مومن وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمھیں یاد ہو ہو کہ نہ یاد ہو - مومن

وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے جو سب میں روبرو ، تو اشاروں ہی میں گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم ، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہ ملامتِ اقرباء ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی ایسی بات ہوئی اگر کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا ،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی ، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا ، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
 

تلمیذ

لائبریرین
کلام اساتذہ ہی اردو ادب کا سرمایہ ہے، یوں لگتا ہے احساسات کے موتی چن چن کر اظہار کی مالا میں پرو کر رکھ دئیے گئے ہیں

آپکا انتخاب قابل داد ہے ، علوی صاحب۔
 
تلمیذ صاحب آپ کی پسندیدگی کا بہت شکریہ، یہ غزل میری بہت ہی پسندیدہ غزل ہے اور اکثر مجھے یاد آتی رہتی ہے کسی کو کچھ یاد دلانا ہو یا کچھ یادوں سے روشناس کرانا ہو تو اس کے اشعار ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔
 

ظفری

لائبریرین
مومن خاں مومن کی تو بات ہی کیا تھی ۔ خود چچا غالب بھی اُن پر فدا تھے ۔ ویسے محب ۔۔ ! تم نے اپنے دستخط میں جو شعر لکھ رکھا ہے ، وہ مومن کا ہے کہ گویا کا ۔۔۔ ؟ :wink: :lol:
 

تلمیذ

لائبریرین
علوی صاحب ، بر سبیل تذکرہ یہاں ایک وضاحت درکار ہے، لفظ ‘گویا‘ یہاں پر ‘بات کرتے ہوئے‘ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یا ‘ ا یسا لگتا ہے‘ کے معنوں میں یا کسی اور میں۔
 

جیہ

لائبریرین
اس شعر میں “گویا“ “ ایسا لگتا ہے“ کے معنوں میں ہے۔ نہ کہ “کہنے“ کے معنوں میں۔ اور “گوَیّا“ تو ہرگز ہرگز نہیں :lol:
 

ظفری

لائبریرین
دو چار دن سے محب کو چھیڑا نہیں تھا ناں اس لیئے آج اُس کے دستخط کو لے کر بیٹھ گیا ۔۔۔ :wink: :lol:
 

ظفری

لائبریرین
یہ بھی ٹھیک ہے ۔۔۔ مگر سچ تو یہ ہے ۔

آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

بس محب کہتا ہے کہ ظفری ! کبھی کبھی مجھے جگا لیا کرو ۔

:wink:
 

سارا

محفلین
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا

محب علوی نے کہا:
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے جو سب میں روبرو ، تو اشاروں ہی میں گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم ، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہ ملامتِ اقرباء ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی ایسی بات ہوئی اگر کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا ،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی ، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا ، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

زبردست محب بھائی۔۔۔
 
ظفری نے کہا:
مومن خاں مومن کی تو بات ہی کیا تھی ۔ خود چچا غالب بھی اُن پر فدا تھے ۔ ویسے محب ۔۔ ! تم نے اپنے دستخط میں جو شعر لکھ رکھا ہے ، وہ مومن کا ہے کہ گویا کا ۔۔۔ ؟ :wink: :lol:

کیا یاد کروایا دیا تم نے ظفری ، چچا غالب تو اس قدر فدا تھے اس شعر پر کہ مومن سے کہا کرتے تھے یہ شعر مجھے دے دو اور بدلے میں میرا سارا دیوان لے لو ( جویریہ نہیں مانے گی اس بات کو مگر ہے کچھ ایسا ہی )

جو شعر میں نے لکھا ہے وہ استاد مومن خان مومن کا تمہارے پچھواڑے میں جو مومن گویا ہے اس کا نہیں

:wink:
 
تلمیذ نے کہا:
علوی صاحب ، بر سبیل تذکرہ یہاں ایک وضاحت درکار ہے، لفظ ‘گویا‘ یہاں پر ‘بات کرتے ہوئے‘ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یا ‘ ا یسا لگتا ہے‘ کے معنوں میں یا کسی اور میں۔

