مریم افتخار
محفلین
سیاسی لطائف کو لسانی لطائف میں بدلنے کی مہارت اور پھرتی وغیرہیا "آخرین سفر بہ پاکستان" بھی ایک آپشن ہے۔ حسبِ ذائقہ است وغیرہ بھی لگا سکتے ہیں آخر میں۔
آخری تدوین:
سیاسی لطائف کو لسانی لطائف میں بدلنے کی مہارت اور پھرتی وغیرہیا "آخرین سفر بہ پاکستان" بھی ایک آپشن ہے۔ حسبِ ذائقہ است وغیرہ بھی لگا سکتے ہیں آخر میں۔
وعلیکم السلام مریم۔ آپ کیسی ہیں؟ ہماری تو بس مصروفیات بڑھ گئی ہیں۔ گزرا ہوا وقت یاد آتا ہے جب مشاغل کے لئے وقت ہوتا تھا۔السلام علیکم۔ کیسے ہیں آپ؟ امید ہے محفل کے آخری ایام میں بھرپور شرکت کریں گے۔ اور کچھ نہیں تو ہنزہ ہی دکھا دیں!!
کاش انتظامیہ بھی اتنی سست ہو سکتی۔ مگر محفلین اور انتظامیہ کی طبیعتوں کا یہ تضاد ہی شاید محفل کے لیے عارضہ قلب بنا!وعلیکم السلام مریم۔ آپ کیسی ہیں؟ ہماری تو بس مصروفیات بڑھ گئی ہیں۔ گزرا ہوا وقت یاد آتا ہے جب مشاغل کے لئے وقت ہوتا تھا۔
ابھی دو سال میں راکاپوشی کی تصاویر میرے کیمرے سے آفس کے کمپیوٹر کے بیک گراونڈ تک پہنچی ہیں۔ کوچہ آلکساں کی روایات کو باقی رکھتے ہوئے، محفل تک پہنچنے میں شاید اتنا ہی وقت درکار ہے۔(امید ہے ان خوبصورت تصاویر کو دیکھنے کے لئے انتظامیہ محفل کو آرکائیو کرنے کے فیصلے کو دو سال تک ملتوی کر دے گی۔ 😃)
اصل خوبصورتی ناران کے بعد شروع ہوتی ہے، جب وادی کچھ اوپن اپ ہوتی ہے۔
امید ہے کہ آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ ان دونوں کتب میں چھوٹی ہائیکس کے بارے میں بہت کم (بلکہ نہ ہونے کے برابر) بتایا گیا ہے۔ زیادہ کوریج ملٹی-ڈے ٹریکس کی ہے۔دو سال قبل پلاننگ شروع کی۔ لوگوں نے سمجھا کہ 2018 کا ارادہ ہے اور مشورہ دیا کہ ابھی تو بہت جلدی ہے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ہمارے سفر کے پلان سالوں پہلے سوچے جاتے ہیں اور زنبیل میں ہر وقت دو تین پلان تیار ہوتے ہیں۔
انٹرنیٹ کھنگالا۔ آؤٹ آف پرنٹ کتابیں خریدیں تاکہ ٹریکنگ پر معلومات مل سکیں:
![]()
اور کچھ فیصلے کئے؛
- ہم اس ٹرپ پر دیسیوں کی طرح پورا محلہ یا برادری لے کر نہیں جائیں گے
- ٹرپ کسی ٹور گروپ کے ساتھ نہیں ہو گا کہ بلکہ اپنے پلان پر خود بک کیا جائے گا
- لمبی ٹریکنگ اور کیمپنگ نہیں کریں گے۔ اس بار مقامی حالات، گائیڈز اور ساز و سامان کے متعلق معلومات حاصل کریں گے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ پاکستان ٹریکنگ کے قابل ہے یا نہیں۔
