12802
 

شمشاد

لائبریرین
جب منٹو کے افسانہ "بُو" پر کچھ ُبااخلاق" لوگ بدکے اور معاملہ عدالت تک پہنچا، تو ایک ادیب نے منٹو سے کہا

"لاہور کے کچھ سرکردہ بھنگیوں نے ارباب عدالت سے شکایت کی ہے کہ آپ نے ایک افسانہ "بُو" لکھا ہے، جس کی "بدبُو" دور دور تک پھیل گئی ہے۔"

منٹو نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ "کوئی بات نہیں، میں ایک افسانہ "فینائل" لکھ کر ان کی شکایت رفع کر دوں گا۔"
 

شمشاد

لائبریرین
ایک روز منٹو صاحب بڑی تیزی سے ریڈیو اسٹیشن کی عمارت میں داخل ہو رہے تھے کہ وہاں برآمدے میں مڈگارڈوں کے بغیر ایک سائیکل دیکھ کر لمحہ بھر کے لئے رک گئے ، اور پھر دوسرے ہی لمحے ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں مسکراہٹ کی ایک چمکیلی سی لہر دوڑ گئی اور وہ چیخ چیخ کر کہنے لگے۔ "راشد صاحب، راشد صاحب، ذرا جلدی سے باہر تشریف لائیے۔" شور سن کر ن۔ م۔ راشد کے علاوہ کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور ریڈیو اسٹیشن کے دوسرے کارکن بھی ان کے گرد آ جمع ہوئے۔

"راشد صاحب، آپ دیکھ رہے ہیں اسے!!" منٹو نے اشارہ کرتے ہوئے کہا، "یہ بغیر مڈگارڈوں کی سائیکل! خدا کی قسم سائیکل نہیں، بلکہ حقیقت میں آپ کی کوئی نظم ہے۔"
 

شمشاد

لائبریرین
جگر مراد آبادی لاہور تشریف لے گئے تو کچھ مقامی ادیب و شاعر نیاز حاصل کرنے ان کی قیام گاہ پر پہنچے۔ جگر نہایت اخلاص اور تپاک سے ہر ایک کا خیرمقدم کر رہے تھے کہ اتنے میں سعادت حسن منٹو نے آگے بڑھ کر جگر صاحب سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ "قبلہ، اگر آپ مراد آباد کے جگر ہیں، تو یہ خاکسار لاہور کا گردہ ہے۔"
 
Top