مومن وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمھیں یاد ہو ہو کہ نہ یاد ہو - مومن

فرخ منظور

لائبریرین
حکیم مومن خان مومن کی خوبصورت غزل شئیر کرنے کا شکریہ۔

میرے خیال میں یہ غزل پہلے بھی پوسٹ ہو چکی ہے۔

بہت شکریہ پسند کرنے کے لئے۔ اگر آپ ٹیگ میں مومن کو کلک کریں گے تو آپ کو وہ غزل مل جائے گی۔ لیکن وہ غزل نامکمل ہے اور اس میں غلطیاں بھی کافی ہیں۔ محب علوی محفل کے کافی پرانے رکن ہیں لیکن شاید انہوں نے یہ غزل یاد داشت سے ٹائپ کی تھی جبکہ میں نے کلیاتِ مومن سے ٹائپ کر کے پوسٹ کی ہے۔
 
بھائی کسی نے دو تین ارسال کی تھیں مگر نہ شاعر کا پتہ نہ تھا تو کیا پوچھتا۔ اب تو اس کو یہاں سے چرالیا ہے۔ پتہ نہیں کیا جرمانہ ہوگا؟
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ فرخ صاحب، مکمل اور اغلاط سے پاک غزل پوسٹ کرنے کیلیے! افسوس کہ مجبوراً مجھے انہیں یکجا کرنا پڑا!
 

فرخ منظور

لائبریرین
بھائی کسی نے دو تین ارسال کی تھیں مگر نہ شاعر کا پتہ نہ تھا تو کیا پوچھتا۔ اب تو اس کو یہاں سے چرالیا ہے۔ پتہ نہیں کیا جرمانہ ہوگا؟

قبلہ میرا پوسٹ کیا ہوا کوئی بھی ادبی پارہ آپ یا کوئی بھی بلا اجازت کاپی کر سکتا ہے۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ فرخ صاحب، مکمل اور اغلاط سے پاک غزل پوسٹ کرنے کیلیے! افسوس کہ مجبوراً مجھے انہیں یکجا کرنا پڑا!

قبلہ میری پوسٹ کی ہوئی غزل محب علوی کی پوسٹ میں بھی لگا دیں۔ میں نے اسی لئے محب علوی کی پوسٹ کے ساتھ شامل نہیں کی تھی کہ اس میں کافی غلطیاں تھیں۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ محفل میں غلطیوں سے پاک کلام ہونا چاہیے تو پھر محب علوی کی پوسٹ کو ایڈیٹ کر دیں۔ جیسے پھول کی پوسٹ ایڈیٹ کی تھی۔ ;)
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ قبلہ یاد دہانی اور نمک پاشی کیلیے ;)

کچھ فرصت ملتی ہے تو دیکھتا ہوں، ویسے جب آپ مشقت کر چکے تو مجھ سے محنت کیوں کرواتے ہیں کہ صحیح غزل تو پوسٹ ہو ہی چکی :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ قبلہ یاد دہانی اور نمک پاشی کیلیے ;)

کچھ فرصت ملتی ہے تو دیکھتا ہوں، ویسے جب آپ مشقت کر چکے تو مجھ سے محنت کیوں کرواتے ہیں کہ صحیح غزل تو پوسٹ ہو ہی چکی :)

سر جی! نمک پاشی بھی تو کوئی چیز ہے دنیا میں۔ ;)
 

نور وجدان

لائبریرین
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی وعدہ، یعنی نباہ کا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ جو لُطف مجھ پہ تھے پیشتر، وہ کرم کہ تھا مرے حال پر
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ نئے گِلے، وہ شکایتیں، وہ مزے مزے کی حکایتیں
وہ ہر ایک بات پہ رُوٹھنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی بیٹھے سب میں جو رُوبرُو، تو اشارتوں ہی سے گُفتگو
وہ بیان شوق کا برملا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ہوئے اتفاق سے گر بہم، تو وفا جتانے کو دم بہ دم
گِلۂ ملامتِ اقربا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کوئی ایسی بات اگر ہوئی کہ تمہارے جی کو بُری لگی
تو بیاں سے پہلے ہی بُھولنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی، کبھی ہم سے تم سے بھی راہ تھی
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
سُنو ذکر ہے کئی سال کا کہ کیا اِک آپ نے وعدہ تھا
سو نِباہنے کا تو ذکر کیا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مِرے دل سے صاف اُتر گئی
تَو کہا کہ جانے مِری بلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہ بِگڑنا وصل کی رات کا، وہ نہ ماننا کسی بات کا
وہ نہیں نہیں کی ہر آن ادا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
جسے آپ گِنتے تھے آشنا، جسے آپ کہتے تھے باوفا
میں وہی ہوں مومنِؔ مبتلا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مومن خان مومنؔ
 
Top