- لہذا ٹرپ میں ڈرائیونگ اور ڈے ہائیکنگ زیادہ ہو گی۔
یہ کیسے لگا کہ کنہار یہاں تک نہیں آتا۔
وہ غالب تھے کہ جو بے آبرو ہو کرچلے آئےتو آپ بھی اسی زمین میں غزل کہہ ڈالیں بھائی۔
I still know what you did..... نما کچھ کر کے
بابوسر کو تو ایک ہی راستہ جاتا ہے، لیکن ناران سے چلاس یا kkh جانے کے دو جیپ ایبل راستے ہیں۔ ایک یہی بابوسر والا جہاں پکی سڑک ہے اور ہر طرح کی گاڑی جا سکتی ہے، اور یہ چلاس سے کچھ آگے زیرو پوائنٹ پہ کے کے ایچ کو جا ملتا ہے۔ دوسرا بتوگاہ پاس والا، جو لولوسر سے کچھ آگے مین سڑک سے بائیں جانب مڑیں تو آتا ہے۔ یہ صرف جیپ ایبل ٹریک ہے اور چلاس شہر میں جا نکلتا ہے۔معاف کیجیے گا ہماری بات کا مفہوم واضح نہ ہو سکا۔ مطلب کیا بابوسر ٹاپ کو دو راستے جاتے ہیں؟؟
دریا کسی واٹرشیڈ سے شروع ہونے چاہییں (تاوقتیکہ بہت ہی بڑی جھیل ہو اور اس میں ملٹی پل واٹرشیڈز سے پانی آ رہا ہو)۔ بعض جھیلیں بھی واٹرشیڈ ہو پہ واقع ہو سکتی ہیں، جیسے شندور وغیرہ۔ لیکن لولوسر کو واٹرشیڈ نہیں کہہ سکتے۔ مختصراً یہ کہ جس کی بابت آپ نے پوچھا، وہ بھی کنہار ہی کہہ لیں تو بہتر ہے۔ اس منظر میں وہ گیتی داس کی جانب سے آ رہا ہے اور دھرم سر، سمبک سر مع پانچ مزید جھیلوں سے بھی پانی اس میں شامل ہو رہا ہے۔خیر میں کنہار کے آغاز کی بات کر رہا تھا نہ کہ اختتام کی۔ میری معلومات کے مطابق کنہار کا آغاز لولوسر جھیل سے ہوتا ہے۔ تصویر میں دریا چونکہ جھیل سے شمال میں ہے اس لئے صحیح علم نہیں کہ کیا کہلاتا ہے اگرچہ گوگل میپس پر کنہار یا کنار ہی لکھا ہے
کچھ غلط نہیں ہو گیا بھائی۔ جہلم میں پہلے نیلم شامل ہوتا ہے، پھر کنہار اور پھر یہ منگلا ڈیم کے ریزروائر تک جہلم ہی رہتا ہے، بلکہ منگلا کے بعد بھی۔
معلوماتی کی ریٹنگ دے دیتی ہوں کیونکہ حیران ہونے کی تو ہے نہیں۔ لیکن یہ معلومات صبح تک بھول چکتی ہوں!کچھ غلط نہیں ہو گیا بھائی۔ جہلم میں پہلے نیلم شامل ہوتا ہے، پھر کنہار اور پھر یہ منگلا ڈیم کے ریزروائر تک جہلم ہی رہتا ہے، بلکہ منگلا کے بعد بھی۔
دریائے پونچھ الگ دریا ہے جو کوٹلی، گلپور وغیرہ کی سائیڈ سے آتا ہے اور منگلا جھیل میں شامل ہو کر آگے جہلم کا حصہ بن جاتا ہے۔
شاید آپ کو ہماری یہ بات یاد رہی ہو کہ یہ اتنے مختصر فاصلے میں دنیا کی سب سے بڑی ہائی وے سلوپ ہے، تیس پینتیس کلومیٹر میں تقریباً دس ہزار فٹ کا فرق۔