تلمیذ صاحب کیا خوبصورت سوال پوچھا ہے آپ نے اور عمدگی سے اس کے مختلف پہلوؤں پر بھی روشنی ڈال دی ، آپ کا استاد ہو کر تلمیذ بن کر پوچھنا دلچسپ انداز ہے ۔ اس شعر کی یہی خوبصورتی ہے کہ یہ دونوں معنوں میں استعمال ہو رہا ہے

‘بات کرتے ہوئے‘
‘ ا یسا لگتا ہے‘

دونوں معنوں میں اور دونوں میں اس کی خوبصورتی ایک دوسرے سر بڑھ کر ہے ۔ سہل ممتنع (ایسا شعر جو دیکھنے میں آسان اور کہنے میں بہت مشکل ہو ) کی بہترین مثال ہے شعر اور اس صنعت میں مومن کا مقام بہت بلند ہے۔
 
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا

سارا نے کہا:
محب علوی نے کہا:
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے جو سب میں روبرو ، تو اشاروں ہی میں گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم ، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہ ملامتِ اقرباء ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی ایسی بات ہوئی اگر کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا ،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی ، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا ، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

زبردست محب بھائی۔۔۔

شکریہ سارا، آپ کا شاعری کا ذوق بھی خوب ہے اور آپ کی اس داد سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ آجکل کوئی کتاب نہیں ٹائپ کررہی نہ آپ
 
ظفری نے کہا:
یہ بھی ٹھیک ہے ۔۔۔ مگر سچ تو یہ ہے ۔

آزاد رو ہوں اور مرا مسلک ہے صلح کل
ہرگز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

بس محب کہتا ہے کہ ظفری ! کبھی کبھی مجھے جگا لیا کرو ۔

:wink:

استاد انشاء اللہ خاں کا شعر یاد آگیا

نہ چھیڑ نکہتِ باد بہاری راہ الگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

ویسے صرف شعر ہے میری کیفیت نہیں ۔ :)
 

ماوراء

محفلین
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا

محب علوی نے کہا:
سارا نے کہا:
محب علوی نے کہا:
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا میرے حال پر
مجھے سب یاد ہے ذرا ذرا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے جو سب میں روبرو ، تو اشاروں ہی میں گفتگو
وہ بیان شوق کا برملا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم ، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہ ملامتِ اقرباء ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی ایسی بات ہوئی اگر کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا ،تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی ، کبھی ہم میں تم میں بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا ، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا ، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

زبردست محب بھائی۔۔۔

شکریہ سارا، آپ کا شاعری کا ذوق بھی خوب ہے اور آپ کی اس داد سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔ آجکل کوئی کتاب نہیں ٹائپ کررہی نہ آپ

اس نے میری مدد کرنی ہے۔ اس لیے آجکل کچھ نہیں لکھ رہی۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ جو لطف مجھ پہ تھے پیش تر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ نئے گلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ روٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرُو، تو اشارتوں ہی سے گفتگو
وہ بیانِ شوق کا برملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

ہوئے اتفاق سے گر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گلہء ملامتِ اقربا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کوئی ایسی بات اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

سنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نباہنے کا تو ذکر کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مِرے دل سے صاف اتر گئی
تَو کہا کہ جانے مِری بلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

وہ بگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

(حکیم مومن خان مومن)
 

نایاب

لائبریرین


جسے آپ گنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے با وفا
میں وہی ہوں مومنِ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو


(حکیم مومن خان مومن)
السلام علیکم
محترم سخنور جی
واہ
زبردست
" میں ہوں وہی مومن مبتلا "
حکیم مومن خان مومن جی کا یہ شکوہ ۔
دل کو چھو لیتا ہے ۔
نایاب
 
Top