زیک

مسافر
اس پار نہیں بھائی، اپنی ہی سائیڈ پہ۔
اردو بھی کیا ہی زبان ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے پاکستان میں ایک بہترین کالج میں ایک دوست نے داخلہ لیا۔ انگریزی کے استاد نے لیکچر کے آخر میں اگلے دن کی بات کرتے ہوئے tomorrow کی بجائے yesterday کہہ دیا۔ دوست نے جذباتی ہو کر کالج چھوڑ دیا حالانکہ اسے غصہ اردو زبان پر کرنا چاہیئے تھا جس میں کل اور کل میں کوئی تمیز نہیں
 

یاز

محفلین
اتنی آسان ہائیک اور بہترین مناظر کے باوجود یہاں کوئی پاکستانی ہائیک کرتا نظر نہیں آیا۔ یہی صورتحال سوائے راما جھیل اور فیری میڈوز کے ہر جگہ دیکھی۔ پاکستانی سیاح کافی تعداد میں تھی مگر ہائیکر نہ ہونے کے برابر۔ اگر یہی ہائیک امریکہ میں ہوتی تو بہت لوگ آپ کو پسو گلیشیر پر نظر آتے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں ہائیکنگ کا اس قدر فقدان ہے؟
اچھی آبزرویشن ہے۔ اس کی اہم وجوہات درج ذیل ہیں۔
1) پاکستان میں زیادہ تر سیاحت ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی یا سوشل میڈیا پہ پوسٹ کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔
2) لوگوں کی فزیکل فٹنیس کا شدید مسئلہ ہے، خصوصاً خواتین کا۔ آپ کسی سے بھی پوچھ لیں۔ عموماً پچاس قدم سے زائد چلنے پہ یہ طعنے عام ملتے ہیں کہ۔۔۔ سیر کیا ہونی، چلا چلا کے ہی مار دیا۔
3) بہتر ہائیکس کی بابت معلومات کا نہ ہونا، اور ایسی جگہوں پہ کم رش کی وجہ سے عدم تحفظ کا احساس وغیرہ بھی۔
 

یاز

محفلین
وہاں سے ہم اگلی جھیل کی طرف چلے

بہت عمدہ جناب۔
ایک مشورہ: اگر کبھی پاکستان میں تین چار روزہ ٹریکنگ کا پان بنانا ہو تو نلتر پاس یا پکھورا پاس کو بھی آپشن میں رکھ سکتے ہیں۔
اب تو نلتر تک پکی سڑک بھی بن چکی۔
 

یاز

محفلین
رائےکوٹ سے ٹٹو تک جیپ کا سفر سوا گھنٹے کا تھا۔ ان 16 کلومیٹر میں ۔
لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ یہ دنیا کی خطرناک ترین سڑک ہے۔ لینڈسلائیڈ کے خطرے کو نکال دیا جائے تو عام حالات میں یہ سڑک بالکل بھی خطرناک نہیں ہے۔
ہمارے ہاں بغیر معلومات یا تحقیق کے اس طرح کے دعویٰ جات عام ہیں۔
طویل ترین، مشکل ترین، خطرناک ترین، بلند ترین، خوبصورت ترین وغیرہ۔
حالانکہ گوگل پہ صرف ایک منٹ لگا کے تصدیق کی جا سکتی ہے کہ ایسا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔
 