اتنی اوپر سے دیکھیں گے تو "معمولی پہاڑی" ہی محسوس ہو گی۔😁
اس پار نہیں بھائی، اپنی ہی سائیڈ پہ۔
بہت اچھا اور بالکل درست ریویوہنزہ میں پانچ راتیں ہمارا قیام ایمبیسی وینٹیج ریزارٹ میں تھا۔ یہ بہترین ہوٹل تھا۔
سب سے بڑی بات لوکیشن: ایگلز نیسٹ سے ٹھیک دو سو فٹ نیچے پہاڑی کے کنارے پر جہاں سے آپ کسی بھی کمرے سے خوبصورت ترین منظر سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔
پھر نیا بنا ہوا تھا اور اچھا اور خوبصورت۔
تیسرے ہوٹل پروموشن کے سلسلے میں اس کے کمرے کا کرایہ مقابلے کے ہوٹلوں سے کافی کم تھا۔ ہم نے فی رات ساڑھے پانچ ہزار روپے میں ہم تینوں کے لئے کمرہ (ڈبل بیڈ اور ایک میٹریس) اور ڈرائیور کے لئے رہائش لی۔ انہوں نے ہمیں کھانے پر بھی کافی ڈسکاؤنٹ دیا۔
ہمیں یہ بات پسند تھی کہ ہوٹل تک جانے آنے کے لئے ہمیں شدید اترائی اور چڑھائی پر چلنا پڑتا تھا۔ یہ راستہ خطرناک نہ تھا۔ کچی سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ شدید بارش کے نتیجے میں راستے پر پانے بہتا تھا لیکن اس کو سٹاف کچھ موڑ دیا کرتا تھا اور ہمیں آتے جاتے مسئلہ نہیں ہوا۔ لیکن ان کے اکثر کسٹمر اترنے چڑھنے سے تنگ تھے اور ہمارے وہاں قیام کے دوران کئی لوگوں نے پہنچ کر بکنگ کینسل کی اور کئی نے ایک رات رہ کر چھوڑ دیا۔
ہوٹل کا مالک سوچ رہا ہے کہ ہوٹل تک سڑک بنا لے۔ ہم نے اسے خوب منع کیا کہ ایسا نہ کرے۔ لیکن شاید پاکستان کے لئے یہ ضروری ہو۔
ہوٹل میں سٹاف کی کمی تھی۔ انہیں چند مزید لوگوں کو ہائر کرنا چاہیئے تاکہ ہوٹل کا انتظام بہتر چل سکے۔
ایک مسئلہ جو پاکستان کے پورے ٹورزم سیکٹر میں دیکھا اور اس ہوٹل میں بھی وہ efficiency کی کمی ہے۔ کوئی کام پروفیشنلی اور ایفیشنٹلی نہیں ہوتا۔ لیکن اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو اسے بیلنس کرتا ہے اور وہ یہ کہ مہمان نوازی معمول سے بڑھ کر ہے۔
ہوٹل کے ڈائننگ روم کی تصویر
![]()
آپ غیر حاضر رہیں گے تو یہ تو ہوگا!اب آپ بھی میری طرح زیک سے ححجت کرنے لگ گئے ۔![]()
واپسی کے لیئے بوریا بستر لپیٹ رہے ہیں ۔ اس لیئے آمد میں تعطل آ جاتا ہے ۔ اس کے لیئے معذرت ۔آپ غیر حاضر رہیں گے تو یہ تو ہوگا!
میرے خیال سے زیک بھائی آپ کے چہرے کے خدوخال و نقوش جرمنوں سے مشابہت رکھتے ہیں ۔اس لیے اکثر لوگوں کو آپ کے غیر ملکی ہونے کا گمان گزرتا ہے۔
نہیں بھائی۔ہیں۔۔۔۔
آپ نے جرمنوں کے ساتھ کام کیا ہے یا جرمنی رہ کر آئے ہیں؟