لوگوں کی فزیکل فٹنیس کا شدید مسئلہ ہے، خصوصاً خواتین کا۔ آپ کسی سے بھی پوچھ لیں۔ عموماً پچاس قدم سے زائد چلنے پہ یہ طعنے عام ملتے ہیں کہ۔۔۔ سیر کیا ہونی، چلا چلا کے ہی مار دیا۔
برسبیل تذکرہ، ہمارا جب سٹوڈنٹ ٹرپ جاتا ہوتا تھا تو سٹوڈنٹس سبھی جہاں گاڑی اتارے اس سے چند قدم دور ہی بیٹھ کر تصاویر وغیرہ لے لیتے تھے تقریبا۔ اور میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ اگر استاد صاحب سے پوچھا تو اجازت نہیں ملنی اور اکیلے جانے کا پاکستان میں ماحول نہیں اس لیے کسی نہ کسی ایک سٹوڈنٹ کو "پتیا" کے ہم لوگ بہت اونچائی پہ نکل جاتے اور کبھی بہت گہرائی میں اور ایک دفعہ ایک الگ ہی ٹریک پہ بہت دور۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمیشہ واپسی کی جلدی ہوتی تھی اور تصاویر وغیرہ باقیوں کی نسبت کم لے ہوتی تھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ڈانٹ جتنی بھی بعد میں پڑے لیکن ایک دفعہ جنت کے نظارے آجاتے تھے۔ 😂 اور سٹوڈنٹس نے مشہور کر دیا تھا کہ یہ جب بھی ہمارے ساتھ جاتی ہے ہمیں بس دور سے اس کا اسکارف ایک پرچم کی طرح لہراتا نظر آتا ہے!!!
ایک دفعہ ایک پشتون(سخت جان ہوتے ہیں اور پہاڑوں میں رہتے ہیں) استاد صاحب نے پی ایچ ڈی کے دوران مجھے کہا کہ اپنا لیپ ٹاپ دیں سلائیڈز کے لیے۔ (ان دنوں میں نیا لیپ ٹاپ شدت سے ڈھونڈ رہی تھی ) میرے لیپ ٹاپ سے پروجیکٹر پر پڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کا لیپ ٹاپ تو آپ کے جیسا نہیں ہے، آپ تو اتنی فاسٹ ہیں کہ پہاڑوں میں ہم سب کو مات وغیرہ۔۔۔
اور ابھی شادی کے بعد جب جب جانا ہو ا، کئی بار فیلو ٹریولرز سے سننے کو ملا کہ آپ کو دیکھ کے لگتا ہے آپ ان کو بھی کھینچ کے لائی ہیں!!! (اگرچہ وہ تقریبا ہر جگہ سٹوڈنٹس کی طرح گاڑی سے اترتے ہی بیٹھے رہے اور میں میکسمم دور تک جاتی رہی کیونکہ بہت ضروری تھا۔ 😂) پہلی دفعہ جب حسینی برج پہ گئی تو ایک بھائی آگے سے آ رہے تھے انہوں نے کہا آپی آپ کو بھائی پیچھے سے بلا رہے ہیں (حالانکہ اجازت لے کر آئی تھی)۔ میں نے کہا بھائی مجھے آپ کی آواز نہیں آ رہی۔۔۔۔🤣🤣 پھر انہوں نے کہا باجی ان کو دیکھ کے لگ رہا ہے وہ بہت پریشان ہیں۔ پھر میں واپس ہوگئی لیکن اگلے ٹرپ پہ پھر گئی۔ مزید برآں یو کے میں قیام کے دوران سٹائپنڈ اتنا کم تھا کہ اتنے میں وہاں ہاسٹل کا کرایہ نہ پورا ہو، اور مجھے یونیورسٹی سے کافی دور رہنا پڑا تاکہ محدود وسائل اور وقت میں جتنا سا سفر ہو سکے سارا سٹائپنڈ وہاں لگاوں۔ ان نظاروں کے سوا کچھ محسوس نہیں ہوتا کہ اور کوئی شے ہے جس سے نظریں نہ ہٹائی جا سکتی ہوں۔ 2021 میں ایک بار موت کے منہ میں جا کر واپس آئی اور دوبارہ سے زندگی کی ہر شے سیکھی، مگر سیکھتے ہی اور بستر سے اٹھتے ہی پہنچ گئے پہاڑوں میں وغیرہ وغیرہ۔ آج کل سائیڈ ٹیبل پہ کے ٹو ہے اور بظاہر حالات ایسے ہیں کہ شاید کبھی ایسا نہ کر پاوں مگر خواب رکھنے کی طمانیت ضرور ہے۔ :)
 

یاز

محفلین
زبردست زکریا بھائی! بہت خوبصورت تصویر ہے۔ پچپن میں جب مستنصر حسین تارڑ صاحب کے ایک سفر نامے، غالبا ’’چترال داستان‘‘ میں راکاپوشی کا نام اور کچھ تفصیلات پڑھی تھیں، تو اس پہاڑ کی ایک عجیب سی پر ہیبت اور با وقار تصویر دل میں بن گئی تھی۔ پھر اس کی تصاویر بھی دیکھتے رہے، لیکن آج اس کے سامنے موجود ایک مسافر کے کیمرے سے بنی تازہ تصویر دیکھ کر یقین آگیا کہ تارڑ صاحب کی منظر کشی اور اس پہاڑ کو دیا گیا نام دونوں اسم با مسمی ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ سفید لباس میں ملبوس کسی پرستان کی ملکہ جلوہ افروز ہے۔ لطف آگیا! بے حد شکریہ!
چترال نہیں۔۔۔۔ ہنزہ داستان نامی کتاب میں نصف کے قریب ذکر تو راکاپوشی صاحبہ کا ہی تھا۔
 

زیک

مسافر
بادلوں کی وجہ سے پسو کونز کا پراپر نظارہ نہ ہو پانے پہ تعزیت قبول کریں۔
کچھ بہتر حالات میں پسو کونز کچھ یوں دکھائی دیتی ہیں ۔
پہاڑوں میں بادل ہمیشہ کا مسئلہ ہیں۔اسی لڑی میں ننگاپربت کی تصاویر ہی دیکھ لیں۔ کسی وقت تو وہ بالکل بادلوں میں غائب۔

ویسے پسو کونز کو آتے جاتے کئی دفعہ دیکھا بغیر بادلوں کے بھی لیکن تصویر کے وقت ۔۔۔
 
Top